احساسِ رمضان ا لمبارک

روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ امت محمدی پر روزے 15شعبان العظم کو فرض کیے گئے اور اس بارے میں اللہ نے حکم فرمایا
” تم میں سے جو اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے“ (سورة البقرہ)
مسلمانوں پر سال میں ایک بار رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہے۔
اللہ ہمیں اپنے حکم اور رضا کے مطابق روزے رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے آمین
﴿
”ا ے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جاﺅ“
روزے کی حالت میں انسان سحری سے افطاری تک بھوک پیاس برداشت کر تا ہے۔ اور اپنے رب کی رضا کے لیے تمام نا پسندیدہ اعمال سے بچنے کی کوشش کر تا ہے۔ روزے کی حالت میں روزہ دار اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہ اور نفس کی آلائشوں سے بچاتاہے تو اس کے نفس کا تزکیہ ہونے لگتا ہے۔ اور اسے آئندہ بھی خود کو بچانے کی تو فیق حاصل ہو تی ہے۔یہی روزے کا مقصد ہے ۔اللہ ہمیں بہترین طریقے سے روز ے رکھنے کی توفیق دے۔ آمین
﴿
روزے کو عربی میں ”صوم“ کہتے ہیں جس کے لغوی معنی کسی ارادی فعل سے رک جانے یا باز رہنے کے ہیں۔ پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا:
” کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہو تا“
روزہ محض مقرر کردہ اوقات کے درمیان بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ روزے کی حالت میں بندہ اللہ کے حکم کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کر تا ہے۔ یوں روزہ دار اپنی بھوک پیاس اور نفس پر قابو پا کر روزے کا حقیقی مقصد حاصل کر تا ہے۔
اللہ ہمیں بھی روزے کے اصل مقصد کا شعور عطا فرما دے۔ آمین
﴿
اللہ کے لیے ادا کی گئی کسی بھی عبادت کا مقصد محض ایک مشق پورا کرنا نہیں ہے۔
بلکہ اس کے ظاہری اور باطنی آداب کو بہترین طور پر بجالانا بندے کو اپنے احساس ، سوچ اور عمل میں بہتری کی طرف راغب کر نا ہے۔
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے پیارے آقا نے فرمایا:
” جس شخص نے (روزے کی حالت) میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کچھ ضرورت نہیں کہ وہ (روزہ رکھ کر) اپنا کھانا پینا چھوڑ دے“
اللہ ہمیں روزے کے مکمل آداب کی پیروی کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
﴿
رمضان کے مہینے میں ہم بہت کچھ سے پرہیز کر تے ہیں تاکہ روزے کا حق ادا کر سکیں۔ روزے کے دوران سب سے مشکل اور ضروری کام جس سے ہم روزے کو اللہ کی رضا کے مطابق گزار کر اپنے عمل ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔وہ زبان پر کنٹرول ہے۔ کوشش کریں کہ ہم کھانے پینے کے پرہیز کے ساتھ زبان پر بھی کنٹرول کریں ۔حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا :
” جب صبح ہو تی ہے تو جسم کے سب اعضاءزبان سے کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں اللہ کا خوف رکھنا ۔اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو درست نہ رہی تو ہم بھی بگڑ جائیں گے“
اللہ ہمیں زبان پر قابو پانے کی توفیق دے۔ (آمین)
﴿
اللہ فرما تے ہیںکہ رمضان کے مہینے میں ہر ایک نیکی کا بدلہ 10سے 70گنا تک عطا فرما تا ہوں۔ مگر روزہ خالص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دیتا ہوں۔
اللہ ہمیں روزہ خالص اللہ کی رضا کے لیے رکھنے کی ہمت دے۔ آمین)
﴿
حضرت عقبہ بن عمیر ؓ نے پیارے آقائےﷺسے پوچھا کہ نجات کا ذریعہ کیا ہے؟
آپ ﷺنے فرمایا” اپنی زبان کو قابو میں رکھنا اور اپنے گناہوں پر رونا“
ذرا سوچیئے ہم کھانے پینے میں تو خود پر آسانی سے قابو پالیتے ہیں پرکیا زبان پر قابو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں....؟
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا
” روزہ دار کا سونا عبادت ہے، سانس لینا تسبیح اور دعا قبولیت کا باعث ہے“
اے اللہ! ہمیں ان تمام اعمال سے پرہیز کی توفیق عطا فرما دے جن سے رکناروزے دار کے لیے ضروری ہے۔ (آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا
” صبر آدھا ایمان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے“
اللہ ہمیں صبر و ایمان والا بنائے۔آمین
﴿
شیطان اللہ کا دشمن ہے اور نفسانی خواہشات اس کا لشکر ہیں اور روزہ شیطان کے لشکر کو شکست دیتا ہے ۔
روزہ کی حا لت میںاللہ سے طاقت مانگتے ر ہیں کہ روزے کے دوران خواہشات نفس پر قابو پا کر شیطان کے لشکر کو شکست دے سکیں۔
﴿
آدمی کی اکثر خطائیں زبان کے سبب ہو تی ہیں ۔اس لیے جو روزہ دارخود کو ایسی برائیوں سے نہیں بچاتا اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی بیمار کھانے پینے میں تو پر ہیز کر تا رہے لیکن زہر استعمال کر تا رہے۔
اللہ ہمیں اچھائی اور برائی میں تمیز عطا کر دے تاکہ ہم کچھ بھی بولنے سے پہلے اس کی حقیقت جان کر خود کو اس برائی سے روک لیں۔ آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا:
پانچ چیزیں روزے کو توڑ دیتی ہیں۔
جھوٹ
غیبت
چغلی
جھوٹی قسم کھانا
شہوت کے ساتھ کسی کی طرف دیکھنا
سوچئیے!کیا ہم اپنے روزوں کی حفاظت کا خیال کر تے ہیں؟
﴿
روزے کا مقصد صرف بھوک ، پیاس،برداشت کرنا نہیں ہے بلکہ گناہوں سے پر ہیز کرنا ہے۔ جیسا کہ نماز کا حکم ہوا تو بتایا گیا کہ اس کا مقصدفحاشی اور برائی سے بچنا ہے۔
خود کو چیک کریں کہ ہم روزے کے اصل مقصد کو پانے کے لیے کس حد تک خود کو برائیوں سے بچاتے ہیں۔
اللہ ہمیں اس میں کامیابی عطا کرے۔ آمین
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺ ارشاد کا فرمان ہے کہ
” جس نے رمضان کے آنے کی خوشی منائی اللہ اسے ایک سال تک خوشی نصیب فرماتا ہے۔ اور جس نے رمضان کے جانے کا غم منایا اس سے ایک سال تک غم دور رہتا ہے۔ خو د کو چیک کریںکیا ہم یہ خوشی و غم اس طرح مناتے ہیں؟
﴿
جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 70درجہ زیادہ تیز اور گرم ہے۔ اگر ایک دوزخی اپنا ہاتھ دنیا والوں کے سامنے نکال لے تو اس کی گرمی سے ساری دنیا جل جائے ۔
رمضان کے دِنوں میں زیادہ سے زیادہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ ہمیں گناہوں کے عذاب سے بچالے۔ آمین
﴿
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒفرما تے ہیں کہ روزے کی حقیقت ہے رکنا اور رکے رہنے کی بہت شرائط ہیں۔
مثلاََ پیٹ کو کھانے پینے سے ، آنکھ کو شہوانی خواہش سے، کان کو غیبت سننے سے، زبان کو فضول گوئی اور فتنہ انگیز با تیں کرنے سے جسم کو حکم الہی کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔ جب ان تمام شرائط پر بندہ عمل کر ے گا وہ حقیقت میں روز دار ہو گا۔اللہ ہمیں حقیقی روزہ دار بنا دے۔آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا
بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہو ئی
اگر اس مہینے میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی۔
اللہ ہمیں اس مہینے میں کثرت سے سچے دل سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)
﴿
اللہ کا ایک فرشتہ بیت المقدس پر ہر رات پکارتا ہے
” جو شخص حرام مال کھائے گا اس کے فرائض اور نوافل قبول نہ ہوں گے۔“
اے اللہ ہمیں حرام مال کھانے سے بچالے اور ہماری رمضان کی فرائض اور نوافل عبادت کو قبول فرمائے ۔ آمین
﴿
روزہ دار کو چاہیے کہ زبان پر کنٹرول کی طرح اپنے کانوں کو بھی برُی بات سننے سے روکے کیونکہ جو بات کہنی مناسب نہیں وہ سننی بھی مناسب نہیں ہے۔
﴿
رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے نجات پانے کے لیے ہے۔ ان دِنوں میں ہمیں نہ صرف اپنے لیے بلکہ پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی پوری امت کے لیے جہنم سے نجات کی دُعا کر کے اللہ کے پیارو ں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
﴿
حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے
جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ (یعنی شریعت کوسچ اور فرضیتِ رمضان پر اعتقاد رکھتے ہوئے) رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں
اللہ نے اپنی تمام عبادتوں میں اپنے بندے کے لیے مغفرت و بخشش کا سامان رکھا ہے۔ روزہ بھی ایسی ہی عبادت ہے اگر کوئی بہترین طریقے اور آداب کے ساتھ روزہ رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔اللہ ہمیں بہترین روزہ دار بنا دے۔ آمین
﴿
اللہ نے اپنے بندوں پر جو بھی عبادات فرض کی ہیں ۔ بندہ ان کی بہترین ادائیگی کر کے اللہ کی رضا اور اپنے لیے بہترین جزا حاصل کر سکتا ہے۔
پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا
جنت کے درو ازوںمیں ایک خاص دروازہ ہے جسکو باب الریان کہا جا تا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ اللہ نے جنت کے اس خاص دروازے سے روزہ داروں کے داخلے کی خوشخبری سنائی ہے۔ جس سے روزے کی فضیلت اور خصوصیت واضح ہے۔
اللہ ہمیں بھی روزے کے ظاہری اور باطنی تقاضے پورے کر کے روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین
﴿
اللہ نے تمام عبادتوں میں اپنے بندے کے لیے مغفرت و بخشش کا سامان کیا ہے۔ روزہ بھی ایسی ہی عبادت ہے ۔اور اگر کوئی بہترین طریقہ اور آداب کے ساتھ روزہ رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔اللہ ہمیں بہترین روزہ دار بنا دے۔
آمین
﴿
روزہ باطنی عبادت ہے جس کا مقصد تزکیئہ نفس کے زریعے تقویٰ کا حصول ہے۔باقی تمام عبادتوں کی طرح روزہ بھی ہمیں اللہ کے قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔سوچیے کہ کیا ہم روزے سے یہ مقصد حاصل کر پاتے ہیں؟
﴿
خیال رکھیے گا ہم سارا دن روزہ رکھ کے افطاری کے وقت اتنا مصروف یا افرا تفری میں ہوتے ہیں کہ آرام و سکون سے اس قبولیت کے وقت دعا بھی نہیں مانگ سکتے ۔اللہ ہمیں ان بابرکت گھڑیوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا کرے۔
آمین
﴿
افطار کے وقت میں اپنے ارد گرد والوں کو بھی یاد رکھ کے کچھ نہ کچھ بھیجنا نیکی کی نیکی اور محبت بڑھنے کا بہانا بھی ہے۔ کوشش کریںکہ جو لوگ افطاری کا اہتمام نہیں کر پاتے ہم ان کے ساتھ یہ نیکی کر سکیں۔
﴿
حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت ہے کہ:
”روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔ جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو “سنن نسائی
روزہ ایسی عبادت ہے جس میں بندہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے خالص اللہ کی رضا کے لیے خود کو ہر لمحے اللہ کی نظر میں محسوس کرتے ہوئے ، بھوک پیاس بھی برداشت کرتا ہے اور برائیوں سے بھی بچتا ہے۔ کیوں کہ روزے کی حالت میں بندے کو احساس ہوتا ہے کہ اس سے کچھ ایسا نہ سرزرد ہو جائے جو روزے کے آداب کے خلاف ہو۔
﴿
اگر کوئی امتی رمضان جیسی رحمتوں ، برکتوں اور مغفرت والے دنوں سے فائدہ حاصل نہ کرسکے تووہ خسارے میں رہا۔
اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنا مت بھولیے گا۔
﴿
رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جب اللہ خوش ہو کر اپنے روزے دار بندوں پربارش کی طرح عطائیں برساتاہے ۔
غور کریں کہ ہم نے کتنی جھولی پھیلا رکھی ہے...؟
﴿
رمضان کا مہینہ جب اپنے اختتام کے قریب جا رہا ہو تواپنا جائزہ لیں کہ کیا ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس دن بہت کم ہیں جب کہ ہمیں وصول زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیجیے ...!!
﴿
غور کریں کہ ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ روزے کی فضیلت سے یا تو لاعلم ہیں یا علم ہونے کے باوجود بلاعذر روزے باقاعدگی سے نہیں رکھتے ۔ اپنے ارد گرد موجود ایسے لوگوں کو ترغیب دینے کی کوشش کریں تاکہ وہ بھی اس مہینے کی برکت سے فیض یاب ہو سکیں ۔
﴿
اپنا جائزہ لیں کہ رمضان کا اختتام قریب آنے پر عید کی تیاریاں ان دنوں کی عبادات کو متاثر تو نہیں کر تیں ۔اگر ایسا ہے تو بہت احتیاط کریں۔
﴿
رمضان کا اختتام ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک پیارا دوست مہینہ ہم سے بچھڑنے کو ہو جس کا ہونا ہماری دعاﺅں کی قبولیت کا باعث تھا ۔اس لیے لمحہ لمحہ لب پر بس یہی دعا ہو کہ ”اے اللہ مجھے ہی نہیں بلکہ پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کی تمام امت کوجہنم سے بچا کر جنت عطا فرما دے۔“
)آمین(
﴾﴿