آپﷺکا وصال
ماہ صفر11ہجری کے آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز احد تشریف لے گئے اور شہداءاحد کے لئے دعا مغفرت کی۔
واپس آکر خطبہ فرمایا
لوگو! میں تم سے پہلے رخصت ہونے والا ہوں اور اللہ کے سامنے تمہارے لئے شہادت دینے والا ہوں، واللہ میں حوض کوثر کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں، مجھے سلطنتوں کے خزانوں کی کنجیاں تقویض کردی ہیں۔یعنی مختلف ممالک دعوت اسلام قبول کرنے کے نتےجے
میں ختم ہونے والے ہیں۔مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ میرے بعد مشرک ہوجاﺅ گے ڈر یہ ہے کہ دنیا وی مفاد میں نہ پڑجاﺅ۔
آدھی رات کو جنت البقیع میں تشریف لے گئے۔ اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ا ور فرمایا
ہم بھی تم سے جلد آملنے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض موت میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری فرماتے رہے۔ تبوک اور موتہ کے معرکے ابھی باقی تھے کہ اس حالت میں بھی لوگوں کو غزوہ روم کی تیاری کا حکم دیا ۔اگلے دن حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اس مہم کا سپہ سالار مقرر کیا۔ اور فرمایا
اللہ کے نام سے اپنے باپ کے مقام شہادت تک پہنچو اور جو خدا سے انکار کرے اس پر حملہ کرو۔ پھر اپنے ہاتھوں سے علم تائت فرمایا کر حضرت بریدا اسلمی ؓ کو عطا فرمایا

ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے اوپر ڈالیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا تو حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بازو پکڑ کر مسجد میں لائے، حضرت ابوبکرؓ نما زپڑھا رہے تھے۔آہٹ پاکر حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے روک دیا اور ان ؓکے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران حضرت ابوبکرؓ امامت کے فرائض ادا کرتے رہے۔صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میںآنا چاہتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ میں آکر پردہ گرادیا۔

یہ آخری موقع تھا کہ صحابہؓ نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ اس کے بعد بار بار غشی کے دورے پڑتے۔

وصال کے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہؓ کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن ؓ تازہ مسواک لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انؓ کی طرف دیکھا۔ حضرت عائشہؓ نے سمجھ لیا کہ مسوا ک کی خواہش ہے۔ انہوں نے اپنے دانتوں سے مسواک نرم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس میں دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک فرمائی۔ دوپہر کا وقت تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانس میں خر خراہٹ ہونے لگی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک ہلے اور یہ لفظ ادا ہوئے
نماز
لونڈی
اور غلام

پاس صاف پانی کا ایک لگن تھا اس میں بار بار ہاتھ مارتے اور چہرہ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔

سر اقدس حضرت عائشہؓ کے سینہ مبارک سے لگاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا
اللھم فی رفیق اللہ الا
اور روح پاک جسم اقدس سے پرواز فرماگئی۔

صدمے سے صحابہؓ کا براحال تھا۔حضرت عمرؓ غم سے نڈھال تھے۔ اور تلوار لے کر باہر نکلے اور کہا کہ جس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال پاگئے ہیں، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔

حضرت علیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا۔حضرت فضل بن عباسؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلو بدلنے میں حضرت علیؓ کی مدد کی۔ حضرت فضل بن عباسؓ، حضرت اسامہؓ اور حضور ﷺ کا غلام شکران پانی ڈال رہے تھے۔ سوائے حضرت علیؓ کے سب نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی کہ جسم مبارک پر نظر نہ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں تین سوتی کپڑے تھے۔ جن میں قمیض اور عمامہ نہ تھے۔

حضرت ابو طلحہ انصاریؓ نے لحد مبارک کھودی، نماز حجرے کے اندر بغیر امامت پڑھی گئی۔


پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے، بچوں نے غلاموں نے نماز ادا کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طور میراث کچھ نہ چھوڑا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
ہم انبیاءکسی کو وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ گئے وہ سب کا ہی وقف ہے۔
(بخاری شریف)

حضور ﷺ نے میراث میں نہ کوئی دینار چھوڑ انہ درہم، نہ کوئی غلام نہ لونڈی۔
مگر جو کچھ حضرت عائشہؓ کے پاس تھا، 6یا 7 درہم وہ بھی صدقہ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکے میں سفید دُلدل اور کچھ ہتھیار تھے۔
دُلدل اور تلوار حضرت علیؓ کے پاس تھی، وہ ان ؓکے پاس ہی رہی۔