اس سورة پاک کا نام المطففین ہے جو اسکی پہلی آیت میں مذکور ہے۔
حضرت ابن مسعود اور زہاق اور ان کے ہم خیال لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ سورة مکّہ مکرمہ میں نازل ہوئی لیکن حضرت ابن عبّاسؓ کی رائے یہ ہے کہ اسکا نزول ہجرت کے فوراً بعد مدینہ طیبہ میں ہوا۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ اس سورة کا نزول مکّہ مکرمہ میں ہوا ۔ یہاں ایک تیسرا قول بھی منقول ہے کہ اسکا نزول حالتِ سفر میں مکّہ اور مدینہ کے درمیان ہوا۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

*وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾*
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ۔

*الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾*
یہ لوگ جب لوگوں سے ناپ لیتے ہیں پورا لیتے ہیں۔
یعنی یہ لوگ جب دوسروں سے ناپ لیتے ہیں تو ان سے پورا لیتے ہیں ۔

*وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾*
اور جب انھیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں ۔
یعنی جب انھیں خود یہ ناپ تول کر دے رہے ہوتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں ۔

معارف القرآن میں
*وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾*
اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ مطففین تطفیف سے مشتق ہے جس کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں اور ایسا کرنے والے کو مطفف کہا جاتا ہے ۔ قرآنِ حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ تطفیف کرنا حرام ہے۔

قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ عام طور پر معاملات کا لین دین ان ہی دو طریقوں سے ہوتا ہے انہی کے ذریعے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقدار کا حق ادا ہو گیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصد اس سے ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے۔ اس میں کمی کرنا حرام ہے ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کا یہ ہی حکم ہے۔ خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے۔ ہر ایک میں حقدار کے حق سے کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے ۔
معتہ امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا جلدی جلدی نماز ختم کر ڈالتا ہے تو اس کو فرمایا ،
لقد طففة ۔ یعنی تو نے اللّه کے حق میں تطفیف کر دی ۔
تو حضرت عمرؓ کے اس قول کو نقل کر کے حضرت امام مالک رح نے فرمایا ،
یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے۔ یہاں تک کہ نماز، وضو، طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق للہ اور عبادت میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے۔ اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے ۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمات کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور کم کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

اور اتنے تک کے اس وقت کے دوران جو اس نے محنت کرنی تھی اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہی ہے۔ لیکن آج کل اس چیز کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا۔ فرائض میں کمی کرنے کو یا جہاں ملازمت ہوتی ہے اور ملازمت کے حوالے سے اپنے فرائض میں مکمل طور پر انکی بہترین بجا آوری نہ کرنے کو کوئی گناہ تصور نہیں کیا جاتا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا کہ پانچ گناہوں کی سزا پانچ چیزیں ہیں۔

جو شخص عہد شکنی کرتا ہے اللّٰه اس پر اس کے دشمن کو مسلت کرتا ہے اور غالب کر دیتا ہے جو قوم اللّٰه کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین پر فیصلے کرتے ہیں ان میں فقر اور احتیاج عام ہو جاتا ہے۔ جس قوم میں بے حیائی اور زنا عام ہو جائے اس پر اللہ تعالیٰ طاعون اور دوسرے وبائی امراض مسلط کر دیتا ہے اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں اللہ تعالیٰ ان کو قحط میں مبتلا کر دیتا ہے اور جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے بارش کو روک دیتا ہے اور طبرانی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جس قوم میں مالِ غنیمت کی چوری رائج ہو جائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمن کا رعب اور ہیبت ڈال دیتے ہیں اور جس قوم میں سود خوری کا رواج ہو جائے انہیں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رزق قطع کر دیتے ہیں اور جو لوگ حق کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ان میں قتل و خون عام ہو جاتا ہے اور جو لوگ معاہدات میں غداری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط کر دیتا ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں اسی حوالے سے آگے اس طرح بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ حدیث میں جن لوگوں کا رزق قطع کر دینے کا ارشاد ہے اس کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ اس کو رزق سے بالکل محروم کر دیا جائے اور یہ صورت بھی قطع رزق میں ہی داخل ہے کہ رزق موجود ہوتے ہوئے بھی وہ اس کو کھا نہ سکیں استعمال نہ کر سکیں جیسے آجکل بہت سی بیماریوں میں ہمیں یہی مشاہدہ ہوتا ہے ۔اور اس زمانے میں تو یہ بہت عام ہے۔ اسی طرح قحط کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ اشیائے ضرورت ختم ہو جائیں اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موجود ہوں اور بہت کثیر ہونے کے باوجود ان کی گرانی اتنی بڑھ جائے ان کی قیمت اتنی بڑھ جائے کہ خریداری مشکل ہو جائے۔ جیسا کہ آجکل اس کا مشاہدہ بھی ہمیں عام ہو رہا ہے۔ اکثر چیزوں میں ہمیں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔

اور حدیث میں فقر مسلط کرنے کا ارشاد جو ہے اس کے معنی صرف یہ نہیں کہ روپیہ پیسہ اور ضرورت کی اشیاء اس کے پاس نہ رہیں بلکہ فقر کے اصلی معنی محتاجی اور حاجت مندی کے ہیں۔ ہر شخص اپنے کاروبار اور ضروریاتِ زندگی میں دوسروں کا جتنا محتاج ہو وہ اتنا ہی فقیر ہے۔ اس زمانے کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو انسان اپنے رہن سہن اور نقل و حرکت اور اپنے ارادوں کو پورا کرنے کیلیے ایسے ایسے قوانین میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے کہ اپنا مال موجود ہوتے ہوئے خریداری میں آزاد نہیں کہ جہاں سے چاہے کچھ خریدے، سفر میں آزاد نہیں ہے جب کہیں جانا چاہے چلا جائے۔ ایسی ایسی پابندیوں میں انسان جکڑا گیا ہے کہ ہر کام کے لیے دفتروں کے چکر لگانے اور افسروں سے لیکر چپڑاسیوں تک کی خوشامدیں کیے بغیر زندگی کا گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ سب محتاجی ہی تو ہے جس کا دوسرا نام فقر ہے۔یہ ساری جو تفصیل بتائی گئ ہے اس سے وہ شبہات دور کیئے گئے ہیں جو حدیثِ مبارکہ کے ارشاد کے متعلق ظاہری حالات کے اعتبار سے ہو سکتے ہیں۔

اب ان آیات کی طرف آتےہیں۔

*وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾*
بربادی یا ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے

*الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾*
یہ لوگ جب دوسرے لوگوں سے ناپ تول لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔

*وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾*
اور جب انھیں خود ناپ تول کے دینا ہوتا ہے تو گھٹا کے دیتے ہیں۔

تفہیم القران میں اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ اصل میں لفظ مطففین جو استعمال کیا گیا ہے یہ تطفیف سے مشترک ہے۔
عربی میں تطفیف چھوٹی چیز کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور یہ لفظ ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کے یا تول کے چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی چیز نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہوئے ہر خریدار کی چیز میں سے تھوڑی تھوڑی چیز اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کتنا اور کہاں گھاٹا دے گیا ہے۔

قرآنِ مجید میں جگہ جگہ ناپ تول کی مذمت کی گئی ہے اور صحیح ناپنے اور تولنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔
سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے،
*وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ*
جب ناپو تو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو۔
(آیت 35)

سورة رحمان میں تاکید کی گئی ہے،
*اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ ﴿۸﴾ وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ ﴿۹﴾*
تولنے میں زیادتی نہ کرو، ٹھیک ٹھیک وزن کرو اور ترازو میں گھاٹا نہ کرو۔
(آیت 8-9)

قوم شعیب پہ جس وجہ سے عزاب نازل ہوا وہ یہی تھا کہ ان میں ناپ تول میں کمی کا مرض عام تور پہ پھیلا ہوا تھا اور حضرت شعیب(رض) کی قوم پھر بھی بعض نہیں آتی تھی۔
ضیاءالقران میں جو تفسیر میں بتایا گیا ہے کہ دورِ جہالیت میں صرف عقائد میں ہی بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ معامعلات اور کاروبار میں بھی بددیانتی اپنے عروج پہ پہنچ چکی تھی۔
قرآن نے صرف عقیدے کی بنیاد پہ ذور نہیں دیا بلکہ معاملات میں دیانت اور امانت کی بھی تلقین کی ہے۔

اہلِ مکہ جن کا پیشہ ہی تجارت تھا ان کے ہاں اس طرح کی خرابیاں عروج پر تھیں۔ اس کاروباری بددیانتی سے باز آنے کی جب نصیحت کی تو اس کے لئے بڑا پُرجلالی انداز اپنایا قرآن میں کہ ایسا کرنے والوں کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے۔
آخرت میں تو سزا ملے گی ہی لیکن دنیا میں اس کے اثرات کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دینگے۔ جب لوگوں کو اس کی بددیانتی کا پتہ چلے گا تو کوئی گاہک اس کی دکان کا رُخ نہیں کریگا اور یہ سارا دن بیٹھا مکھیاں ہی مارتا رہے گا۔
انجام کار غربت اور تندگدستی اس کا مقدر بن جا ئیگی.
صرف وہی تاجر کامیاب ہوتا ہے جس کی دیانتداری پہ لوگوں کو اعتماد ہوتا ہے۔ صرف آخروی کامیابی نہیں بلکہ دینی فلاح کا انہصار بھی اسی پہ ہے کہ یہ حرکتیں چھوڑ دیں۔ اس قسم کے جرائم کی بڑی سزا بیشک قیامت کو ہی ملے گی لیکن اس کے بڑے اثرات دنیا میں بھی ظاہر ہوے نہیں رہتے۔

اور ان کی نوعیت اتنی غمگین ہوتی ہے کہ انسان کو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضور پاکؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگ اس طرح کی عادات کا بُری طرح سے شکار تھے۔
اور جب انھوں نے یہ آیت سنی تو توبہ کی اور آج تک کوئی تاجر کم تولنے میں شامل نہیں ہوتا۔
لعل بن تلخ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ(رض) کے ساتھ جا رہا تھا کہ میں نے ان سے کہا کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ خوبصورت ناپ تول کرنے والے ہیں،
آپ نے فرمایا، کیوں نہیں، ان ہی کے بارے میں یہ سورة نازل ہوئی ہے۔

سورت مطففین آیت 4۔
اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

*أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُون*
کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کی وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔

لِيَوْمٍ عَظِیم
ایک بڑے سخت دن کے لیئے

يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
جس دن سب لوگ تمام جہانوں کے رب کے حضور کھڑے ہوں گے

پہلی آیات میں دین میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے حوالے سے بتا کر یہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ کفار کے دلوں میں روزِ قیامت کے باز پُرس کا کوئی خوف نہیں ہے؟ کہ اگر اس بڑے خوفناک اور حولناک دن کی آمد پر ان کا ایمان ہوتا جب اگلے پچھلے لوگ بارگاہِ الہی میں حاضر کیئے جائیں گے اور ان سے ان کی بد اعمالیوں کی طاز پرس ہو گی تو یہ لوگ اس طرح بے خوف ہو کر ان جرائم کا انتخاب نہ کرتے۔ انہیں تو یہ یقین نہیں ہے کہ مرنے کے بعد دوبارو اٹھائے جائیں گے اس لیئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔
"لِيَوْمٍ عَظِیم ایک بڑے سخت دن کے لیئے"۔ قیامت کو بڑا دن بنا پر کہا گیا ہے کہ اس دن تمام انسانوں اور جنوں کا حساب خدا کی عدالت میں بیک وقت لیا جائے گا اور عذاب و ثواب کے اہم ترین فیصلے کیئے جائیں گے۔

تفسیر ابن کثیر میں بھی اس حوالے سے ہے کہ کیا وہ اتنا خیال بھی نہیں کرتے کہ ایک بڑے دن کے لیئے انہیں قبروں سے اٹھایا جائے گا۔ کیا انہیں اس کا خوف نہیں ہے کہ انہوں نے قبروں سے اٹھ کر اس رب کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے جو دلوں کے حال بھی جانتا ہے۔ یہ دن بڑا عظیم اور حولناک ہو گا۔ اس دن اس قسم کے لوگوں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔
پھر جو فرمایا ہے : يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
"کہ جس دن سب لوگ تمام جہانوں کے رب کے حضور کھڑے ہوں گے"
یعنی جس دن لوگ جواب دہی کے لیئے پروردگارِ عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اس دن تمام لوگ ننگے پاوں ننگے بدن غیر مخدون ہوں گے۔ مجرمین انتہائی تنگی اور سختی میں ہوں گے اور ان پر ایسے مصائب و عالام نازل ہوں گے کہ انسانی حواس اور اعضاء بےبس ہو کر رہ جائیں گے۔
حضرت عبدللہ بن عمر رحمة الله سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جس دن پروردگارِ عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے اس دن انکا پسینہ انکے نصف کانوں تک پہنچ جائے گا۔"

حضرت ابو امامہ رحمة الله روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "قیامت کے دن سورج کو ایک میل کی مقدار کم کر دیا جائے گا۔ اس کی حرارت میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اس کی گرمی کی شدت سے سر اس طرح ابلیں گے جیسے ہنڈیا ابلتی ہے۔ لوگ اپنی خطاؤں اور گناہوں کے برابر پسینے میں شرابور ہوں گے۔ کسی کا ٹخنوں تک ہو گا، کسی کا پنڈلی تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا اس کے منہ تک ہو گا"
حضرت عقبی بن عامر رحمة الله سے بھی اسی کی مثل مروی ہے۔ اس کے آخری الفاظ اس طرح سے ہیں کہ انکا پسینہ انکو ڈھانپ لے گا۔ ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ "لوگ ستر 70 سال اسی طرح کھڑے رہیں گے، آپس میں گفتگو نییں کریں گے" بعض نے کہا کہ تین سو 300 سال تک کھڑے رہیں گے۔ ایک قول ہے کہ چالیس ہزار 40،000 سال تک کھڑے رہیں گے اور پھر دس ہزار 10،000 سال میں ان کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اسے امام مالک رحمة الله نے موطا میں روایت کیا ہے۔ اسکے ساتھ مسلم اور بخاری نے بھی مختلف مسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ مسند امام بخاری رحمة الله میں روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ "جس دن لوگ پروردگارِ عالم کی عزمت کے سامنے کھڑے ہوں گے اس دن ان کا پسینہ ان کے نصف کانوں تک پہنچ جائے گا"
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "قیامت کے دن سورج بندوں کے قریب کر دیا جائے گا حتہ کہ ایک یا دو میل کا فاصلہ رہ جائے گا۔ سورج کی گرمی کی وجہ سے وہ پسینے سے شرابور ہوں گے۔ انکا پسینہ انکے اعمال کے مطابق ہو گا۔ کسی کا پسینہ ایڑھی تک ہو گا، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک، کسی کا اس کے منہ تک پہنچ کر اس کا منہ بند کر دے گا۔
یہ مسند کی روایت یے۔ اسے مسلم میں بھی اور ترمزی میں بھی حضرت جابر رحمة الله سے روایت کیا گیا ہے۔

صحیح مسلم کی مرفوع حدیث ہے"اس دن کی مقدار پچاس ہزار 50،000 ہو گی" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت بشیر غفاری رحمة الله سے فرمایا: "تم اس دن کیا کرو گے جب لوگ پروردگارِ عالم کے سامنے دنیاوی عیام کے مطابق تین سو 300 سال تک کھڑے رہیں گے۔ نہ تو ان پر آسمان سے کوئی خبر آئے گی نہ ہی انکا کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ تو انہوں نے فرمایا میں اللہ تعالی سے مدد کا طالب ہوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب سونے کیلیئے جایا کرو تو روزِ محشر کے مصائب اور حساب کی سختی سے پناہ مانگو۔"
سنن ابو داود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن کی تنگی مقام سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت عبدللہ ابن مسعود رحمة الله فرماتے ہیں کہ لوگ چالیس سال تک آسمان کی طرف منہ کر کے کھڑے رہیں گے۔ آپس میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ نیک و بد ہر کوئی پسینے میں غرق ہو گا۔
حضرت عبدللہ بن عمر رحمة الله سے مروی ہے کہ وہ ایک سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ تہجد شروع کرنے سے پہلے دس مرتبہ اللہ اکبر، دس مرتبہ الحمدللہ، دس مرتبہ سبحان اللہ اور دس مرتبہ استغفرللہ پڑھتے۔ پھر یہ دعا مانگتے: "اے اللہ مجھے بخش دے، مجھے ہدایت عطا فرما، رزق اور عافیت عطا فرما" پھر آپ ﷺ قیامت کے دن کی تنگی سے پناہ مانگتے۔

*سورة المطففين 7*

*کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ .*
یہ حق ہے کہ بدکاروں کا نامہ اعمال سجین میں ہو گا۔

*سورة المطففين 8*
*وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا سِجِّیۡنٌ ؕ﴿۸﴾*
تجھے کیا معلوم سجین کیا ہے۔

*سورة المطففين 9*
*کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ؕ﴿۹﴾*
(یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے ۔

معارف القرآن میں اس کی تفسیر کچھ اس طرح سے بیان کی گئی ہے کہ،

*کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِیۡ سِجِّیۡنٍ ؕ﴿۷*

سجین یہاں پر سجن سے مشتق ہے کہ جس کے معنی تنگ جگہ میں قید کرنے کے ہیں ۔
قاموس میں ہے کہ سجین کے معنی دائمی قید کے ہیں اور احادیث و آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجین ایک مقامِ خاص کا نام ہے اور کفار فجار کی ارواح کا مقام یہی ہے اور اسی مقام میں ان کے اعمال نامے رہتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے اعمال نامے اس جگہ میں محفوظ کر دیِئے جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی کتابِ جامع اتری ہو جس میں تمام دنیا کے کفار و فجار کے اعمال نامے لکھ دیئے گئے ہوں۔
یہ مقام کس جگہ ہے اس کے متعلق حضرت برا بن آصف ؓ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ سجین ساتویں زمین کے نچلے طبقے میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیرِ عرش ہے۔
بعض روایات احادیث میں یہ بھی ہے کہ سجین کفار و فجار کی ارواح کا ٹھکانہ ہے اور علیین مومنین متقین کی ارواح کی جگہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے بھی روایت ہے کہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے اور ابنِ جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ؐسے سوال کیا گیا کہ قرآن میں جو یہ آیا ہے کہ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا اس کا کیا مطلب ہے جہنم کو کہاں سے لایا جائے گا ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ جہنم کو ساتویں زمین سے لایا جائے گا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم ساتویں زمین میں ہے۔وہیں سے بھڑک کر سارے سمندر اور دریا اس کی آگ میں شامل ہو جائیں گے اور سب کے سامنے آ جائے گی۔ تو جہنم کے لائے جانے کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے ۔

*سورة المطففين 9*
*کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ؕ﴿۹﴾*
( یہ تو ) لکھی ہوئی کتاب ہے ۔

"مرقوم" کے معنی اس جگہ "مختوم" کے ہیں۔ یعنی مہر لگی ہوئی ۔ امام بغوی اور ابنِ کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ کتابً مرقوم کا مقامِ سجین کی تفسیر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے جو کتاب الفجار آیا ہے اس کا بیان ہے۔
معنی یہ ہیں کہ کفار و فجار کے اعمال نامے مہر لگا کر محفوظ کر دیئے جائیں گے کہ ان میں کسی کمی بیشی اور تغیر کا امکان نہ رہے اور ان کے محفوظ کرنے کی جگہ سجین ہے۔ یہیں کفار کی ارواح کو جمع کر دیا جائے گا۔

ضیاءالقرآن میں میں بھی ان آیات کی تفسیر اس طرح سے کی گئی ہے کہ بتایا گیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ قیامت تو عرصہ دراز کے بعد برپا ہو گی۔اس وقت تک کسے یاد رہے گا کس نے کیا کیا اور وہ صحیفے جن میں ان کے اعمال لکھے جا رہے ہیں وہ بھی بوسیدہ ہو کر پھٹ جائیں گے۔ ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا جارہا ہے یہاں پر کہ، ان کیلیے ایک بہت بڑا دفتر ہے جس کا نام سجین ہے۔ جب یہ مر جائیں گے اور ان کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جائے گا تو ان کے تمام اعمال اس بڑے دیوان میں محفوظ کر دیئے جائیں گے۔ اس لیئے ان کے کرتوتوں کے فراموش ہونے یا ان صحائف کے بوسیدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سجین کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن جب خود قرآن نے اس کی وضاحت کر دی کہ یہ اس کتاب کا نام ہے جس میں ان کے اعمالِ سیاہ لکھ کر محفوظ کر دئیے جائیں گے تو اب چھان بین کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیئے ان آیات میں سجین سے وہ دیوان مراد ہے جہاں اہلِ جہنم کے نام اور ان کے اعمال درج ہوں گے۔
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سجین ایک جگہ کا نام ہے۔جہاں دوزخیوں کی روحوں کو محبوث رکھا جائے گا۔
تفسیر ابنِ کثیر میں اسطرح سے بتایا گیا ہے کہ سجین سجن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تنگی۔ یعنی یہ ایک تنگ جیل خانہ ہے جس میں نیچے والی مخلوق تنگی میں ہو گی اور اوپر والی وسعت میں۔
ساتویں افلاک میں نیچے والے سے اوپر والا فلک وسیع ہے۔

اسی طرح ساتوں زمینیں ہیں۔ درجہ بدرجہ اوپر والی وسیع اور نیچے والی تنگ در تنگ حتیٰ کہ ساتویں زمین انتہائی تنگ ہے۔اور یہ سجین ساتویں زمین کے وسط میں واقع ہے۔ چونکہ کافروں کا ٹھکانہ جہنم ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اسی لیئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا۔

*سورة التين 5*
*ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾*
*اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ*
سورة التین ٥ اور ٦ آیت کے پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔

اور اس سورة میں بیان فرمایا ہے کہ ان کا ٹھکانہ سجین ہے اور یہ لوگ تنگی اور پستی، یا دونوں کو جامع کر کے یعنی جمع کر دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ،

*سورة الفرقان آیت 13*
*وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾*
اور جب انہیں پھینکا جائے گا اس آگ میں کسی تنگ جگہ سے زنجیروں میں جکڑ کر تو پکاریں گے وہاں موت کو۔

یہاں بھی تفسیر ابن کثیر میں بھی کتاب مرقوم اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا سِجِّیۡنٌ ؕ﴿۸﴾ کی تفسیر نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ کفار کے سجین میں ٹھکانے کو لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ لکھ کے محفوظ کر لیا ہے اب اس میں کوئی کمی ہو سکتی ہے نہ زیادتی۔

سورت المطففین
*آیت نمبر: 10*

وَيۡلٌ يَّوۡمَٮِٕذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَۙ‏ ﴿۱۰﴾
اس دن جهٹلانے والوں کے لیے تباہی ہوگی۔

الَّذِيۡنَ يُكَذِّبُوۡنَ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِؕ‏ ﴿۱۱﴾
جو لوگ روزِ جزا کو جهٹلاتے ہیں۔
یعنی روزِ جزا کو جهٹلانے والوں کے لیے اس دن تباہی ہوگی۔

وَمَا يُكَذِّبُ بِهٖۤ اِلَّا كُلُّ مُعۡتَدٍ اَثِيۡمٍۙ‏ ﴿۱۲﴾
اور اسے کوئی نہیں جهٹلاتا سوائے ہر اس شخص کے جو سرکش اور گنہگار ہے۔

اِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِ اٰيٰتُنَا قَالَ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَؕ‏ ﴿۱۳﴾
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ اگلے لوگوں کی کہانی ہے۔
یعنی جب اسے ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو
یہ سمجهتا اور کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کی کوئی کہانی ہے۔

كَلَّا* بَلۡ رَانَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾
ہر گِز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان اعمالِ بد کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تهے۔
مطلب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان اعمالِ بد کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تهے اس لیے اب آیتیں ان کے دل پر اثر ہی نہیں کر رہیں۔

معارف القرآن میں ان آیات کی تفسیر جو ہے اس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ پے در پے گناہ کرنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اس سیاہی کو "رین" کہتے ہیں۔ اس کی وضاحت حدیث شریف میں بهی اس طرح سے آئی ہے کہ اس کا ترجمہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب بندہ گناہ کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ داغ بن جاتا ہے اگر وہ توبہ کرے اور اس گناہ سے باز آجائے اور استغفار کرے تو دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ بار بار گناہ کرتا رہے تو وہ داغ بڑهتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ سارے دل کو گھیر لیتے ہیں۔ یہی وہ رین ہے جس کا اس آیت میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔ جس طرح نیک اعمال کے نتیجے میں نورانیت پیدا ہوتی ہے آئنہ دل شفاف ہو جاتا ہے اسی طرح سے بدکاریوں اور نافرمانیوں کے باعث دل کا آئینہ گرد آلود ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی چمک بلکل ختم ہو جاتی ہے۔
ان آیات میں بتایا جا رہا کہ ان سرکشوں کا آئینہ دل تاریک ہو گیا ہے اس لیے یہ اللہ کی آیتوں کو جهوٹی کہانیاں اور بے سر و پا افسانے خیال کرتے ہیں اور بڑی بے حیائی سے وقوع قیامت کا انکار کر رہے ہیں اور اس انکار کی وجہ سے یہ گناہوں کے دلدل میں پهستے جا رہے ہیں۔

معارف القرآن میں بهی اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے،

كَلَّا* بل رَانَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡن
یہان ران رین سے مشتق ہے جس کے معنی زنگ اور میل کے ہیں۔

مطلب یہ کہ ان کے دلوں پر گناہوں کا زنگ لگ گیا ہے اور جس طرح زنگ لوہے کو کها کر مٹی بنا دیتا ہے اسی طرح سے ان گناہوں کے زنگ نے ان کے دل کی اس صلاحیت کو ختم کر دیا ہے جس سے بُرے بهلے کی تمیز ہوتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "بندہ مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے اور اگر اس نے توبہ کر دی اور نادم ہو کر توبہ کر کے آگے اس عمل کو درست کر دیا تو یہ سیاہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور دل اپنی اصلی حالت پر منور ہو جاتا ہے اور اگر اس نے توبہ نہ کی اور بلکہ اپنے گناہوں کی زیادتی کرتا چلا گیا تو یہ سیاہی اس کے سارے قلب پر چها جاتی ہے، اسی کا نام ران ہے۔

سورة المطفّفين, الآيات: ١٥

*كلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون*
حق یہ ہے کے بیشک اس دن انہیں اپنے رب کے دیدار سے پس پردہ کر دیا جائے گا۔
یعنی محروم کرنے کے لئے پس پردہ کر دیا جاۓ گا ۔ یعنی ان نافرمانوں کو دیدار ِالہی کی نعمتِ عظمی سے اس دن محروم کر دیا جاۓ گا۔ٰ
ان کے سامنے انکے گناہ حجاب بن کر آجائیں گے۔
اولیاء جب لذتِ دیدار سے شاد ہو رہے ہوں گے۔
یہ بدنصیب ان حجابات کے پیچھے سر پٹخ رہے ہوں گے اور اپنی قسمت کو کوس رہے ہونگے۔

معارف القرآن میں اس آیت کے حوالے سے ،
سورة المطفّفين, الآيات: ١٥
*كلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون*
یعنی قیامت کے روز یہ کفار و فجار اپنے رب کی زیارت سے محروم پسِ پردہ روک دیئے جائیں گے۔

یہ ان کے عمل کی سزا ہوگی کے انہوں نے دنیا میں حق کو نہیں پہچانا۔
تو اب اپنے رب کی زیارت کے قابل یہ نہیں رہے۔

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اور شافی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین اور اولیاء اللّٰه کو حق تعالی کی زیارت ہو گی۔ورنہ پھر کفار کے محجوب رہنے کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔

معارف القرآن میں ہی اس کی
آگے اور وضاحت کی گئی ہے کہ بعض اکابر علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اسکی دلیل ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت سے حق تعالی کی محبت پر مجبور ہے ۔ تو یہ دنیا کے عام کفار و مشرکین چاہے کتنے ہی کفر و شرک میں مبتلا ہوں اور اللّٰه کی صفات کے مطلق باطل عقیدے رکھتے ہوں۔
مگر اتنی بات سب میں مشترک ہے کہ اللّه تعالی کی عظمت و محبت سب کے دلوں میں ہوتی ہے اور اپنے باطل عقیدے کے مطابق اسی کی جستجو اور رضاجوئی کی باتیں کرتے ہیں۔ راستہ غلط ہوتا ہے اس لئے منزل مقصود پر نہیں پہنچتے۔
مگر طلب اسی منزلِ حق کی ہوتی ہے ۔ یہاں پر اسکی دلیل کی وجہ یہ ہے۔

اگر کفار میں حق تعالی کی زیارت کا شوق نا ہوتا تو سزا میں یہ نہ کہا جاتا اس روز زیارت سے محروم رہیں گے کیوںنکہ جو شخص کسی کی زیارت کا طالب ہی نہیں اس کے لئے یہ کوئی سزا نہیں کہ اسکو زیارت سے محروم کیا جاۓ۔

تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یقیناً انہیں اپنے رب کے دیدار سے اس دن روک دیا جاۓ گا۔
قیامت کے دن ان کافروں کا ٹھکانہ سجین ہو گا اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے خالق و پروردگار کے دیدار سے بہیں روک دیا جاۓ گا۔
حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک دفع حجاب اٹھا دیا جاۓ گا تمام مومن اور کافر سب اپنے رب کو دیکھ لیں گے۔
پھر کافروں کو پردے کے پیچھے کر دیا جاۓ گا اور مومنین صبح و شام دیدار سے مشرف ہوں گے۔

سورة المطفّفين, الآيات: ١٦
*ثم إنهم لصالو الجحيم*
پھر وہ دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے۔

سورة المطفّفين, الآيات: ١٧
*ثم يقال هذا الذي كنتم به تكذبون*
پھر ان سے کہا جاۓ گا یہ وہ ہے جسے تم جھٹلا یا کرتے تھے۔

یعنی یہ وہ عذابِ جہنم ہے جسے تم جھٹلا یا کرتے تھے۔ یعنی اللّه تعالی کے دیدار سے محرومی کے ساتھ ساتھ انکا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ پھر یہ انہیں تحقیر کے طور پر کہا جاۓ گا، یہ وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

*آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*۔

*سورة المطففين 18*
*کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡاَبۡرَارِ لَفِیۡ عِلِّیِّیۡنَ ﴿*ؕ۱۸﴾*
یقیناً یقیناً نیکوکاروں کا نامہ اعمال علیین میں ہے۔

*سورة المطففين 19*
*وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا عِلِّیُّوۡنَ ﴿ؕ۱۹﴾*
اور تمہیں کیا خبر کہ علیین کیا ہے؟

ِیہاں بتایا جا رہا ہے کہ جس دیوان میں ابرار و صالحین کے اعمالِ حسنہ لکھ کر محفوظ کر دیئے جائیں گے اس کا نام علیین ہے۔

تفسیر ابنِ کثیر میں ہے کہ کافروں اور فاجروں کا ٹھکانہ تو سجین ہے اور نیکو کاروں کا ٹھکانہ اس کے برعکس علیین ہے۔
حضرت ہلال بن نصاف ؓ فرماتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت کعب الحبار ؓ سے سجین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ ساتویں زمین میں ہے اس میں کافروں کی روحیں ہیں پھر انہوں نے علیین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نےفرمایا یہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مومنین کی ارواح ہیں۔ یہ قول کئی دوسرے مفسرین سے بھی اسی طرح سے مروی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ علیین سے مراد جنت ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نیکوکاروں کے اعمال آسمان میں اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
قتادہ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علیین عرش کا دایاں پایہ ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ مقام سدرةالمنتہیٰ کے پاس ہے۔ ظاہر یہی ہے کہ علیین بمعنی بلندی سے مشتق ہے۔ کوئی چیز جتنی بھی بلند ہو گی اتنی ہی بڑی اور وسیع ہو گی۔ اسی لیئے اللہ تعالیٰ نے آگے یہی فرمایا کہ ،

سورة المطففين 19
*وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا عِلِّیُّوۡنَ ﴿ؕ۱۹﴾*
اور تمہیں کیا خبر کہ علیین کیا ہے؟

*کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ﴿ۙ۲۰﴾*
یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔

سورة المطففين 21
*یَّشۡہَدُہُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾*
دیکھتے رہتے ہیں اسے مقربین۔یعنی حفاظت کیلیے ہیں۔

قتادہ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مقربین سے مراد یہاں فرشتے ہیں۔ ہر آسمان میں مقرب فرشتے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

معارف القرآن میں بھی "یشھد المقربون" یہاں بتایا گیا ہے کہ یشہد شہود سے مشتق ہے۔ جس کی معنی حاضر ہونے اور مشاہدہ کرنے کے آتے ہیں۔
بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد آیت کی یہ ہے کہ،
ابرار و صالحین کی کتاب العمال کو مقربین دیکھتے ہیں اور مراد مقربین سے فرشتے ہیں اور دیکھنے سے مراد اس کی نگرانی اور حفاظت ہے۔
مطلب یہ کہ ابرار و صالحین کے صحائف اعمال مقرب فرشتوں کی نگرانی میں ہوں گے اس کی دلیل میں صحیح مسلم کی یہ حدیثِ مبارکہ بھی ہے کہ حضرت عبدالہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شھداء کی ارواح اللہ تعالیٰ کے نزدیک سبز پرندوں کی پوٹوں میں ہوں گی جو جنت کے باغات اور نہروں کی سیر کرتی ہوں گی اور ان کے رہنے کی جگہ قندیل ہوں گے جو عرش کے نیچے معلق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شھداء کی ارواح تہت العرش رہیں گی اور جنت کی سیر کر سکیں گی۔
یہاں پر اگرچہ یہ حال جو ہے صرف مقربین کا ان کی اعلیٰ خصوصیات و فضیلت کی وجہ سے بیان کیا گیا ہے مگر درحقیقت یہی ٹھکانہ تمام مومنین کی ارواح کا بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ
نے فرمایا کہ مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رہے گی یہاں تک کہ قیامت کے روز وہ اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

معارف القرآن میں اس کو مزید تفسیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے روایات حدیث بظاہر مختلف نظر آتی ہیں۔ علین اور سجین کی تفسیر میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کفار سجین میں رہتی ہیں جو ساتویں زمین میں ہے اور ارواح مومنین علین میں رہتی ہیں جو ساتویں آسمان پر زیرِ عرش ہے۔ اب بعض رویات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ارواح کفار جہنم میں اور ارواح مومنین جنت میں رہیں گی۔ بعض روایات حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مومنین و کفار سب کی روحیں ان کی قبروں میں رہتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت براء بن عاضب کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مومن کی روح کو فرشتے آسمان میں پر لے جاتے ہیں تو حق تعالی فرماتے ہیں میرے اس بندے کا اعمال نامہ علین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے اسے زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور مرنے کے بعد اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اسی زمین سے دوبارہ زندہ کر کے نکالوں گا۔ اس حکم پر فرشتے اسکی روح کو قبر میں لوٹا دیتے ہیں۔ اسی طرح کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور یہی حکم ہو گا کہ اسکو اسکی قبر میں لوٹا دو۔ امام ابن عبدالبر نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ سب کی ارواح موت کے بعد اپنی قبر میں ہی رہتی ہیں۔ ان میں پہلی اور دوسری روایات میں جو یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض سے مومنین کا علین میں رہنا معلوم ہوتا ہے اور بعض سے جنت میں رہنا۔

اس کا حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمة الله علیہ نے تفسیر مظہرئ میں یہ بیان کیا ہے کہ یہ بات کچھ بعید نہیں رکھتی کہ ارواح کا اصل ٹھکانا علین اور سجین ہی ہوں۔ مگر ان ارواح کا ایک خاص رابطہ قبروں کے ساتھ بھی ہو۔ اس رابطے کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا مگر جس طرح آفتاب، مہتاب آسمان میں ہیں اور انکی شعایئں زمین میں پڑ کر اسکو روشن بھی کرتی ہیں، گرم بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح علین اور سجین کا کوئی رابطہ قبروں سے بھی ہو سکتا ہے۔
معارف القرآن میں بھی حضرت علامہ ثناءاللہ پانی پتی رحمة الله علیہ کی اسی بات سے لکھا گیا ہے کہ بیشک علین اور سجین ہی ارواح کا ٹھکانہ ہے اسکے باوجود ہر روح کا اپنے جسم کے ساتھ قبر میں ایک تعلق ہے جسکی حقیقت کو اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی تعلق کی وجہ سے میت اپنے زائر کے سلام کو سنتی ہے اور منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ اسکے بعد علامہ صاحب اسکی ایک مثال دیتے ہیں کہ جبرائیل امین کا اصل مقام تو آسمانوں میں ہے لیکن وہاں ہوتے ہوئے وہ بارگاہِ رسالتﷺ کے اس قدر نزدیک ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ حضور ﷺ کی رانوں پر رکھ دیتا ہے۔

غور کیا جائے تو یہ اختلاف نہیں ہے کیونکہ مقام علین بھی ساتویں آسمان پر زیرِ عرش ہے اور جنت کا بھی یہی مقام ہے۔ خود قرآنِ کریم سے یہ ثابت ہے۔
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى
اس میں یہی ہے کہ جنت سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى کے پاس ہے اور سدرة کا ساتویں آسمان میں ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ اس لیے مقامِ ارواح جب علین میں ہوا تو وہ جنت سے متصل ہے اور ان ارواح کو جنت کے باغات کی سیر نصیب ہے۔ اسی لیے انکا مقام جنت بھی کہا جا سکتا یے۔ اسی طرح کفار کی ارواح سجین میں ہیں اور وہ ساتویں زمین میں یے اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جہنم بھی ساتویں زمین میں ہے۔ اور اہلِ سجین کو جہنم کی تپش اور ایزاء پہنچتی رہیں گی۔ اسی لیے انکا مقام جہنم میں کہہ دینا بھی صحیح ہے۔ اوپر جس روایت میں ارواح کا قبروں میں رہنا معلوم ہوتا ہے تو بظاہر پچھلی دو روایتوں سے تو بہت مختلف ہے۔

سورۃ المطففین آیت 22
اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۲۲﴾
یقیناً نیک لوگ ( بڑی ) نعمتوں میں ہوں گے۔

عَلَی الۡاَرَآئِکِ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ۙ۲۳﴾
پلنگوں پر بیٹھے جنت کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔

تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ ﴿ۚ۲۴﴾
آپ پہچان لیں گے ان کے چہروں پر راحتوں کی شگفتگی۔

یعنی یہ لوگ قیامت کے دن راحت و آرام میں ہوں گے اور ایسی جنتوں میں ہوں گے جہاں ان پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہو گا۔ پلنگوں پر بیٹھے یہ نظارہ کر رہے ہوں گے جنت کا۔ یہ مسیروں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ اپنے ملک و مال اور نعمتوں اور راحتوں کو عزت و جاہ کو مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے ہوں گے اور یہ خیر و فضل، یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو گی نہ گمے گی نہ گٹھے گی نہ ہی مٹے گی۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدارِ باری تعالی سے مشرف ہوتے رہیں گے۔ یعنی کہ کافر و فاجر تو اس دن اللہ کے دیدار سے محروم ہوں گے اور اس کے برعکس یہ رب کا دیدار کر رہے ہوں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) کی ایک حدیث میں ایسے ہے کہ سب سے نچلے درجے کا جنتی جنت میں اپنی ملکیت کو دو ہزار سال کی مسافت سے دیکھ لے گا۔ اور سب سے بعید جگہ اس کے لئے یوں ہو گی جیسے قریب کی ہوتی ہے اور اعلیٰ درجے کے جنتی دن میں دو مرتبہ اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ ان کے چہروں پر راحت اور شگفتگی سے ان کو پہچان لیں گے اور جب آپ ان کو دیکھیں گے ان کے چہروں پر راحت کی شگفتگی آسود ہالی جاہ و حشمت خوشی و سرور اور فارغ و بالی پائیں گے۔

یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾
انھیں پلائی جائے گی سربہ مہر خالص شراب۔

خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾
اس کی مہر کستوری کی ہو گی۔اس کے لئے سبقت لے جانے کی کوشش کریں سبقت لے جانے والے۔

رحیق پاکیزہ اور صاف شراب کو کہتے ہیں۔ جس کا رنگ سفید ہو۔ جو ہر میل سے پاک ہو اسے رحیق کہتے ہیں۔ اور آگے الفاظ ہیں، خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جن برتنوں میں وہ شراب رکھی ہو گی ان پر مٹی یا موم کی بجائے مشک کی مہر ہو گی۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ شراب کی ایک نفیس ترین قسم ہوگی جو نہروں میں بہنے والی شراب سے اشرف و اعلیٰ ہوگی اور اسے مشک کی مہر لگے ہوئے برتنوں میں لا کر اہلِ جنت کو پیلائیں گے۔ دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شراب جب پینے والوں کے حلق سے اترے گی تو آخر میں ان کو مشک کی خوشبو محسوس ہو گی۔ یہ کیفیت دنیا کی شرابوں کے بالکل برعکس ہے جن کی بوتل کے ہی بُو کا ایک بھپکا ناک میں آتا ہے پیتے ہوئے بھی بدبو محسوس ہوتی ہے اور حلق سے جب اترتی ہے تو دماغ تک اس کی سرانٹ پہنچ جاتی ہے جس سے پینے والے کے چہرے سے بدمزگی کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔

ؕ *وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ*

معارف القرآن میں اس طرح سے تفسیر بیان کی گئی ہے کہ تنافس کے معنی ہیں "چند آدمیوں کا کسی خاص مرغوب و محبوب چیز کے حاصل کرنے کے لیے جھپٹنا ،دوڑنا تاکہ دوسروں سے پہلے وہ اس کو حاصل کر لیں"۔ یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد حق تعالیٰ نے غفلت شعار انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آج تم لوگ جن چیزوں کو مرغوب و مطلوب سمجھ کر ان کے حاصل کرنے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہو یہ ناقص اور فانی نعمتیں اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو مقصودِ زندگی سمجھ کر ان کے لئے آپس میں اس طرح سے مسابقت کرو بلکہ ان میں تو اگر قناعت و ایثار سے کام لے کر یہ سمجھ لو کہ یہ چند روزہ راحت کا سامان ہاتھ سے نکل ہی گیا تو کچھ بڑے صدمے کی بات نہیں۔ ایسا خسارہ نہیں کہ جس کی تلافی نہ ہو سکے کیونکہ تنافس اور مسابقت کرنے کی چیز یہ جنت کی نعمتیں ہیں جو ہر حیثیت سے مکمل بھی ہیں اور دائمی بھی۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔
*جو مومن کسی پیاسے مومن کو پانی کا گھونٹ پلائے تو اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم پلائے گا*
*اور جو شخص کسی بھوکے شخص کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالی اسے جنت کے میوے کھلائے گا اور جو شخص کسی ننگے کو کپڑے پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنتی سبز ریشم کا لباس پہنائے گا*۔

حضرت ابو دردا ؓ فرماتے ہیں کہ یہ چاندی کی مثل سفید شراب ہو گی۔ اسے سب سے آخر میں پیئں گے۔ اگر اہلِ دنیا میں سے کوئی شخص اس میں اپنی انگلی ڈال کر نکالے تو تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک اٹھے۔

مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس شراب سے کستوری کی خوشبو آ رہی ہو گی۔ اسی کے بارے میں آگے فرمایا،

*سورة المطففين 27*
*وَ مِزَاجُہٗ مِنۡ تَسۡنِیۡمٍ ﴿ۙ۲۷﴾*
اور اس کی آمیزش تسنیم کی ہوگی ۔

*سورة المطففين 28*
*عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۸﴾*
( یعنی ) وہ چشمہ جس کا پانی مقرب لوگ پیئں گے۔

یعنی اس رحیقِ مختوم میں تسنیم کی آمیزش ہو گی۔ تسنیم جنت کی سب سے اعلیٰ اور عمدہ شراب کا نام ہے.

اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ وہ چشمہ ہے جسے صرف مقربین پیئں گے۔ مقربین اس چشمے کی خالص شراب پئیں گے اور اصحابِ یمین کو اس کا کچھ حصہ ملا کر پلایا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ابنِ عباس ؓ اور قتادہ رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا قول ہے جو کہ تفسیر ابنِ کثیر میں بیان کیا گیا ہے۔
ضیاء القرآن میں اس کو اس طرح سے تفسیر کیا گیا ہے کہ اس شراب میں تسنیم کے چشمے کا پانی ملایا جائے گا۔ جنت کی تمام شرابوں سے یہ اعلیٰ درجے کی شراب ہو گی۔ یہ نہروں میں عام نہیں بہہ رہی ہو گی بلکہ یہ بلوریں مینائوں میں بند ہو گی۔جو کستوری سے سر بمہر ہوں گی۔ ان میں بلندیوں سے بہہ کر آنے والے چشمِ تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور اس چشمئہ شیریں کا پانی بھی ہر ایک کو پینا نصیب نہیں ہو گا۔ یہ صرف مقربین کیلیئے مخصوص ہو گا۔

اور اسی کے لئے ہے وہ جو فرمایا گیا ہے ،

سورة المطففين 26
ٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾
اس کے لئے سبقت لے جانے کی کوشش کریں سبقت لے جانے والے۔

کہ جو حس کرنے والے ہیں اور جو آگے بڑھ جانے اور سبقت حاصل کرنے والے ہیں ان کو چاہیئے کہ اسی کی طرف اپنی تمام تر توجہ کریں۔
جیسا کہ قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ پر بھی ہے کہ ایسی چیزوں کے لیئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہیئں۔

*آعوذبااللہ من الشیطن الرجیم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*

*سورة المطففين 29*
*اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ ﴿۫ ۖ۲۹﴾*
بے شک مجرم لوگ ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

الله تعالی نے یہاں کافروں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا میں مسلمانوں پر ہر وقت ہنسا کرتے تھے۔ اہل ایمان کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتے۔

*وَ اِذَا مَرُّوۡا بِہِمۡ یَتَغَامَزُوۡنَ ﴿۫ ۖ۳۰﴾*
اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ بازی کرتے۔

*وَ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمُ انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ ﴿۫ ۖ۳۱﴾*
اور جب اپنے اہلِ خانہ کی طرف لوٹتے گھروں کو تو دل لگیاں کرتے ہوئے واپس آتے۔

یعنی یہ جب مسلمانوں کی دل آزاری کرنے اور جی بھر کر ان پر بھبتیاں کسنے کے بعد یہ بےفکرے اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے تو دل لگیاں کرتے جاتے تھے کہ گویا کوئی بڑا قلعہ فتح کر کے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔

*وَ اِذَا رَاَوۡہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾*
اور جب وہ مسلمانوں کو دیکھتے تو کہتے کہ یقینا یہ لوگ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔

مطلب ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو دیکھتے کہ جیسے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور اپنے وہ جو خاندانی معبود بنا رکھے تھے ان سے قطع تعلق کر چکے ہیں۔
کیونکہ مسلمانوں نے ان کے قدیم دین کو تو چھوڑ دیا تھا اس لیئے وہ مسلمانوں کو گمراہ سمجھتے تھے۔

*وَ مَاۤ اُرۡسِلُوۡا عَلَیۡہِمۡ حٰفِظِیۡنَ*.
حالانکہ وہ اہلِ ایمان پر محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے تھے۔

یہاں پر الله تعالی ان کی ان گھٹیا حرکتوں پر تنبیہ فرماتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی کیا فکر ہے تم ان کے بارے میں کیوں ہر وقت اس طرح سے باتیں کرتے رہتے ہو کیا تم ان کے نگران ہو؟ کیا ان کو راہِ راست پر چلانے کی زمہ داری تم پر عائد ہے؟ تم اپنی خیر مناؤ اپنے انجام کا خیال کرو۔ ان درویشوں کو خواہ مخواہ کیوں اس طرح سے تنگ کرتے ہو؟ ان کا دل دکھانے سے تمہیں کیا ملے گا؟
اس مختصر سے فقرے میں ان مذاق اڑانے والوں کو بڑی سبق آموز تنبیہ کی گئی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ بالفرض وہ سب کچھ غلط ہے جس پر مسلمان ایمان لائے ہیں لیکن وہ تمہارا تو کچھ نہیں بگاڑ رہے جس چیز کو انھوں نے حق سمجھا ہے۔ اس کے مطابق وہ اپنی جگہ خود ہی ایک خاص اخلاقی رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ اب کیا الله نے تمہیں کوئی فوجدار بنا کر یہاں بھیجا ہے کہ جو تمہیں نہیں چھیڑ رہا اس کو تم چھیڑو جو تمہیں کوئی تکلیف نہیں دے رہا تم اس کو خواہ مخواہ تکلیف دو۔ تم مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ انھوں نے اہلِ ایمان کو پریشان کرنا اپنا مشغلہ ہی بنا لیا تھا۔

*فَالۡیَوۡمَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنَ الۡکُفَّارِ یَضۡحَکُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾*
پس آج اہلِ ایمان کافروں پر ہنس رہے ہیں۔

یعنی دیکھو کہ آج پھر اہلِ ایمان تو کافروں پر ہنس رہے ہیں۔

*عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۙ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾*
سجے ہوئے تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہیں۔

*ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿٪۳۶﴾*
سو کیا کافروں کو اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا گیا ہے جو وہ مسلمانوں سے کیا کرتے تھے؟

تفہیم القرآن میں ان کی تفسیر میں اس طرح سے کہا گیا ہے کہ ان فقرات میں ایک لطیف سا طنز ہے کیونکہ کافر ثواب کا کام سمجھ کے مومنوں کو تنگ کرتے تھے۔ اس لیئے فرمایا جا رہا ہے کہ آخرت میں جب ہوگا تو مومن جنت میں مزے سے بیٹھے ہوں گے اور جہنم میں جلنے والے کافروں کا حال دیکھیں گے۔
ضیاءالقرآن میں ان کی تفسیر اس طرح سے کی گئی ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا اس دن کفار روئیں گے۔ اپنی بربادیوں پر آہ و فگاں کریں گے۔اور میرے محبوب کے یہ پروانے اپنی ابدی فلاح پر خوش ہوں گے اور ہنس رہے ہوں گے اور اپنے رنگین پلنگوں پر بیٹھے ہوئے کفار کی تباہ حالیوں کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ اس وقت سب کو پتا چل جائے گا کہ منکرین نے جو کرتوت کیئے تھے ان کا کس طرح ان کو پورا پورا بدلہ مل رہا ہے۔

تفسیر ابنِ کثیر میں بھی ان آیات کے حوالے سے اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ یہاں پر جو یہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہےکہ آج قیامت کے دن ایمانداران بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے خدا کو دیکھ رہے ہیں جو صاف ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ گمراہ نہ تھے۔ گو کہ تم انہیں گمراہ کہا کرتے تھے لیکن یہ دراصل اولیاء اللہ تھے۔ مقربینِ خدا تھے۔ اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ یہ خدا کے مہمان ہیں اور ان کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ کیا انہیں آخرت میں مل گیا ہے یا نہیں؟ اور ان کے مزاق کے بدلے آج ان پر ہنسی اڑائی جا رہی ہے۔ یہ انہیں گھٹاتے تھے اور خدا نے انہیں بڑھا دیا ہے۔ غرض کہ پورا پورا تمام وکمال بدلہ دے دیا گیا ہے۔