غیبت

کِسی کے پِس پُشت اس کا ذکر ایسے کرنا کہ اگر وہ سنے تو بُرا مانے، بیشک وہ سب اس کے بارے میں سچ ہو غیبت کہلاتا ہے۔
اے اللہ ہمیں غیبت کی برائی سے نجات عطا فرما دے۔آمین)
﴿
ہم سب بہت احتیاط کر تے ہیں کہ حرام چیز نہ کھائیں۔ اور غیبت جس کے لیے اللہ فرماتا ہے کہ غیبت کر نے والا اپنے مر دہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو تا ہے ۔اس وقت احتیاط کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں....؟
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام ایک مردار کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ ﷺنے اپنے ساتھ والوں سے فرمایا کہ اس میں سے کھا لو۔
ساتھ والوں نے عرض کیا کہ مردار کیسے کھائیں؟
آپﷺ نے فرمایا غیبت کر کے جو مردہ بھائی کا گوشت کھا تے ہو وہ اس سے بھی بدتر اور نجس ہو تا ہے۔
﴿
القرآن سورة الہمزہ میں اللہ کا فرمان ہے:
” ہر اس شخص کے لیے خرابی ہے جو رو برو طعنہ زنی کر نے والا اور پس پشت عیب جوئی کرنے والا ہے۔“
سوچئیے! اگر ہم بھی غیبت کر رہے ہیں تو کہیں اپنی زندگی کی خرابی اور مسائل کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں ہیں؟
﴿
غور کریں کہ آخر ہم کسی کے لیے ایسی باتیں کیوں کر تے ہیں جو اگر ہمارے بارے میں کہی جائیں تو ہمیں برُا لگے۔
اللہ ہمیں غیبت جیسی بُرائی سے بچنے میں مدد دے۔ آمین)
﴿
جب ہم کسی کے عیب بیان کر تے ہیں تب ہماری نظر میں اپنے عیب نہیں ہو تے۔
اے اللہ ! ہماری نظر میں اپنے عیب کھول دے تاکہ ہم ہر لمحہ اپنے عیبوں پرشرمندہ ہو کر تجھ سے معافی مانگتے رہیں۔ آمین)
﴿
اپنی پاکبازی کا احساس ہی اصل میں ہمیں کسی کی برائی بیان کرنے کی ہمت دیتا ہے۔
کبھی سوچئیے...!
ہم پاکباز ہیں یا ستارالعیوب نے ہمارے عیبوں پر پردے ڈال رکھے ہیں؟
﴿
غیبت سننے والے بھی غیبت کرنے والوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں کیونکہ بعض اوقات سننے والوں کی دلچسپی کی و جہ سے بھی غیبت ہو رہی ہو تی ہے۔
اللہ ہمیں باتیں کرتے ہوئے بھی اور سنتے ہوئے بھی غیبت سے بچالے۔ آمین)
﴿
جب بھی آپ کچھ بولنے لگیںپہلے سوچ لیجیے کہ
کہیں ہم سے غیبت نہ ہو جائے کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے۔
” غیبت ایک ایسا گنا ہ ہے جس کی وجہ سے لوگ کاٹ کاٹ کر جہنم میں پھینکے جائیں گے“
اللہ غیبت کر نے سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام کا فرمان ہے
غیبت سے بچواس میں تین آفات ہیں۔
اس کی دُعا قبول نہیں ہو تی۔
اس پر گناہوں کا ڈھیر لگ جا تا ہے۔
اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہو تی۔
کاش ہمارا دِل غیبت کی ان آفات کی سنگینیوں کو سمجھ سکے۔ آمین)
﴿
حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا
” لوگوں کے ذکر سے بچو کیونکہ یہ ایک بیماری ہے“
غور کیجئے
کہیں ہم بھی لوگوں کے ذکر کی بیماری کا شکار تو نہیں.....؟
اللہ ہمیں اس ذکر سے بچا ئے ۔ آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا کہ آپﷺ نے شب ِ معراج ایک ایسی قوم کو دیکھا جو اپنے چہروں کا گوشت اپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے۔میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ غیبت کرنے والے ہیں۔
اللہ ہمیں اس برائی سے اپنی امان میں رکھے ۔ آمین)
﴿
حضرت امام غزالی ؒ بیان کر تے ہیں کہ حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اللہ کے حکم پر ابلیس کو جب زمین پر پھینکا گیا تو وہ سمندر کی طرف گیا اور مچھلی کو بتایا کہ آدم زاد سمندر اور خشکی کے جانوروں کا شِکار کر ے گا۔مچھلی نے سب سمندری جانوروں کو بتا دیا۔ اس غیبت کی وجہ سے مچھلی کی زبان غائب کر دی گئی۔
سوچئیے!
اگر غیبت کی یہ سزا ہم انسانوں میں جاری کر دی جا تی تو ہم زبان والے ہو تے یا بنِازبان؟
﴿
حضرت جا بربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے
ہم پیارے آ قائے دو جہانﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک بد بو پھیل گئی۔
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے پوچھا کیا تم بد بو کا سبب جانتے ہو؟عرض کیا جی نہیں۔
فر مایا :یہ بد بو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کر تے ہیں
یعنی غیبت سے بد بو پھیلتی ہے تو ہم سب کو غیبت کی بد بو محسوس کیوں نہیں ہو تی؟
﴿
جیسے مکھی صاف جگہ چھوڑ کر ہمیشہ گند پر بیٹھی ہے ایسے ہی لوگ کسی کی اچھائیوں کو نظر انداز کر کے اس کے عیبوں کو ڈسکس کر تے ہیں۔
خود کو چیک کریں کیا ہماری نظر میں کسِی کی خوبیاں رہتی ہیں یا عیب؟
﴿
اللہ نے حضرت موسیؑ کو وحی بھیجی کہ” غیبت سے توبہ کر کے مرنے والا سب سے آخر میں جنت میں جائے گااور بغیر توبہ کے مرنے والا سب سے پہلے دوزخ میں جائے گا“
اللہ ہمیں اس گناہ سے اپنی پناہ میں رکھنا۔ (آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے غیبت کو زِنا سے بد تر قرار دیا ہے اور اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ زِنا کی توبہ قبول ہو جا تی ہے۔ مگرغیبت کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہو تی ہے۔ جب تک وہ معاف نہ کرے جس کی غیبت کی۔
اللہ ہمیں اس گناہ کی سنگینی کا احساس عطا فرما دے۔ آمین)
﴿
کسی کے عیب کو صرف ان حالات میں اس کے پس پردہ بیان کر نے کی اجازت ہے کہ مظلوم کا معاملہ ہو جہاں سے اسے انصاف مل سکے ۔فتویٰ پوچھنے یا مشورہ لینے کے لیے معاملہ بیان کرنا، ظالم بادشاہ ، بدعتی اور کھلم کھلا گناہ کرنے والے( کیونکہ یہ لوگ خود ہی ان عیبوں کو نہیں چھپاتے )کے کسی فساد یا برائی کا ذِ کر اس شخص سے کرنا جو برائی کرنے والے کی اصلاح یا احتساب پر قادر ہو۔پر ان سب حالات میں بھی بات کر تے ہوئے یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ہماری نیت صرف یہی ہونی چاہیے۔
﴾﴿