کردار کی عظمت

معرکہ ِ کربلا کی تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مقامِ رضا پر نہ صرف حضرت امامِ حسینؓ ثابت قدم رہے بلکہ آپ ؓ کے گھرانے کے باقی افراد بھی آپ ؓ ہی کی طرح کوہ ِ استقامت و وقار بن کر ثابت قدم رہے اور کسی کے قدموں میںذرا بھی لرزش نہیں آئی۔بعد میں بھی کسی نے خانوادئہ نبوت ﷺکے کسی فرد سے میدان ِ کربلا کے مصائب کا ذکر نہیں سنا ۔ ان کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا ۔بلکہ حضرت امام ِ حسین ؓ کے قاتلوں سے بھی حسن ِ سلوک کیا۔
حضرت امام زین العابدین ؓ واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ سے کچھ دور مقام پر آباد ہو گئے تھے۔حضرت امامِ حسین ؓ کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو یزید نے کسی غلطی کی سزا دینا چاہی تو وہ جان بچا کر بھاگا۔پوری سلطنت میں اسے جان بچانے کی کوئی جگہ نہ ملی۔تو بلا آخر اسی گھرانے کے پاس چلا گےا۔جس گھرانے کے خون سے وہ میدان ِ کربلا میں ہاتھ رنگ چکا تھا۔وہ شخص حضرت امام زین العابدین ؓ کے پاس آیا اور پناہ چاہی۔آپ ؓ نے اسے تین دن اپنے پاس ٹھہرایا۔اس کی خدمت و تواضع کی ۔جب وہ جانے لگا تو اسے رخت ِ سفر بھی دیا۔یہ حسنِ سلوک دیکھ کر اس شخص کے باہر جاتے قدم رک گئے اور اسے خیال آیا کہ شاید امام زین العابدین ؓ نے اسے پہچانا نہیں ہے کیونکہ اگر پہچان لیتے تو انتقام لیتے۔اس لیے وہ مڑ کے واپس آیا اور دبے لفظوں میں کہنے لگا کہ آپ ؓ نے شاید مجھے پہچانا نہیں ہے۔آپ ؓ نے پوچھا کہ تمہیں کیوں یہ گمان گزرا ہے کہ میں نے نہیں پہچانا ؟ اس نے کہا کہ جو سلوک آپ ؓ نے میرے ساتھ کیا ،وہ کوئی اپنے دشمن یا قاتلوں کے ساتھ نہیں کرتا۔امام زین العابدین ؓ مسکرائے اور فرمانے لگے کہ:
” اے ظالم!میں تجھے میدانِ کربلا کی اس گھڑی سے جانتا ہوں جب میرے باپ ؓکی گردن پر تم لوگ تلوار چلا رہے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تمہارا کردار تھا اور یہ ہمارا کردار ہے“