User Tag List

Results 1 to 1 of 1

Thread: 2.غزوات

  1. #1
    Administrator
    Join Date
    Feb 2017
    Posts
    1,587
    Thanked: 5
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)

    2.غزوات


    غزوہ بدر الصغریٰ
    غزوہ احد کے بعد ابو سفیان نے چیلنج کیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں پھر مقابلہ کریں گے۔4ہجری میں مکہ میں قحط پڑا۔ کفار نے یہودیوں اور کفار کو ساتھ ملا کر افواہ پھیلا دی کہ ایک بہت بڑا لشکر تیار ہورہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم 1500صحابہ کو لے کر بدر کے میدان میں خیمہ زن ہوئے ، 8دن انتظار فرمایا۔ مشرکین مکہ، مکہ سے باہر نہ آئے اور اس پر شرمندہ ہوئے۔

    غزوہ قینقاع
    نصف ماہ شوال میں غزوہ قینقاع پیش آیا۔ مدینہ کے ارد گرد یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ تھے۔ انہوں نے اپنے معاہدے مسلمانوں کے ساتھ توڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلا وطن کیا۔ وہ ملک شام میں گئے اور جہاں وہ جلد ہی ہلاک اور تباہ ہوئے۔

    غزوہ سویق
    اسی سال ذیقعدہ میں غزوہ سویق پیش آیا۔ سویق ستو کو کہتے ہیں۔ غزوہ بدر کے بعد ابو سفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک محمد ﷺ سے لڑائی نہ کر لوں نہ بیوی کے پاس جاﺅں گا اور نہ سردھوﺅں گا۔ قسم پوری کرنے کے لئے وہ 200 سوار لے کر نکلا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سفیان اور اس کے ہمراہی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستوکے بورے پھینک کر بھاگ گئے ہیں۔ جنہیں مسلمانوں نے اٹھایا اور واپس آگئے۔ اس کے علاوہ نصف محرم کو ہجرت کے تیسرے سال غزوہ غطفان اور جمادی الاول میں غزوہ بنو سلیم پیش آیا لےکن ان میں کوئی مقابلہ نہ ہوا۔

    غزوہ دومة الجندل
    ہجرت کے پانچویں سال ربیع الاول میں یہ غزوہ ہوا۔ اس میں جنگ نہیں ہوئی۔ پھر شعبان میں اسی سال غزوہ بنو معطلق ہوا۔ بنو معطلق مغلوب ہوئے اور اسی میں منافقوں نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی۔

    غزوہ الاحزاب
    ہجرت کے پانچویں سال ذیقعد میں غزوہ احزاب یا غزوہ خندق پیش آیا۔ بنو نضیر جلا وطن ہوکر خیبر جارہے تھے۔ مکہ میں جاکر قریش کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اکسایا۔عرب کے دیگر قبیلے بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس طرح قریش اور یہود 12000 کے لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔یہ خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب ؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ اور دشمن کے درمیان خندق کھود کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ سب نے یہ رائے پسند کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار کی جماعت کے ساتھ سلا کی پہاڑی کو پشت پر رکھ کر خندق کھودی اس لئے اس کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔خندق کھودنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر حصہ لیا۔ کفار نے ایک ماہ تک محاصرہ رکھا۔ دور سے تیر اور پتھر بر سائے۔ ایک دن عمرو بن ابداور کچھ سوار خندق عبور کر کے آگے بڑھے۔ حضرت علیؓ نے تلوار سے اس کا فیصلہ کردیا۔ عمرو کو قتل ہوتے دیکھ کر باقی بھاگ گئے۔سردی کا موسم تھا۔ ایک دن ایسا طوفان آیا کہ خیمے اکھڑ گئے ، گھوڑے چھوٹ کر بھاگ گئے، کھانے پینے کی چیزیں الٹ پلٹ گئیں اس لئے قریش اور دوسرے قبائل محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔

    غزوہ بنو قریظہ
    غزوہ خندق کے بعد یہود کے قبیلے بنو قریظہ عہد توڑ کر جنگ احزاب میں شریک ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے، 25 دن کا محاصرہ رہا۔ حضرت سعد بن معاذؓ کو منصف مقرر کیا گیا۔ آپ ؓ نے فیصلہ کیا کہ یہودی مرد قتل کئے جائےں اور عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا جائے اور مال غنیمت لوٹ لیا جائے۔

    غزوہ غابہ
    یہ مدینہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے، اس طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو حضرت ابو ذر غفاریؓ کا بیٹا چرایا کرتا تھا۔ایک رات قبیلہ عطفان کے 40 سواروں کو لے کر امیہ بن ہشام نے چھاپا مارا، حضرت ابو ذر غفاری کے بیٹے کو قتل کر کے بیس اونٹنیاں اور ابو ذر غفاریؓ کی بیوی کو بھی ساتھ لے گئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن شام کو ذی قرع میں پہنچے ایک دن رات قیام کیا، غطفان بھاگ گیا اور حضرت ابو ذر غفاریؓ کی بیوی ناقہ پر واپس آگئں۔

    غزوہ خیبر
    7 ہجری کو غزوہ غابہ کے ۳ دن بعد غزوہ خیبر پیش آیا۔ غزوہ احزاب میں ناکامی کا دکھ ہونے کی وجہ سے کفار اسلام کو مٹانے کی کوشش میں رہے۔غطفان ان کی مدد کے لئے تیار ہوگیا۔ آپﷺ ایک ہزار چھ سو کی جماعت کے ساتھ نکلے جن میں200 سوار اور باقی سب پیدل تھے۔ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی اہل خیبر کو کہلا بھیجا کہ تم ان سے نہ ڈرنا یہ مٹھی بھر آدمی ہیں جن کے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پڑا ﺅڈالا۔ صبح نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، ایک بستی نظر آئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اکبر اور خیبر ویران ہوگیا۔
    پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق دعا فرمائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بستی میں تشریف لے جاتے تو دعا فرماتے۔
    سب سے پہلے قلعہ نین فتح ہواھل عرب کا مشہور پہلوان مرحب اس قلعہ کا رئیس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت علیؓ اور پھر حضرت عمرؓ کو فوج دے کر بھیجا۔مگر قلعہ فتح نہ ہوا۔جب محاصرے نے طول کھینچا تو ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
    کل میں علم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو دوست رکھتا ہو اور اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ اس کو دوست رکھتے ہوں۔
    صحابہ کرامؓ بے قراری سے انتظار کرنے لگے۔ صبح ارشاد ہوا کہ حضرت علیؓ کہاں ہیں؟کہا گیا کہ انؓ کی آنکھ میں آشوب ہے۔حضرت علیؓ جب حاضر خدمت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب ِدہن انؓ کی آنکھوں میں لگایا تو ان ؓکو آرام آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَلم انؓ کو عطا فرمایا۔ دشمنوں کی طرف سے پہلے مرحب کا بھائی حرب مقابلے کے لئے آیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ مرحب بہت طراق سے نکلا وہ بھی حضرت علیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
    یاسر کو حضرت زبیرؓ نے قتل کیا اس طرح یہ مضبوط قلع فتح ہوا۔قموص کے بعد باقی قلعے جلدی فتح ہوگئے۔ ان معرکوں میں 93 یہودی مارے گئے۔15صحابہؓ نے شہادت پائی۔ یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ خیبر کی زمین ہمارے پاس رہنے دی جائے۔ ہم پیداوار کا نصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمالیا۔
    غزوئہ خیبر میں قلعہ کا دروازہ بہت مضبوط تھا جسے حضرت علیؓ نے اپنے ہاتھ سے اکھاڑ دیا۔

    غزوہ وادی الرقا
    یہ وادی خیبر اور تیمیہ کے درمیان واقع ہے۔ دیہاتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اس لئے اس کو رقاع کہتے ہیں۔ فتح خیبر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہ کی بلکہ جنگ کی ۔مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
    خیبر کے یہودیوں کو امان دے دی گئی تھی مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے۔ایک دن سلام بن ہشام کی بیوی نے جو مرحب کی بھاوج تھی ،ایک بکری کا گوشت بھون کر اس میں زہر ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ران نکالی، کچھ صحابہ کرامؓ نے گوشت کھالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقیوں کو کھانے سے منع فرمادیا اور مرحب کی بھاوج کو بلایا اور فرمایا تم نے اس میں زہر ملایا ہے۔ اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے خبر دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے بازو کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے زہر ملانے کا اقرار کیا اور بولی میرا خیال تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہیں تو زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آرام پائےں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرمادیا۔جن صحابہ ؓ نے گوشت کھایا تھا ان کا انتقال ہوگیا۔ ان میں سے سب سے پہلے حضرت بشیر بن درداءؓ نے انتقال فرمایا تو ان ؓکے قصاص میں اس یہودی کا قتل کردیا گیا۔
    اسی سال حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمر بن العاصؓ ایمان لائے

    بیعت رضوان اور صلح حدیبیہ
    ذیقعدہ کی9کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار چار سو صحابہ ؓکے ساتھ عمر ہ کے ارادے سے چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام سلمہؓ بھی تھے۔ میقات پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بصر بن سفیان ؓ کو قریش کی طرف بطور جاسوس بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ اصفان کے نزدیک پہنچے تو جاسوس نے اطلاع دی کہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب سے مشورہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ کے مشورے کو پسند فرمایا کہ ہم بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہیں اس لئے ہم بیت اللہ کا رخ کریں گے۔ جو ہمیں روکیں گے اس سے لڑیں گے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ قصویٰ بیٹھ گئی۔ہر چند اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر نہ اٹھی۔ قصویٰ رکنے والے نہیں تھی مگر اللہ نے روک دیا۔قصویٰ کو اٹھایا اور حدیبیہ کے پرلی طرف ایک کنوئیں پر اترے۔ گرمی کا موسم تھا پانی کم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیاس کی شکایت آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے کلی کر کے چھا گل میں ڈال دیا۔ اور اپنا دست مبارک چھا گل میں ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی نکلنے لگا۔

    اسی اثنا میں بدیل بن ورقہ اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ حاضر ہوا اور کہا کہ کچھ قبائل حدیبیہ کے آب قصیر پر اترے ہوئے ہیں، ان کے پاس دو اونٹنیاں بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے بلکہ عمر ہ کے ارادے سے آئے ہیں۔بدیل نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قریش تک پہنچا دوں گا۔ عروہ بن مسعود نے بدیل کا بیان سن کر کہا کہ اس نے ایک نیک امر پیش کیا ہے اس کو قبول کر لیں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیں۔عروہ ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو چھوتا۔ اس وقت حضرت مغیرہؓ بہ غرض تعظیم ننگی تلوار لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے۔عروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش کو ہاتھ لگاتا تو آپؓ اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے ریش مبارک سے ہاتھ اٹھاﺅ۔عروہ اصحاب نبوی ؓ کی جان نثاری دیکھتا رہا۔ اس نے واپس جاکر اپنی قوم کو صحابہؓ کے اوصاف بتائے اور کہا کہ ایک اچھی بات کہی جارہی ہے اور اس کو قبول کر کے معاہدہ کر لو ۔اس کے بعد حلیف بن القامہ خدمت اقدس میں حاضر ہوا، پھر مرکز آیا اور وہ بات کر رہا تھا کہ خطیب سہیل بن عمرو حاضر ہوا۔

    صلح کی گفتگو کے بعد قرار پایا کہ ایک سال تک لڑائی بند رہے گی۔ سہیل نے عرض کیا کہ معاہدہ تحریر کیا جائے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو طلب فرمایا اور فرمایا لکھو
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    سہیل نے کہا الرحمٰن کو ہم نہیں جانتے بلکہ لکھو
    بسمک اللھم
    جیسے کہ ہم پہلے لکھا کرتے تھے۔
    بسمک اللھم لکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لکھو کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔
    سہیل نے کہا کہ ہم جانتے کہ تو اللہ کا رسول ہے تو تجھے بیت اللہ سے منع نہ کرتے اور کہا کہ لکھو محمدصلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی ؓ اسے مٹا دو۔
    حضرت علیؓ نے فرمایا میں اسے نہیں مٹاﺅں گا مجھے اس کی جگہ کوئی لفظ بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھ دیں۔

    اس میں شرط یہ تھی کہ آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا اور یہ کہ جو کوئی مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے چاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمارے پاس واپس کردیں گے۔
    صحابہ کرامؓ اور حاضرین نے اس پر اعتراض کیا کہ کس طرح واپس کیا جائے گا۔ اسی اثنا میں سہیل کا بیٹا ابو جندل زنجیروں میں جکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ سہیل نے کہا کہ اسے میرے حوالے کردیا جائے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    اسے میرے پاس رہنے دو۔
    اس نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    ابو جندل صبر کر اور ثواب کی امید رکھ ۔ہم وعدہ نہیں توڑتے۔ اللہ تیرے واسطے خلاصی کی سبیل کرے گا۔

    جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام حدیبیہ میں پہنچے تھے کہ خراش بن امیہ کو قریش کی طرف اپنے ارادے سے مطلع کرنے کے لئے بھیجا تو عکرمہ بن ابو جہل نے
    زنجیریں کاٹ دیں اور قتل کرنے لگا مگر کچھ لوگوں نے روک لیا۔ خراش نے واپس آکر سارا ماجرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کو قریش مکہ کی طرف بھیجا۔ حضرت عثمانؓ نے سرداران قریش کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تو قریش نے حضرت عثمانؓ کو اپنی حراست میں رکھا اتنے میں یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو مکہ میں قتل کردیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ببول کے ایک درخت کے نیچے مسلمانوں سے بیعت لی ۔اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں۔حضرت عثمانؓ کی بیعت کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائےں ہاتھ پر رکھ کر انؓ کو بیعت میں شامل کیا۔

    جب قریش کو اس بیعت کی خبر پہنچی تو انہوں نے صلح کرلی۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب ؓ سے فرمایا کہ قربانیاں کردیں اور سر منڈوالیں۔آپ مدینہ تشریف لائے تو ابو بصیر سقفی مکہ سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق وہ دو شخص جو ان کو لینے آئے تھے ان کے حوالے کردیا۔ ذی الحلیفہ کے مقام پر ابو بصیر نے ایک سے کہا تلوار دکھاﺅ اور اس کا کام تمام کردیا۔ دوسرا بھاگتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابو بصیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ پورا ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں تو جہاں چاہتا ہے چلا جا۔ابو بصیر ساحل سمندر پر چلے گئے۔ابو جندل بھی اس سے آن ملا۔ آہستہ آہستہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔ ان لوگوں نے قریش کا شام کا تجارتی راستہ روک لیا۔ قریش تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور واپسی کی شرط ختم کرنے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیرؓ اور ابو جندل کو ایک خط بھیجا۔ ابو بصیرؓ سخت بیمار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک آپ ؓ کے ہاتھ میں تھا کہ انتقال کر گئے۔ ابو جندل ساتھیوں سمیت مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہ گئے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شہید ہوئے۔

    فتح مکہ
    ماہ رمضان8 ہجری میں غزوہ فتح مکہ وقوع پذیر ہوا۔اس کا سبب یہ تھا کہ قریش نے معاہدہ صلح حدیبیہ توڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم10رمضان 8 ہجری کو فوج لے کر مدینہ نکلے۔تمام قبائل کو جھنڈے دئےے گئے۔آخری پڑاﺅ مکہ سے ایک میل کے فاصلے پر کیا گیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام فوج الگ الگ آگ روشن کرے۔ قریش کو جب لشکر اسلام کی روانگی کی اطلاع ملی تو انہوں نے ابو سفیان کے ساتھ 2 اور لوگوں کو تحقیق کے لئے بھیجا۔یہ تینوںخیمہ نبوی کے قریب پہنچے تو حفاظت پر جو دستہ معمور تھا اس نے ابو سفیان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بالائی حصے کی طرف داخل ہوئے اور اعلان فرمایا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا، یا مسجد میں داخل ہوجائے گا، یا دروازہ بند کر لے گا تو اس کو پناہ دی جائے گی۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ قبائل عرب کے ساتھ تاسین کی طرف سے داخل ہوں اور ہم سے آ ملیں اور کسی سے جنگ نہ
    کریں، مگر صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل، اور سہیل بن عمرو نے راستہ روکا اور تیر برسائے۔جس سے حضرت جبوس بن اشعرؓ اور کراض بن جبیرؓ نے شہادت پائی۔کفار13 سے زیادہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر اپنے خیمے میں آرام فرمایا، غسل فرمایا اور ہتھیار لگا کر قصویٰ پر سوار ہوئے اور اپنے غلام کے بیٹے اسامہ کو پیچھے بٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی اور شکر میں اس قدر جھکے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک ناقہ کے کجاوے کے ساتھ لگنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا پھر اپنی ناقہ پر طواف کعبہ کیا۔ بیت اللہ کے ارد گرد اور اوپر 360 بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک کو ٹھوکر لگاتے جاتے اور فرماتے
    حق آگیا باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے کے لئے ہے۔
    (سورہ بنی اسرائیل)
    اس طرح بیت اللہ شریف بتوں سے پاک ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہؓ سے کنجی لے کر دروازہ کھولا۔ تمام تصاویر اور مجسمے ختم کر کے دروازہ بند کردیا۔ حضرت اسامہؓ اور حضرت بلالؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اندر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کے ساتھ نماز ادا کی اور ہر طرف تکبیر کہی اور دروازہ کھول دیا۔

    غزوہ حنین
    جب مکہ فتح ہوا تو بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ہوارزن کا قبیلہ بہت غصے میں تھا۔ انہوں نے حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ انہوں نے اپنی عورتیں، بچے اور مال اموال اپنے ساتھ لیا اور مالک بن عوف نصری کی سپہ سالاری میں مدینہ کی طرف بڑھے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی اسلامیؓ کو حال دریا فت کرنے کے لئے بھیجا اس نے سارے حالات آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوال8ہجری میں16000کے لشکر کے ساتھ جن میں12000ہل مکہ بھی تھے روانہ ہوئے۔ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر سرداران مشرکین نے کہا کہ آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔اسلامی فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا کفار بھاگ نکلے، مسلمان مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے کہ کفار نے دوبارہ حملہ کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ ثابت قدم رہے۔ حضرت عبسؓ کی آوا بہت بلند تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مہاجرین وانصار کو آواز دی کہ
    اے گروہ انصار
    اے بیعت رضوان
    اے سورة بقرہ والے
    اس آواز پر سب لبیک کہتے ہوئے جمع ہوگئے۔سب نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔

    جنگ کی شدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتنور خوب گرم ہوگیا ہے ۔
    فرشتوں کا لشکر مدد کے لئے اتارا گیا جو گھڑ سواروں کی شکل میں کفار کو نظر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر خاک لی اور کفار کی طرف پھینک دی۔کفار کے لشکر میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے چہرے پر وہ خاک نہ پڑی ہو۔ اس طرح لشکر کفار کو شکست ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا اور طفیل بن عمرو کو کہا کہ اپنی قوم سے مدد لے کر طائف میں آﺅ۔حضرت طفیلؓ قبیلے کے400 آدمی اور دبابہ اور منجیق لے کر طائف میں حاضر ہوگئے۔ یہاں ایک قلعہ میں دشمن پناہ گزیر تھا اور اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ قلعہ شکن ہتھیار استعمال ہوئے۔ قلعہ کو فتح نہ کرسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کروا دی کہ کفار کا جو غلام قلعوں سے نکل کر ہمارے پاس آئے گا اس کو آزاد کردیا جائے گا۔ اس طرح 23 غلام قلعہ سے باہر آئے جن کو آزاد کر دیا گیا۔

    تقریبا دو ہفتہ محاصرہ کے بعد بھی قلعہ فتح نہ ہوا تو صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے بد دعا فرمائیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے دعا فرمائی
    اے اللہ!
    تو تقیف کو ہدایت دے اور ان کو مسلمان بنا
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ
    تعقیف کے ایک بڑے وفد نے اسلام قبول کر لیا

    غزوہ تبوک
    یہ غزوہ ہجرت کے نوویں سال ماہ رجب میں پیش آیا۔ مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ عیسائی عربوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے بہت بڑی فوج تیار کی ہے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ اور باقی قبائل سے جانی و مالی امداد طلب کی۔ اس لشکر کی تیاری میں حضرت عثمانؓ نے خاص طور پر حصہ لیا۔ حضرت ابوبکرؓ گھر کا سارا سامان لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے گھر کا آدھا سامان دے دیا۔اس وقت سخت قحط پڑا تھا اور شدید گرمی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے۔ تبوک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔
    اہل تبوک نے جزیہ دینے پر رضا مند ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ ایک نصرانی بہانہ بن روبا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر عنایت فرمائی اور اس طرح صلح ہوگئی۔

    مسجد ضرار
    منافقین ہمیشہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے اس غرض سے انہوں نے اپنی الگ مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ ابو عامر فارسی عیسائی ہوگیا ۔ اس نے منافقین کو کہا کہ مسجد کو یہ کے اپنی ایک مسجد بنا لو وہاں سامان حرب تیار کرنا ۔میں رومیوں سے کہہ کر فوجیں لاﺅں گا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کو ملک سے نکال دیں۔ منافقین نے مسجد قبا کے ساتھ ہی ایک مسجد بنا لی۔
    جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے تو منافقین نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز پڑھیں مگر اللہ نے سورة توبہ میں وحی
    نازل فرمائی۔
    وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ۭوَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّھُمْ لَكٰذِبُوْنَ
    لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا ۭ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۭ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ
    ترجمہ
    وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی، نقصان پہنچانے ، کفر کرنے، اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے اور پناہ گاہ بنانے کے لئے جو پہلے سے خدا اور رسول سے لڑ رہا ہے۔ البتہ وہ قسمیں ضرور کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی، اللہ گواہ رہنا کہ وہ جیت گیا۔
    تم اس میں ہر گز نہ کھڑے ہونا البتہ وہ مسجد (مسجد قبا) جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے والوں کو دوست رکھتے ہیں، اور اللہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن ہشامؓ کو حضرت حسن بن ابی کو حکم دیا کہ مسجد ضرار کو جلا دو اور گرا دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اس سال مختلف قبائل کے وفود کثرت سے اسلام قبول کرنے لگے۔

    Last edited by Admin-2; 03-01-2017 at 05:45 PM.

Similar Threads

  1. 37:جنگ کا آغاز
    By Admin-2 in forum 37:جنگ کا آغاز
    Replies: 0
    Last Post: 05-04-2017, 07:50 PM
  2. 1.غزوات
    By Admin-2 in forum 8.غزوات
    Replies: 0
    Last Post: 03-01-2017, 04:52 PM
  3. معرکہ حق و باطل کا آغاز
    By Admin-2 in forum معرکہ حق و باطل
    Replies: 0
    Last Post: 02-27-2017, 08:00 PM

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •