تفکر

فکر کے میدان کی کوئی انتہا نہیں ہو تی کیونکہ علم کی کوئی انتہا نہیں ہو تی۔ فکر سب چیزوں میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔لیکن جن چیزوں کا دین سے تعلق نہیں ان میں تفکر کرنے سے بہتر ہے کہ دین کی راہ میں تفکر کیا جائے۔ قرآن پاک میں بھی کئی جگہ پر تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ ہمیں دین کی راہ میں تفکر کی آشنائی عطا کر دے۔ آمین
﴿
جب ہمیں کسی پوائنٹ پر فکر کا احساس ہو تا ہے تو ہم اس کے بارے میں اصل حقیقت معلوم کر نا چاہتے ہیں۔ اور حقیقت کا علم ہو نے تک کا سفر اس پوائنٹ پر تفکر کہلا تا ہے اور تفکر سے جو علم ملتا ہے اسے اس بات کی معرفت کہتے ہیں۔
﴿
تفکر کا مطلب طلب علم ہے ۔جب ہم تفکر کر تے ہیں تو کوئی ایک معرفت ملتی ہے۔ یہی آخر نہیں ہو تا بلکہ ایک معرفت کو دوسری معرفت میں ملانے سے ہمیں تیسری معرفت ملتی ہے۔ مثلاََیہ دو معرفتیں ہیں کہ دنیا فانی ہے، اور آخرت باقی ہے ان دونوں کو ملانے سے تیسری معرفت ملتی ہے کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے۔
اللہ کی قربت کی راہ میں تفکر کئے بِنا آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ کیونکہ تفکر سے آشنائی ملتی ہے۔ آشنائی عمل کی راہ کھولتی ہے اور عمل اللہ کی قربت کا سفر تیزی سے طے کراتا ہے۔
﴿
دین میں تفکر سے مراد وہ معاملہ ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہو اس لیے کہ بندے کی راہ وہی ہے اور اسی طرح بندہ اللہ کو پہچانتا ہے۔
اللہ ہمیں غفلت سے نکال کر آشنائی کی راہ پر چلا دے۔ (آمین)
﴿
تفکر ہی نیکیوں کی کنجی ہے ۔تفکر کرنے والے میں تین چیزیں پیدا ہو تی ہیں ۔
معرفت یا پہچان
اس معرفت سے دل کی حالت بدلتی ہے۔
دِل کی حالت کا بدلنا ہی ہمارے اعمال پر اثر انداز ہو تا ہے۔
اب اگر دیکھیں تو ہمارے عمل ہماری دِل کی حالت کی وجہ سے بدلے اور دِل کی حالت معرفت کی وجہ سے بدلی اور معرفت تفکر کرنے کی وجہ سے ملی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کی اصل کنجی تفکر ہی ہے۔
﴿
بندہ یا تو اپنے اندر تفکر کر تا ہے یا اپنے رب کے اندر۔
رب کے اندر تفکر یا تو اس کی صفات میں، اس کے عجائبات میں اور مصنوعات میں ہوتا ہے یا اس کی ذات میں ہو تاہے۔
لیکن اللہ کی ذات میں تفکر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
ایک بار کچھ لوگ اللہ کی ذات میں تفکر کر رہے تھے کہ پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
تم اللہ کی ذات میں تفکر نہ کرو۔اس کی مخلوق میں تفکر کر و۔کیونکہ تم اس کی تاب نہ لاسکو گے اور اس کی حدود کو نہ پہچان سکو گے۔
﴿
بندے کا اپنی ذات میں فکر یہ ہے کہ میرے ظاہر اور باطن میں موجود اللہ کی نا پسندیدہ عادات ،بری صفات اور بد اعمالیاں کیا کیا ہیں اور ان سے اپنے ظاہر اور باطن کو کیسے پاک کریں اور فرائض کی بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ اللہ کی پسندیدہ صفات اورافضل عمل کو اچھی طرح کیسے اور کس طرح ادا کیا جائے ۔
اللہ ہمیں اپنے اندر فکر کا شعور عطا کر دے۔ آمین
﴿
جو کچھ دنیا میں موجود ہے وہ ہر طرف اتنا زیادہ ہے کہ اِن پر اپنے علم کے مطابق جتنا بھی لکھ کر سمجھا جائے بہت ہی کم ہے جب تک اللہ ہمیں سمجھ نہ عطا کرے۔
القرآن سورة البقرہ میں اللہ کا فرمان ہے :
بیشک زمین و آسمان کی تخلیق میں، دن رات کی گردش میں اور جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتے ہیں اور اس بارش کے پانی میں جسے اللہ زمین کی طرف سے اتارتا ہے ۔پھر اس کے ذریعے اس کو مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر تا ہے۔ وہ زمین جس میںاس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہواﺅں کے رخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
یہ سات نشانیاں بتائی گئی ہے۔
٭ پہلی نشانی:
جب ہم ان نشانیوں میں ایک ایک کر کے تفکر کر تے ہیں تو احساس ہو تا ہے کہ اللہ نے ہمارے لیے زمین کو بچھایا اور آسمان کو ہمارے او پر ایک مناسب فاصلے پر پھیلا دیا مگر کوئی ان کے کناروں تک پہنچ نہیں سکتا۔ اور ہم کہیں چلے جائیںپر ہم سب کے اوپر ایک ہی آسمان اور قدموں میں ایک ہی زمین رہتی ہے۔
دوسری نشانی
دن اور رات کی گردش میں تفکر کر نے سے اللہ کا بندے سے پیار کا احساس شدت سے اٹھتا ہے کہ بندے جب دن بھر کام کر یں اور تھک جائیں تو ان کے آرام اور سکون کے لیے رات ہو کہ پھر اگلے دن کام کا آغاز کر سکیں۔
تیسری نشانی
اور ان جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتے ہیں۔
کتنی حیرت کی با ت ہے کہ ریت کا ایک ذرہ اور چھوٹا سا پتھر بھی پانی میں ڈوب جا تا ہے۔ لیکن ایک خاص طرح سے بنائے اتنے بڑے جہاز اور کشتیاں تیر تی پھر تی ہیں۔ اور جہاں تک حدِ نظر پانی ہی پانی ہو اور کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو وہاں راستوں کی راہنمائی کے لیے ستارے پیدا کر دیئے ۔
چوتھی نشانی
اور اس بار ش کے پانی میںجسے آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مر دہ ہوجانے کے بعد زندہ کر تا ہے۔
ہم اپنے گھر کے درودیوار اور درخت پودے اگر دھونا چاہیں تو شاید سارا دن لگا کے بھی یہ کام مکمل نہ کر سکیں لیکن5منٹ کی بارش سے ہی نہ صرف زمین سیراب ہو جا تی ہے۔ بلکہ سارے کا سارا ماحول نکھر جا تا ہے۔
پانچویں نشانی
وہ زمین جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں ان میں پرندے ، کیڑے اور جانور ہیں ۔بعض چلتے، بعض اڑ تے اور بعض پیٹ کے بل رینگتے ہیں۔ ہر ایک کی شکل، رنگت اور رہائش جدا ہے۔ سب کو اللہ نے رہنے ، کھانے اور اپنی نسل بڑھانے کی حکمت سِکھا دی۔ جیسے چیونٹی کو سمجھ ہے کہ اگر گندم کا دانہ ثابت رکھا تو خراب ہو جائے گا اس لیے وہ گندم کے دانے کو دو ٹکڑے کر کے رکھتی ہے۔ اور دھنیا ثابت نہ رکھے تو خراب ہو جا تا ہے اس لیے اس کو ثابت رکھتی ہے۔
چھٹی نشانی۔
اللہ نے ایک ہی طرف ہوا نہیں چلائی بلکہ کبھی پورب سے پچھم اور کبھی پچھم سے پورب کی طرف ، کبھی ٹھنڈی تو کبھی گرم اور انہی ہواﺅں کے حساب سے پانی میں چلتی کشتیاں ہیں جن کے بادبان ان کے رخ بدلنے اور صحیح سمت میں چلنے کے کام آ تے ہیں۔
ساتویںنشانی۔
اور اس بادل میں جو زمین آسمان کے درمیان پابند ہے۔ آسمان پر پانی سے بھرے ہوئے بادل اڑتے پھر تے ہیں اور وہ نہ ہی ایک مطلوبہ اونچائی سے اوپر جا تے ہیں اور نہ ہی نیچے آتے ہیں بلکہ کسِی سہارے کے بِنا ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنی نشانیوں میں تفکر کر کے اپنی معرفت پانے کی توفیق دے۔آمین)
﴿
اللہ نے انسان کو ظلمت اور جہالت میں پیدا کیا ہے۔ انسان کو ایک نور کی ضرورت ہے جو اسے ظلمت اور جہالت سے نکال کر روشنی میں لائے اور وہ جان سکے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟اور یہ معلوم ہونے کا ذریعہ نورِ معرفت ہے جو تفکر کے بِنا پیدا نہیں ہو تا۔ اللہ ہمیں تفکر کی توفیق اور طاقت عطا کرے۔آمین)
﴾﴿