*سورت عَبَسَ* شروع کریں گے۔ اس سورت کا نام عَبَس ہے ۔ اس سورت ک پہلا کلمہ اس مناسبت سے ہے۔

*عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ*
*ان کے چہرے پر ناگواری آئی اور رخ موڑ لیا۔*

یعنی ان کے چہرہ اقدس پر ناگواری آئی اور رخ انور کو پھیر لیا۔

*أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ*
*اس وجہ سے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا۔*

بتایا گیا یے کہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا جس نے آپ کی بات کو ٹوکا۔

*وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ*
*اور آپ کو کیا خبر شاید وہ پاک ہو جاتا۔*

یعنی یہاں بتایا گیا ہے کے آپ کی توجہ سے مزید پاک ہو جاتا۔

*أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ*
*یا نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اس کو فائدہ دیتی۔*

یعنی آپ اگر اسے نصیحت کرتے اور وہ اسے قبول کرتا تو نصیحت اور فائدہ دیتی۔

*أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ*
*لیکن جو شخص بے پروہ ہے۔*

یہاں دین سے بے پروہ بتایا گیا ہے۔

*فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ*
*تو آپ اس کے لیے ذیادہ اہتمام فرماتے ہیں۔*

یعنی اسکے قبول اسلام کے لیے ذیادہ اہتمام فرماتے ہیں۔

*وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ*
*حالانکہ آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں اگرچہ وہ پاکیزگی اختیار نہ بھی کرے۔*

یعنی آپ پر اس کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ آپ پر ذمہ داری نہیں ہے اگر وہ پاکیزگی یعنی ایمان اختیار نہ بھی کرے۔

*وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ*
*اور وہ جو آپ کے پاس کوشش کرتا ہوا آیا۔*

یعنی خود اس کو خیر کی طلب تھی اور وہ آپ کے پاس کوشش کرتا ہوا آیا۔

*وَهُوَ يَخْشَىٰ*
*اور وہ ڈدتا بھی ہے۔*

یعنی اپنے رب سے ڈدتا ہے۔

*فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ*
*تو آپ اس سے بے توجہ ہی فرما رہے ہیں۔*

*كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ*
*یوں نہیں بیشک یہ تو نصیحت ہیں۔*
یعنی اے حبیب مکرم یوں نہیں بیشک یہ آیات قرانی تو نصیحت ہیں۔

*فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ*
*جو شخص چاہے اسے قبول کر لے۔*

*فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ*
*معزز و مکرم اوراق میں ہیں۔*

یعنی یہ معزز و مکرم اوراق میں لکھے ہوے ہیں۔

*مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ*
*جو نہایت بلند مرتبہ پاکیزہ ہیں۔*

*بِأَيْدِي سَفَرَةٍ*
*ایسے سفیروں کے ہاتھوں سے ہیں*

یعنی ایسے سفیروں اور قاتبوں کے ہاتھ سے آگے پہنچی ہیں۔

*كِرَامٍ بَرَرَةٍ*
*جو بڑے صاحب کرامت اور پیکران اطاعت ہیں۔*

پہلی آیت جو ہے،
*عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ*
*کہ ان کے چہرہ اقدس پر ناگواری آئی اور رخ انور موڑ لیا۔*
مفسرین اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کی ایک روز بارگاہ رسالت میں رءوسا قریش، اطبا، شیبا، پسران ربیا، ابو جہل، امیا بن خلف،ولید بن مغیرہ یہ حاضر تھے۔ حضور ان کو دعوت اسلام دے رہے تھے کہ اچانک عبدللہ ابن مقطوم آ گئے۔ اور آداب مجلس کا لہاظ کئے بغیر عرض کرنے لگے کہ "یا رسول اللہ ! اللہ تعالی نے آپ کو جو سکھایا ہے وہ مجھے بھی سکھائے اور مجھے بھی پڑھ کر سنائے۔
ان خا یے انداز گفتگو حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو نہ گوار گزرا۔ اور نہ گواری کے آثار چہرہ مبارک پر بھی نمایاں ہوئے۔ اور جبین سعادت پر شکن پڑ گئے۔
تو اللہ تعالی کو یہ گوارا نہ ہوا اس وقت یہ آیات اتریں۔
*عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ*
عَبَسَ کے معنی "ترش روئی اختیار کرنا"
یعنی چہرے سے اظہار نہ گواری ہونا۔
اور وَتَوَلَّىٰ کے معنی رخ پھیر لینے کے ہیں۔

اب اس جگہ موقع تو اس کا تھا کہ یہ الفاظ آپ کو بہ صیغہ خطاب کہے جاتے کہ آپ نے ایسا کیا ۔ لیکن قرآن کریم نے صیغہ خطاب کی بجائے صیغہ غائب اختیار کیا ۔
تفہیم القرآن میں بھی اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پہلے فقرہ کا انداز بیان عجیب لطف اپنے اندر رکھتا ہے اگرچہ بعد کے فقروں میں براۓ راست حضور نبی اکرم ﷺ کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ ترش روئی کا یہ فعل حضور نبی اکرم ﷺ سے ہی صادر ہوا تھا لیکن کلام کی ابتدا اس طرح سے کی گئی ہے گویا حضور نبی اکرم ﷺ نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے ۔
اس طرزِ بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر حضور نبی اکرم ﷺ کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا ۔ آپ کے اخلاق عالیہ کو جاننے والا دیکھتا تو یہ خیال کرتا کے یہ آپ نہیں کوئی اور ہے جو اس رویے کا مرتکب ہو رہا ہے ۔

ضیاء القرآن میں اس کی تفسیر ہے جو تو اس میں بتایا گیا ہے۔ کہ امام فخر الدین غازی یہاں ایک سوال اٹھاتے ہیں پھر خود ھی اسکا جواب دیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ غلطی حضرت عبداللہ سے ہوئی
حضور نبی کریم ﷺ کفار کو دعوتِ حق دے رہے
اور انہوں نے آکر قطع کلام کرتے ہوے اپنی بات چھیڑ دی اور ایک کافر کو دعوت اسلام دینا ، ایک مسلمان کو قرآن کی تعلیم سے مقدم ہے ۔
اب بارگاہِ رسالت کے جو آداب، اللّه تعالیٰ نے اصحابہ کرام کو سکھائے تھے وہ تو یہ تھے
کے آپ میانہ انداز میں حجروں کے باہر سے کھڑے ہو کر نہ بلائیں بلکہ حضور کی آمد کے انتظار کریں ۔ پھر اس محفل میں تو انہیں سراپا ادب بن کر بیٹھے رہنا چاہئیے ۔

یہاں تک کہ حضور نبی کریم ﷺ تبلیغ سے فارغ ہوتے اور پھر یہ اپنی گزارش پیش کرتے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر عتاب حضرت عبدالله کو ھونا چاہئیے تھا ۔ حضور کو عتاب کرنے میں اب کیا حکمت ہے ۔
ررازق فرماتے ہیں کہ یہ ساری باتیں بجا ہیں۔ اور عتاب کی اس کے بغیر اور کوئی حکمت نہیں کہ وہ کفار جو اس وقت حاضر تھے وہ مکہ کے سردار اور دولت مند تھے انہیں اپنی اس برتری کا احساس بھی تھا اور انہیں اس پر گھمنڈ بھی تھا انکی موجودگی میں اپنے کسی نیاز مند کے ساتھ یہ بے اعتنآی عام لوگوں کو اس غلط فہمی میں با آسانی مبتلا کر سکتی تھی کہ یہ بے رخی تبلیغ میں انہماک کی وجہ سے نہیں برتی گئی بلکہ محض ان لوگوں کی دولت و ثروت اور انکی ریاست کی وجہ سے انکی پاسداری کی گئی ہے ۔ اور عبدالله کو محض اس لیے نظر انداز کیا گیا ہے کہ یہ غریب عوام کہ ایک فرد ہے اور جس نبی کو اللّه تعالیٰ نے بھیجا ہی غریب نواز بنا کر ہو اور جن کا مقصد اولین ہی شکستہ دلوں اور غم زدہ کی دل جوئی اور دل داری ہو اور تشریف ھی اسی لیے لاۓ ہوں کہ فقرا اور مساکین کی عزت افزائی کریں۔ اس ہستی سے کیسی ایسی بات کہ صدور جس سے ان کے منصب رفیق کے خلاف کوئی وہمہ بھی پیدا ہو سکیں اللّه تعالیٰ کو ہرگز گوارا نہیں ۔

کیوں کہ عبداللہ بن مکتوم کے دل نیاز مند پر سینکروں شیبہ و عتنہ قربان کئے جاسکتے ہیں ۔ بارگاہ نبوت کے درویش اور فقیروں کی درویشی اور فقر کے سامنے دنیا بھر کے رئیسوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن اس پیار میں بھی لطف و کرم اور پیار کے جلوے دمک رہیں ہیں۔ عتاب کرتے ہوئے خطاب کے صیغے استمال نہیں کیے بلکہ غیاب کے پردے میں عتاب کیا گیا ہے کیوں کہ رو برو عتاب بہت گراں گزرتا۔ ان آیات کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب حضرت عبدالله حاضر ہوتے تو حضور فرماتے
خوش آمدید اے وہ شخص جس کے بارے میں میرے رب نے مجھے عتاب فرمایا ۔
پھر فرماتے کوئی کام ہے تو بتاؤ ۔
کسی مہم کے سلسلے میں بیرون مدینہ تشریف لے جاتے تو مدینہ میں کسی کو نائب بنا جاتے تھے۔
حضرت عبداللہ کو یہ شرف دو بار حاصل ہوا۔

*أن جاءه الأعمى*

اس وجہ سےکہ ان کے پاس ایک نابینہ آيا جس نے آپ کی بات کو ٹوکا.
يہاں حضرت عبدالله کو نابینا کہتےہیں.

اور ان کی تحقير يہاں پر مقصود نہيں ہے۔ بلکہ ان کی طرف سے معزرت پيش کی جا رہی ہے۔
يعنى يہ نابينہ معذور تها۔ نہ محفل کو دیکھ سکا نہ حاضرين كو پہچان سکا۔ نہ اسے يہ پتا چلا کہ آپ کس قدر مصروف ہيں۔
رازی فرماتے ہيں کہ ٱم مخدوم ان کی دادی تهیں ۔ لیکن اکثر نے ٱم مخدوم کو ان کی والده لكها ہے.
يہ ٱم المومنين حضرت خديجہؓ كے پهوپهی زاد بهائى بهى تهے.
یعنی ان کی ماؤں میں مخدوم اور حضرت خديجهؓ كے والد خويلد آپس میں بہن بهائى تهے.

اب تفہيم القران ميں بتايا جاتا ہے. حضور نبی کریم ﷺ كے ساتھ انكا يہ رشتہ معلوم ہو جانے کے بعد اس شبہ كى تو كوئى گنجائش باقى نہيں ره جاتى۔

كہ آپ نے ان کو غريب يا كم حيثيت آدمی سمجھ کر ٱن سے بے رخى برتی ۔ اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ فرمائی کیونکہ یہ آپ ﷺ کے اپنے برادرِ نسبتی تھے ۔خاندانی آدمی تھے کوئی گرے پڑے آدمی بھی نہیں تھے ۔
اصل وجہ جس کی بنا پر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا ۔ یہ لفظ *اما* یعنی نابینا سے معلوم ہوتی ہے جس سے اللّه تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کی بے اتا ناہی کے سبب کی حثیت سے خود بیان فرما دی ہے ۔ یعنی حضور نبی کریم ﷺ کا خیال یہ تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں ان میں سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کی تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ با خلاف اس کے ابن مخدوم ایک نابینا آدمی ہیں اپنی معذوری کے باعث یہ اسلام کے لئے اس قدر مفید ثابت نہیں ہوسکتے جس قدر ان سرداروں میں سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہو سکتا ہے۔ اس لئے ان کو اس مو قعے پر گفتگو میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔
یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا چاھتے ہیں اس کے بعد میں کسی وقت بھی دریافت کر سکتے ہی ہیں ۔

سورة عبس, الآيات: ٣

*وما يدريك لعله يزكى*
اور آپ کو کیا خبر شاید وہ آپکی توجہ سے مزید پاک ہو جاتا۔

ضیاء القرآن میں اس کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ حضرت عبدالله کے پاس خاطر کی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ کفار جن کی طرف آپ ہمہ تن متوجہ تھے ان میں سے کسی کے دل میں طلبِ حق کا جذبہ نہیں تھا۔

انہیں اپنی دولت کا گھمنڈ تھا اپنے رئیس ہونے پر ناز تھا ۔ وہ آپکی دعوت کو سمجھنے اور سمجھ کر قبول کرنے کی نیت سے حاضر نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ کی خصوصی توجہ کے باعث وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اسلام کو انکی بڑی ضرورت ہے۔ اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو اسلام کی ترقی اور عروج کے امکانات ختم ہو کر رہ جائیں گے ۔
تو ان نادانوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا کہ بیماروں کو مسیحا کی ضرورت ہوتی ہے ۔
پیاسا چشموں کا محتاج ہوا کرتا ہے ۔
نہ کہ اس کے برعکس غیرت خداوندی یہ کب گواراہ کر سکتی تھی وہ اپنے دل میں اسلام اور ہادی اسلام کے بارے میں اس قسم کے تصورات کو جگہ دیں اور یہ درویش تو پہلے ہی حق کی شمع اپنے سینے میں فروزان کرچکا ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی غلامی سے عہدِ وفا باندہ چکا ہے ۔ ان ازلی محروموں کے ساتھ جو کوشش ہو رہی تھی انھیں انکا کوئی فائدہ پھنچنے والا نہیں تھا البتہ اسے جو آپ سکھاتے وہ اسے حفظ جاں بنا لیتا صدقِ دل سے اس پر عمل کرتا آهنینہ دل اور زیادہ شفاف اور تابناک ہو جاتا جیسے کہ اگلی آیت میں بھی کہا گیا ۔

سورة عبس, الآيات: ٤
*أو يذكر فتنفعه الذكری*
یا آپکی نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اسکو فائدہ دے جاتی ۔

یعنی کے آپ اسے جو کلامِ الہی سناتے وہ اس میں مزید غور و فکر کرتا اسے نصیحت قبول کرتا ۔ آپکی یاد دہہانی اس کے لئے سرا سر اور نفع بخش ہوتی تو دعوتِ اسلام اگرچہ عام ہے لیکن اس سے فائدہ تو وہی اٹھاتا ہے اس میں جو غور و فکر کرتا ہے ۔
معراف القرآن میں اس حوالے سے اس طرح سے بتایا گیا ہے ۔

معرف القرآن میں اس حوالے سے بتایا گیا ہےکہ،

*لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی*
*اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی*

یعنی آپ کو کیا معلوم ہے صاحبی جو ابھی بات دریافت کر رہے تھے اسکا فاعدہ یقینی تھا کہ آپ ان کوتعلیم دیتےاور کمال حاصل کرلیتے اور یہ ِبھی نہ ہوا تو کم ازکم ذکراللہ سے وہ ابتدائی نفع اٹھاتے کہ اس سے اِن کے دل میں اللہ کی محبت اور خوف کی ترقی ہوجاتی۔ لفظ ذکرٰی کے معنی کثرتِ ذکر کےہیں۔

یہاں پر قرآن کریم نے دوجملےاختیار فرمائے ہیں.
ایک یا زکّا اور یا زَکَّرّ .پہلےکےمعنی پاک و صاف ہو جانےکےہیں۔ دوسرے کے نصیحت حاصل کرنےاور ذکرسے متاثر ہونے کے ہیں۔
پہلآ جو مقام ھے وہ ابرار ۔ اتقیا یعنی نیک لوگوں کاہے۔ جواپنےنفس کو ظاہری و باطنی ہر قسم کی گندگیوں سے پاک صاف کرلے اور دوسرا مقام طریقۂ دین پر چلنے والے کے ابتدائی حال کا ہے کہ اس ابتدائی چلنے والے کو اللہ کی یاد دلأی جاتی ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰٰ کی عظمت و خوف اسکے دل میں راسخ ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کو تعلیم دینا کہ نفس کسی حال میں خالی نہیں تھا۔ خواہ نفع کامل ہو جاتا کہ تزکئہ نفس مکمل حاصل کرلیتے یا ابتدائی نفع حاصل ہوجاتا کہ اللہ کی یاد اور عظمت و خوف اُن کے دل میں بڑھ جاتا۔

*اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾*
لیکن جو شخص دین سے بے پروہ ہے.

*فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾*
توآپ اس کے قبول اسلام کےلئے زیادہ احتمام فرماتےہیں۔

*وَمَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾*
حلانکہ آپ پہ کوئی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ اگرچہ وہ پاکیزگی یعنی ایمان اختیار نہ کرلے۔

*وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾*
اور وہ جو خود آپ کے طلب خیر کی کوشش کرتا آیا۔

*وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾*
اور وہ اپنے رب سے ڈرتا بھی ہے.

*فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾*
تو آپ اس سے بے توجہی فرما رہے ہیں.

تفہیم القرآن میں اس حوالے سے ہے کہ یہی وہ اصل نقطہ ہےجس سے حضور پاکﷺ نے تبلیغ دین کے معاملے میں اس موقع پر نظر انداز کردیاتھا, اور اسی کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے ابن ام مقتوم رضی عنہ کے ساتھ آپ کے طرزعمل پر گرفت فرمائی ۔ پھر آپ کو بتایا کہ داعی حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کسں کی نہیں ہونی چاہیے۔ ایک وہ شخص ہے جسکی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالبِ حق ہے۔ اس بات سےڈر رہا ہے کہ کہیں باطل کی پیروی کرکے خدا کے غضب میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ اس لیے وہ راہِ راست پہ علم حاصل کرنے کیلئے خودچل کر آتا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہےجس کا رویہ صاف یہ ظاہر کر رہ ۔ ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی بلکہ وہ اپنے آپکو اس سے بےنیاز سمجھتا ہے کہ اسے راہِ راست بتائی جائے۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئےتو دین کیلئے بہت مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہوسکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ کون ہدایت کو قبول کرکے سدرھنے کیلئے تیا ۔ ہے۔ اور کون اس کے بے بہا خزانے کا سِرے سے قدرِدان ہی نہیں ہے۔

پہلی قسم کا آدمی خواہ اندھا ہو, لنگڑا ہو, لولا ہو, فقیرِ بےنواہ ہو، بظاہر دین کے فروغ میں کوئی بڑی خدمت انجام دینےکے قابل نظر نہ آتا ہو, بہرحال داعی حق کیلئے وہی قیمتی آدمی ہے۔ اسکی طرف اُسے توجہ کرنی چاہیے,اس دعوت کا اصل مقصد بندگان خدا کی اصلاح ہے اور اُس شخص کا حال یہ بتارہا ہے کہ اسے نصیحت کی جائےگی تو وہ اصلاح قبول کرلے گا۔
رہا دوسری قسم کا آدمی تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بااثر ہو,اسکے پیچھے پڑنے کی داعی حق کو کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی روش, رویہ اعلانیہ بتا رہا ہےکہ وہ سدرھنا نہیں چاہتا اس لئےاُس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صَرف کرنا,وقت کا ضیائع کرنا ہے ۔ وہ اگر نہ سدرھنا چاہے تو نہ سدرھے, نقصان اُسکا اپنا ہوگا۔ داعی حق پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔

ضیاء القران میں بھی ان آیات کی تفصیر کے حوالے سے اس طرح سے بیان ہے کہ حضور پاکﷺ سرآپا رحمت تھے اور آپﷺ کی ہی آرزو تھی کہ کوئی بھی نعمت ایمان سے محروم نہ ہے اس لئے پوری دل سوزی سے ہد محجوب خو اس کے حجاب سے رہائی دلانے کی سعیع فرماتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی اس کیفیت کو قرآن نے یاد کیا ہے۔ لیکن ان کی استعداد یکساں نہ تھی ۔ ان کے نظریات و افکار میں بڑا طفاعت تھا. کچھ تو ایسے تھے جن کے دلوں میں حق کی تلاش کا ذوق موجود تھا اور وہ حضور ﷺ کی ذاتِ عقدس کو ہی ایسا سر چشمہ تصور کرتے تھے جہاں سے ان کے ذوق کی تسکین ہو سکتی تھی۔ اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اس کو ہر گذ قبول نہیں کر یں گے۔ اگر داعی ان نا اہلوں کی طرف ذیاد و توجہ مبزول کرے اور حق کے متلاشیوں کی طرف سے بے تنائی برتے تو اس دعوت کی ترقی میں غیر معمولی رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

اللہ تعالی اپنے محبوب کی تعبیر و تربیت خود فرماتے ہیں اور ارشاد ہے کہ وہ شخص جو اس دعوت کی طرف سے بےنیازی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے آپ اس کی طرف حماتا توجہ ہیں اور اگر وہ مسلمان نہ ہو آپ کی بلا سے نہ آپ پہ اس کے اسلام لانے کی زمہ داری ہے نہ آپ کو اس کے خفر سے کوئی ضرب پہنچ سکتا ہے۔ لیکن وہ طالبِ حق جو پیغام سننے کے لیے سخت بےتاب ہے اور شوق سے آپ کے قدموں میں دوڑا چلا آرہا ہے اور اس کے دل میں خدا کا خوف ہے آپ اس کی طرف سے کیوں بے تنائی برتیں۔ اے میرے حبیبﷺ آپ کو یہ بات ذیب نہیں دیتی شمع حدیت پہ پروہ نصار ہو نے والوں کی طرف سے بے رخی آپ کے شیان شان نہیں ہے۔

*کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾*
اے میرے حبیبِ مقرم! یوں نہیں بےشک یہ آیات قرانی تو نصہیت ہیں ۔

*فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾*
جو شخص چاہے اسے قبول کرلے۔

*فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾*
یہ معزذ اور مقرم اعراب میں لکھی ہو ئی ہیں۔

🌷*مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾*
جو نہایت بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں ۔
ایسے سفیروں اور کادموں کے ہاتھ سے اگے پہنچی ہیں
جو صاحبِ کرامت اور پیکران اطاعتِ ہیں۔

ضیا القران میں ان آیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ یقین سے یہ آیات قرآنی تزکرہ ہیں جس کا جی چاہے ان سے نصیہت قبول کرے اور اپنی بگڑی بنالے اور جس کا جی چاہے ان سے عراز کرے ۔ ان لوگوں کی اوز و فلاح حاصل کرنے کے لیے اس دعوت کی حاجت ہے اس دعوت کو ان کی ضرورت نہیں ہے ۔
قرآنِ کریم کی عظمت اور شان کا ذکر بھی ہو رہا ہے کہ قدرت نے انہیں باعزت صعیفوں میں محفوظ کر لیا ہے جن کی شان بڑی اونچی ہے جن کا مرتبہ بلند ہے ۔ یہ ہر ملاوٹ اور امیذے سے پاک ہے ۔ کسی کی مجال نہیں کے کوئی اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرے یا اس میں باطل کو ملا دے۔

صٙفٙرٙت۔۔۔ صافے کی جمع ہے جس کا مطلب ہے پوشیدو چیز کو ظاہر کرنے والا۔ قاطب کو بھے صافر کہتے ہیں کہ وہ تحریر سے اپنے مافی و ضمیر کو ظاہر کرتا ہے ۔
یہ نہ ان فرشتوں کی تعریف کی جارہی ہے جنہوں نے پاکیذہ حصوں میں قرآن کو تحریر کیا ہے اور جو بڑے بڑے بزرگ ہیں۔ ان سے یہ توقع ہر گز نہیں رکھی جا سکتی کہ انہوں نے کچھ اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہو گا یا کچھ کمی کر دی ہو گی۔
وہ نیک و کار ہیں اللہ کے حکم کی تعمیل میں غفلت اور سستی ان کے لیے ناممکن ہے.

تفہیم القران میں ان کی تعریف دو لفظوں میں کی گئی ہے فرشتوں کی یعنی معذز اور نیک
پہلے لفظ سے یہ بتانا ہے کہ جو ایمانت ان کے سپرد کی گئی ہے۔ اس میں زرا برابر خیانت کا تقطہ بھی ان جیسی بلند بالا ہستیوں سے ممکن نہیں ہے۔
اور دوسرا لفظ یہ بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ ان کو لکھنے ان کی حفاظت کرنے اور رسول تک ان کو پہنچانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گیی ہے اس کا حق وہ پوری دیانت کے ساتھ انجام دے دیں۔

امام بخاری(رح) فرماتے ہیں
اس سے مراد فرشتے ہیں جب وہ وحی لےکر آتے ہیں اور اسے رسولوں تک پہنچاتے ہیں تو یہ اس سفیر کی مثلی کا کام کرتے ہیں جو لوگوں میں دوستی کا کام کر رہے ہیں۔
یہ اعلیٰ اخلاق کے مالک، خوبصورت، نیک سیرت ہیں ۔ اس لیے قاری قرآن کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے آپکو ان صفہات سے آراستہ کرے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا،
جو شخص قرآن پڑھے اور اس میں مہارت حاصل کرے وہ معذز اور نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو شخص قرآن کو مشقت کے ساتھ پرھتا ہے اس کے اسے دو اجر ملیں گے۔

معرف القرآن میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے۔
صحاف سے مراد یے *لوح محفوظ* وہ اگرچہ ایک ہی ہے مگر اسکو باسیگاں جماع صحاف سے تعبیر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں سب صحاف آسمانی لکھے ہوتے ہیں اس لیے کہ فرشتے اپنے صحیفے اس سے نقل کرتے ہیں۔
نرفوہا سے مراد ان صحیفوں کا انعلا عالی شان ہونا ہے۔
اور متہارا سے مراد یہ ہے کہ جنابت والے آدمی اور حیض و نفس والی عورت اور بے وضو کے لیے ان کو چھونا جائذ نہیں ہے۔