شکوہ

جب ہم اللہ کے کسی بھی فیصلے ، اس کی مرضی و منشا پر دل سے راضی نہیں ہوتے اور اس پر ہمارے احساس یا سوچ میں کوئی اعتراض اٹھتا یا ہمارے کسی عمل سے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے تو اسے شکوہ کہتے ہیں۔
﴿
اللہ کے بندے وہی ہیں جو بنا کسی شکوے کے کسی بھی طرح کے حالات و واقعات اور معاملات کو اللہ کی مرضی سمجھ کر انہیں بلا چوں چراں قبول کرتے ہیں۔کیوں کہ جو ایسا نہیں کرتے وہ شکوے میں چلے جاتے ہیں۔اپنا جائزہ لیں ہم خود کو اللہ کا بندہ توکہتے ہیں پر کیا ہم بلا چوں چراں یعنی بنا کسی شکوے اس کی مرضی کو قبول کر رہے ہوتے ہیں؟
﴿
شکوہ دل کے احساس کا نام ہے اور یہ احساس زیادہ تر تب بیدار ہوتا ہے جب ہم خود کو اور دوسروں کوحاصل کردہ نعمتوں کا موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ایسے میںشکر کے احساس کی کمی یا زیادہ کا لالچ ہمیں شکوہ پر مجبور کرتا ہے۔
اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر کی توفیق دے اور شکوہ سے بچائے۔آمین
﴿
اللہ ہمیں ستر ماﺅں سے زیادہ چاہتا ہے اور اس کے ہر فیصلے میں ہی ہمارے لیے بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔ چاہے ہم اسے سمجھ سکیں یا نہیں مگر ہمارے لیے کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اللہ کی اس قدر محبت کے باوجود ہم اس کے فیصلوں پر اعتراض اور اس سے شکوہ کر کے کیسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں؟
ضرور سوچیے
﴿
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم شکوے میں کیوں جاتے ہیں ؟ اس کی وجہ اللہ پہ ایمان کی کمزوری ہے۔اور اس کے ہر فیصلے کے بہترین ہونے کے یقین پر کمی ہمیں شکوہ میں مبتلا کرتی ہے۔اللہ ہمیں ایمان اور یقین کی مضبوطی عطا فرمائے ۔(آمین)
﴿
ہم ایک طرف تو اللہ سے محبت کے دعوے کرتے ہیںمگر ساتھ ہی اللہ کی پسند اور اس کے حکم کے مطابق ہوئے فیصلے پر شکوہ بھی کرتے ہیں۔بعض اوقات ہم اس شکوے کا اظہار زبان سے تو نہیں کرتے مگر ہمارے دل میں شکوہ موجود ہوتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
﴿
ہم شکوے میں تب جاتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق تھا اور ہمیں کیوں نہ دیا گےا۔افسوس ہماری ایسی سوچ پر!
جیسے ہی ایسی سوچ شکوے کی صورت بیدار ہو فوراً خود کو عاجزی میں لے جائیں۔ اور اللہ نے جو کچھ اپنے خاص فضل سے عطاکر رکھا ہے اس پر شکر کریں کہ ہم تو اس کے لائق بھی نہیں تھے۔تیرا کرم کہ تو نے یہ سب کچھ عطا کیا ...تو شکوے سے بچ سکتے ہیں۔
ایک کوشش ضرور کریں۔
﴾﴿