حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، غلط رسوم و رواج، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔ آپ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اور اللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
یا
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟
ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔

عاجزی و انکساری
حضرت سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے تین سال پہلے اور خلیفہ بننے کے ایک سال بعد بھی ہمارے پڑوس میں رہے۔ محلے کی بچیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کی دلجوئی کے لئے دودھ دوھ دیا کرتے تھے۔
جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی
اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں، آپ ہمیں دودھ دوھ کر نہیں دیں گے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں! اب بھی میں تمہیں دودھ دوھ کر دیا کروں گا اور مجھے اللہ کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ ان بچیوں کو دودھ دوھ کردیا کرتے تھے۔
(تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 2: 480)

حضرت سیدنا یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی طرف چند لشکر بھیجے۔ ان میں حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا لشکر بھی تھا۔ انہیں ملک شام کے چوتھائی حصے کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی روانگی کے وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے اور یہ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
اے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپ رضی اللہ عنہ سوار ہوجائیں یا میں اپنے گھوڑے سے اتر جاتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:مَااَنْتَ بِنَازِلٍ وَلَا اَنَا بِرَاکِبٍ اِنِّی اَحْتَسِبُ خُطَيَ هَذِهِ فِی سَبِيلِ اللّٰهِ.نہ تو تم اپنے گھوڑے سے اترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا بلکہ میں تو اپنے ان قدموں کو راہ خدا میں شمار کرتا ہوں۔
(موطا امام مالک، کتاب الجهاد، الرقم: 1004)

ایثار و سخاوت
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے وقت مدینہ منورہ کے کسی محلے میں رہنے والی ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھریلو کام کاج کردیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ اس کے لئے پانی بھر لاتے اور اس کے تمام کام سرانجام دیتے۔ حسب معمول ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام ان سے پہلے ہی کوئی کرگیا تھا۔ بہر حال دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے تو بھی وہی صورت حال تھی کہ سب کام پہلے ہی ہوچکے تھے۔ جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟ ایک روز آپ دن میں ہی آکر کہیں چھپ گئے، جب رات ہوئی تو دیکھا کہ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اس نابینا بڑھیا کے سارے کام کردیئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بڑے حیران ہوئے کہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اس بوڑھی خاتون کے تمام امور خوش دلی سے انجام دے رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔
(کنزالعمال، کتاب الفضائل، الرقم: 35602)

آپ کو بدر، احد، خندق، تبوک، حدیبیہ، بنی نضیر، بنی مصطلق، حنین، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلی مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس غزوہ میں سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترغیب پر تمام صاحب استطاعت صحابہ نے دل کھول کر لشکر اسلامی کی امداد کی مگر ابوبکر نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی کہ آپ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اے ابوبکر ! گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے"؟
تو آپ نے عرض کی
" گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کافی ہے "۔

پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس



اہل بیت پر شفقت
حضرت سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز عصر پڑھ کر باہر نکلے اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی شفقت سے انہیں اٹھاکر اپنی گردن پر بٹھالیا اور فرمایا: مجھے میرے والد کی قسم! تو میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ہے، اپنے والد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مشابہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مسکرانے لگ گئے۔
(صحيح البخاری، کتاب المناقب، الرقم: 3542)

حضرت سیدنا عبدالرحمن اصبہائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب چھوٹے سے تھے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ اس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر رونق افروز تھے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے چونکہ ہمیشہ منبر پر اپنے نانا جان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو بیٹھے دیکھا تھا اس لئے ایک نئے شخص کو دیکھ کر اپنی ننھی سوچ کے مطابق کہنے لگے
آپ میرے بابا جان کی جگہ سے نیچے اترو۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ شہزادہ اہل بیت کی دل شکنی ہو۔
لہذا آپ رضی اللہ عنہ فوراً نیچے تشریف لے آئے اور فرمایا
اے
حسن رضی اللہ عنہ! تو نے سچ کہا یہ تیرے بابا جان ہی کی جگہ ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا حسن رضیاللہ عنہ کو فرط محبت سے اٹھاکر اپنی گود میں بٹھالیا۔ اس موقع پر انہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیتے ہوئے وہ انمول ایام یاد آگئے، ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ زاروقطار رو پڑے۔
(کنزالعمال، کتاب الخلافة مع الامارة، الرقم: 14081)


غیرتِ ایمانی
عام حالات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت ہی نرم مزاج تھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ سختی، خفگی اور غصے سے تو آشنا ہی نہیں ہیں۔ دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ بات کرتے مگر اسلام کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور بہت سخت تھے۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں اور منافقوں کی طنزیہ باتوں پر تو آپ رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آتے ہی تھے مگر اگر کبھی اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بھی انہیں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہوتا تو اس پر سخت ردعمل کا اظہار فرماتے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے (قبول اسلام سے پہلے) ایک بار آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیئے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے۔
بعد میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا
اے ابوبکر! کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟
عرض کیا: جی ہاں۔
فرمایا: آئندہ ایسا نہ کرنا۔
عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔
اس وقت
سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر22 آپ کے حق میں نازل ہوئی۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّوْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْکَانُوْا اٰبَآءَ هُمْ اَوْ اَبْنآءَ هُمْ اَوْاِخْوانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ط اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَيَدَ هُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ط وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ط رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ط اُولٰئِکَ حِزْبُ اﷲِط اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
۔
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔

(تفسير روح المعانی، تفسير سورة المجادله)

غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے ساتھ اسلام کے خلاف جنگیں لڑتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے
ابا جان! میدان بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔
یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غیرت ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

لٰکِنَّکَ لَو اَهْدَفْتَ لِیْ لَمْ اَنْصَرِفْ عَنْکَ.
لیکن اگر تو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا۔
یعنی اے بیٹے! اس دن تم نے تو مجھے اس لئے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں لیکن اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بلکہ اس وقت تمہیں دشمن رسول سمجھ کر تمہاری گردن اڑادیتا۔
(نوادرالاصول، امام ترمذی، الرقم:710، 1:496)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہر معاملہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر ہوتا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس معاملے میں اپنے والدین اور اولاد وغیرہ کا بھی لحاظ نہ فرماتے تھے۔
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی حضرت
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بلند آواز سنائی دی۔
آپ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھاکر آگے بڑھے
اَلاَ اَرَاکِ تَرْفَعِيْنَ صَوْتَکِ عَلَی رَسُولِ اللّٰهِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم.یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کررہی ہو۔
یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو تھپڑ مارنے سے روکا۔ آپ رضی اللہ عنہ اسی طرح غصے کی حالت میں واپس تشریف لے گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا
کَيْفَ رَاَيْتِنِی اَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ.دیکھا! میں نے تمہیں ان سے کس طرح بچایا۔
چند دنوں کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کاشانہ نبوی میں حاضر ہوئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو باہم راضی اور خوش دیکھا تو بارگاہ رسالت میں یوں عرض گزار ہوئے
اَدْخِلَانِی فِی سِلْمِکُمَا کَمَا اَدْخَلْتُمَانِی فِی حَرْبِکُمَا.
یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جس طرح آپ نے مجھے اپنی ناراضگی میں شریک کیا تھا، اسی طرح مجھے اپنی صلح (خوشی) میں بھی شریک فرمالیجئے۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا
قَدْ فَعَلْنَا قَدْ فَعَلْنَاہم نے آپ کو شریک کرلیا، شریک کرلیا
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی المزاح، الرقم: 4999)