آپ کی رائے کا قرآن کے مطابق ہونا

مشکوٰۃ، مناقب عمر فصل ثانی میں ارشاد نبوی ہے
’’لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَّکَانَ عُمَر۔‘‘
ترجمہ: ’’اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے۔‘

ایک حدیث میں فرمایا: فرشتوں کی جماعت ِ سکینہ حضرت عمر کی زبان پر بولتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے:بیشک اﷲ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے۔ کتنے ہی مقامات ہیں کہ قرآن مجید بھی نازل نہیں ہوا تھا اﷲ تعالیٰ کے ارادے اور علم میں تھا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ غیر منزل شدہ کلام ووحی کے مطابق رائے قائم فرماتے تو اس کے بعد قرآن مجید آپ کی پیش کردہ رائے کے مطابق نازل ہوتا، جس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ! کتناہی اچھا ہو کہ طواف کعبہ کے بعد 2 رکعت نفل مقام ابراہیم کے پاس پڑھے جائیں تو آیت مبارکہ: ’’وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی‘‘ بقرہ
نازل ہوئی یعنی اے مسلمانو!تم مقام ِابرہیم کو جائے نماز بناؤ۔
(مشکوۃ، مناقب عمر فصل ثالث)
آپ نے شراب پر پابندی کی رائے پیش کی تو آیت مبارکہ نازل ہوئی:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن‘‘ (المائدہ:90)۔
ترجمہ: اے ایمان والو!شراب انگوری اور جوا اور بتوں کے نام کے نصب شدہ پتھر اورتیر ناپاک ہیں اور شیطانی کامو ں سے
ہے، ان سے بجتے رہنا تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
‘‘

بشر نامی شخص کا ایک یہودی سے جھگڑاہوا بشر کا خیال تھا کہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کروایا جائے لیکن یہودی نے کہا:مجھے پیغمبر اسلام کا فیصلہ منظور ہے کیونکہ وہ عادل وامین ہیں چنانچہ رسول اﷲﷺ نے فریقین کا موقف سننے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو بشر نامی شخص جو بظاہر مسلمان تھا، اس نے باہر نکل کر حضرت عمر فاروق سے فیصلہ لینے پر اصرار کیا تو یہودی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو بتا دیا کہ پیغمبر اسلام قبل ازیں اس مقدمہ کو سن کر میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں حضرت عمر رضی اﷲ نے بشر سے پوچھا کیا یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے اس نے کہا: یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن میں نے تو آپ سے فیصلہ کروانا ہے تو اسی حالت میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اندر تشریف لے گئے تلوار نیام سے نکالی اورباہر نکل کر بشر نامی منافق کی گردن قلم کر دی اور فرمایا:
’ھٰکَذَا اَقْضِیْ لِمَنْ لَّمْ یَرْض بِقَضَاءِ اللّٰہِ ورَسُوْلِہٖ ترجمہ: جو اﷲ اور اسکے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہو گا میں اسکا اسی طرح فیصلہ کرونگا (تفسیر مظہری)۔
چنانچہ آپ کی تائید میں قرآن پاک آیت مقدسہ نازل ہوئی، ارشاد باری تعالیٰ ہوا: ’’وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ‘‘ (نساء)،
ترجمہ: اورہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اﷲ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس قتل کو ’’ہدر‘‘ قرار دیا یعنی نہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر فرد جرم عائد کی اور نہ قصاص
لیااور نہ دیت کا حکم فرمایا۔

آپﷺ ابتداء میں منافقین (بدعقیدہ لوگوں) کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے آپ ﷺ نے ممانعت نمازِ جنازہ نہ ہونے کی وجہ سے رائس المنافقین عبد اﷲ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ بھی پڑھائی تو اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی پر زوراستدعا کی تو اس کے بعد وحی نازل ہوئی ’’وَ لاَ تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلاَتَقُمْ عَلٰٓی قَبْرِہٖ‘‘ (توبہ:86)۔

ترجمہ: (اے نبی کریم ﷺ)آپ ہمیشہ کیلئے اِن منافقین (بد عقیدہ) میں سے کسی کی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اسکیقبر پر کھڑے ہو کر دعا کریں۔‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں کیلئے بد عقیدہ لوگوں کی نمازِ جنازہ اور اُن کیلئے دعاءِ مغفرت ممنوع ہوگئی

ابتداء میں ازواج مطہرات اور مسلم خواتین ’’سترِعورت‘‘ اختیار فرماتیں لیکن چہرہ ڈھانپنے کے احکام نہیں تھے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بارگاۂ ِ نبوی میں حجاب (مکمل پردہ) کیلئے مشورہ پیش کیا:
’’تو وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَاب‘‘(احزاب:53)
ترجمہ: جب تم نے کوئی سامان ازواج نبی سے مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگا کرو۔ کا نزول ہوا۔
(مشکوۃ، مناقب عمر فصل ثالث)۔