فضول خرچی

اسراف یا بے جا خرچ سے انسانی زندگی اور معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہو تا ہے اس لیے اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں فرماتا۔
سورة الانعام آیت 141
” بے شک وہ اسراف کر نے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔“
اور جسے اللہ پسند نہ کرے اور محبت نہ رکھے تو اس کا ٹھکانہ اور مقام کیا ہو گا؟
﴿
اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو ان کے مقصد اور فائدے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے صرف اپنی خواہش اور لذت کے لیے استعمال کر نا بھی فضول خرچی اوراسراف ہے۔
اللہ ہمیں فضول خرچی اوراسراف سے بچائے۔ آمین
﴿
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق خر چ کرنا اور..... خواہشات نفسانی یا لذت دنیا کی چاہت میں خرچ کرنا ...ان دونوں میں بہت فر ق ہے۔
سوچئیے
کیا ہم ضرورت پوری کر تے ہیں یا نفس کی خواہشیں ہمیں اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں اور ہم فضول خرچی میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
﴿
اسلام زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی کا سبق دیتا ہے۔ اس لیے جہاں فضول خرچی اوراسراف سے بچنے کا حکم ہے۔ وہیں بخل یا کنجوسی سے بھی منع کیا گیا ہے۔
اللہ ہمیں ان دونوں سے بچا کر اپنی پسند کے مطابق خرچ کرنے والوں میں شامل کر دے۔آمین
﴿
کنجوسی سے مراد یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ جو خرچ کیا وہ ضائع ہو گیا اور جو بچا لیا وہ بڑا کام آئے گا۔ بخیل ہر طرح سے نقصان میں رہتا ہے کیونکہ وہ مال حاصل کرنے کے لیے ساری مشکلیں برداشت کر تا ہے۔ اس مال کو وہ دوسروں کے لیے جمع کر تا رہتا ہے۔ اور خود اس مال کو ٹھیک سے استعمال نہیں کر تا۔
اللہ ہمیں فضول خرچی اور بخل کرنے والوں میں شامل ہونے سے بچالے۔ آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
”جس نے میانہ روی سے کام لیا وہ تنگ دست نہیں ہو گا۔“ جس جگہ جتنا خرچ کرنے کا حکم ہے۔ وہاں خر چ نہ کر نا یا بہت کم خرچ کرنا بخل ہے اور جس جگہ جتنا خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں اتنا خرچ کرنا میانہ روی ہے۔
اللہ ہمیں اپنے حکم پر خرچ کرنے کی سمجھ عطا کر کے فضول خرچی سے بچائے۔ آمین
﴿
بخیل اللہ کے نا شکر ے ہو تے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنا مال استعمال نہ کر کے خوشی ، لطف اور بھلائی سے محروم رہتے ہیں اس لیے سچے دل سے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کر تے۔
افسوس! کہ نا شکرے لوگوں میں شامل رہ کر ساری زندگی مال اکٹھا کر کے جب بخیل مر جا تا ہے۔تو اس کا مال دوسروں کا ہو جا تا ہے۔
﴿
”بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہیں کر تا“(سورةالبقرہ)
اللہ ہمیں حد میں رہ کر فرماں برداری کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)
﴿
اگر ہم اللہ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزاریں تو وہ ایک پناہ گاہ میں رہنے کی طرح ہے ۔جہاں ہم نفس،شیطان اور دنیا کے ہاتھوں میں پھنسنے سے بچے رہتے ہیں۔
اللہ ہمیں اپنی پناہ گاہ عطا کر دے۔
آمین
﴿
اپنا جائزہ لیں اور جب جب ہم نے اللہ کی بنائی ہوئی حدود سے تجاوز کیا اس پر شرمندہ ہو کر سچے دل سے توبہ کریں ۔
سورة البقرہ آیت 222میں اللہ فرماتا ہے
” بیشک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کر تا ہے“
اے اللہ... !ہم نے جب بھی دانستہ یا دانستہ تیر ی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کیا اس پر سچی تو بہ کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین
﴾﴿