تو بہ

اگر کوئی شخص اپنے بعض گناہوں سے توبہ کر ے اور بعض سے نہ کرے تو یہ درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”تویہ محبت کا مرتبہ اسی کو حاصل ہو گا جو سب گناہوں سے توبہ کرے


اللہ ہمیں اپنے ہر گناہ پر توبہ کی توفیق عطا کرے۔ آمین
﴿
پیارے آ قائے دو جہاں ﷺنے فرمایا
” جو شخص مغرب کی طرف سے آفتاب نکلنے سے پہلے توبہ کرے گا اس کی توبہ ضرور قبول ہو گی۔ اور فر مایا کہ اللہ جس بندے کو گناہ پر نادم جانتا ہے اسے بخشش مانگنے سے پہلے بخش دیتا ہے۔“
ذرا سوچیئے! اللہ نے ہمیں دین میں کتنی آ سانیاں عطا کی ہیں اللہ ہمیں ان پر عمل کی توفیق عطا کرے۔ آ مین)
﴿
توبہ کی بنیاد ہی پشیمانی ہے۔ زبانی استغفار جس میں قلب متاثر نہ ہو وہ مفید نہیں۔ سچی توبہ کے لیے دل کا ساتھ ہونا ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ استغفار کر تے وقت دل میں اللہ کی ناراضگی کا خوف اور اپنی خطاﺅںوگناہوں پر ندامت موجود ہو۔
اللہ ہمیں گناہوں پر سچے دل سے خوف الٰہی کا احساس عطا کرے۔ آمین
﴿
پیارے آ قائے دو جہاں ﷺنے فرمایا
” جب تو نے چھپ کر گناہ کیا تو چھپ کر عبادت کرتا کہ گناہ کا کفارہ ہو جائے اور اگر کھلے بندوں گناہ کیا ہے تو کھلے بندوں عبادت کر۔“
جب بھی گناہ سرزد ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ اسکا کفارہ اور استغفار میں جلدی کر یں تاکہ تو بہ کا صحیح حق ادا ہو۔ اللہ ہمیں ایسا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔
آمین
﴿
قرآن پاک میں ہے
”اور ایسے لوگوں کے لیے توبہ کی (قبولیت )نہیں ہے۔جو گناہ کر تے چلے جائیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کے سامنے موت آ پہنچے تو ( اس وقت) کہے کہ میں تو بہ کر تا ہوں۔“
اس سے پتہ چلتا ہے کہ تو بہ کا دروازہ تب تک کھلا رہتا ہے جب تک زندہ ہیں۔ جب موت کا فرشتہ نظر آئے گا اس وقت توبہ کا دروازہ بندہو جائے گا۔
اللہ ہمیں زندگی میں ہی اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی توفیق عطا کر دے۔
آ مین
﴿
تو بہ مومن کا ہتھیار ہے شیطان سے لڑنے کے لیے۔
توبہ کا مطلب ہے پلٹنا۔ جب ہم توبہ کر تے ہیں تو شیطان سے اور اپنے گناہوں سے لڑ تے ہوئے اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ بس یہی وہ مقام ہو تا ہے جہاں سے اللہ کی قربت کا سفر شروع ہو تا ہے۔
سوچیئے کیا ہمیں اپنے مالک کی طرف پلٹنا نہیں چاہیئے؟
توکیوں نہ آ ج سے سچے دل سے توبہ کر کے یہ سفر شروع کریں۔
﴿
پیارے آ قائے دو جہاں ﷺنے فرمایا کہ
جب شیطان مردود ہوا تو اس نے کہا کہ اے رب
تیر ی عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو ہمیشہ بہکاتا رہوں گا۔ جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی۔
اللہ نے ارشاد فرمایا
مجھے قسم ہے اپنے عزت و جلال کی...! اور اپنے اعلیٰ مقام کی...! جب تک وہ مجھ سے توبہ کر تے رہیں گے میں ان کو بخشتا رہوں گا۔


“ (سبحان اللہ)
اللہ ہمیں سچی توبہ کر نے کی توفیق د ے کر بخشش سمیٹنے کی توفیق عطا کر ے۔ آمین
﴿
سچی توبہ کا جو ارادہ پیدا ہو تا ہے وہ تین زمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔
ماضی و حال اور مستقبل۔
” ہٹے رہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل فرما دیں گے۔“القرآن
اللہ ہمیں چھوٹی بڑی برائیوں پر نادم ہو نے کی توفیق عطا کرے۔آمین
﴿
”مسلمان گناہ کو اپنے حق میں پہاڑ سمجھ کر ڈرتا ہے کہ کہیں مجھ پر پھٹ نہ پڑے۔ اور منافق گناہ کو مکھی سمجھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہے اور اڑ جا تی ہے“
جن گناہوں سے متعلق ذہن میں ہو کہ یہ ہلکے ہیں وہ بخشے نہیں جا تے۔
خود کو ان کے حوالے سے چیک کریں کہ ہماری سوچ کیا ہے؟
﴿
پیدائش سے لیکر مو ت تک گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کا کام ہے اور تمام عمر گناہوں میں غرق رہنا شیطان کا۔
جو انسان نادم ہو کر توبہ کر ے اور پچھلے گناہوں کی تلافی کر ے تو اس نے حضرت آ دم ؑ سے نسبت درست کر لی۔
کیوں نہ ہم سب بھی سچی توبہ کر کے اپنی نسبت کو ظاہر کر یں۔
﴿
تو بہ کی علامت ندامت ہے اور تائب ہر وقت اپنے گناہ پر نادم رہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ندامت کے بنا تو بہ کی کوئی حقیقت نہیں۔
اللہ ہمیں گناہوں پر نادم ہو توبہ کی توفیق عطا کرے ۔
آمین
﴾﴿