10
اللہ کے ساتھ قربت کا بڑھنا اس کی معرفت کے حجاب اٹھاتا چلا جاتا ہے ۔اللہ کی معرفت کے جو حجاب ہیں وہ دراصل اس کی صفا ت ہیں ۔وہ اپنی معرفت کسی پر ظاہر کر تا ہے تو سمجھیں کہ حجابات اٹھنے لگے ہیں۔ اللہ کی تمام صفات کی جلوہ گری ہر لمحہ ہو رہی ہو تی ہے مثلاََ مد د کرنے کی صفت کو لیں تو ایسے نہیں کہہ سکتے کہ وہ مدد طلب کرنے پر کسی معاملہ میں مدد نہیں کرتا۔ البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں ویسے مدد نہ کر رہا ہو جیسے ہم چاہ رہے ہو تے ہیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی مدد کرنے کی صفت جلوہ گرنہ ہو رہی ہو۔ وہ مدد کسی ایسی صورت میں کر رہا ہو گا جو ہمیں سمجھ نہ آرہی ہو ۔ہماری سمجھ کیونکہ کم ہوتی ہے اس لیے اللہ کی مدد کا انداز یا طریقہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہو گا۔جیسے کہ ایک بچہ جس کے لیے اس کی ماں کا پیار... اس کو صبح صبح اٹھانے ... ٹیوشن کے لیے بھیجنے... سکول کے لیے بھیجنے یا آگ کے قریب نہ جانے میں چھپا ہو تا ہے۔ بچہ اس وقت ماں کے پیار کے اس انداز کو سمجھ نہیں سکتا۔ بچہ کم عقل ہو تا ہے وہ اس سارے معاملہ کو اپنے لیے ایک مصیبت تصور کر تا ہے اور اپنے اوپر ظلم سمجھتا ہے کہ میری ماں مجھے کھیلنے نہیں دیتی۔ آرام نہیں کرنے دیتی۔ بچہ کیونکہ نا سمجھ ہو تا ہے اس لیے وہ سمجھ نہیں پار ہا ہوتا کہ اس میں ماں کا کتنا پیار چھپا ہوا ہے اور ماں دراصل اس کے آنے والے وقت کے لیے مدد گار ہو تی ہے۔ اسی طرح ہمارے معاملات میں اللہ مدد کر رہا ہو تا ہے مگر ہمارا عقل و شعور اتنا وسیع نہیں ہو سکتا کہ سمجھ سکیں وہ کس طرح مدد کر رہا ہے۔دراصل اللہ کی صفات تو ہمیشہ سے موجود ہیں مگر ہمیں ان کی آشنائی نہیں ہو تی۔ یہ آشنائی ہی ہمارے لیے آسانی کا باعث ہے اور جس کو آشنائی نہیںہوتی وہ پریشان ہو تا ہے ۔بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ ہم معاملات میں مدد مانگ رہے ہیں مگر اس وقت اللہ نے ہماری
مدد نہیں کی۔ ہم تب یقین رکھتے ہیں کہ اسی میں ہماری بہتری ہے۔ یہ بھی یقین کا بہتر لیول ہے کہ ہم اپنے اندر خود کو یقین کروا رہے ہیں کہ اللہ نے فوراََ مدد نہیں کی تو اسی میںبہتری ہے۔ لیکن یقین کابہترین لیول یہ ہے کہ اندر یہ احساس ہو کہ اس نے مدد کی ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ یعنی معرفت کے ایک لیول پر یہ یقین رکھنا ٹھیک ہے کہ اس نے اس طرح مدد نہیں کی جیسے میں نے چاہا مگر اس نے ضرور بہتری کی ہو گی۔ لیکن دراصل ہم یہ کہہ نہیںسکتے کہ اس نے مدد نہ کی ۔اس لیئے بہترین یقین یہ ہے کہ اللہ نے مدد کی جو ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ یہی بات ہمیںا طمینان دیتی ہے۔جس کی جتنی آشنائی ہو تی ہے وہ اتنا ہی مطمئن رہے گا۔ ایسے ہی اپنے یقین کو اپنے معاملات کے ذریعے خود جانچا جا سکتا ہے۔
مثلاََ بچے کو جس وقت چھٹی ہو تی ہے اور وہ سکول سے گھر واپس جا رہا
ہو تاہے تو اسکو یہ فکر نہیں ہو تی کہ ماں نے واپسی پر کھانا تیار کیا ہو گا یا نہیں ۔اس کو یقین ہو تا ہے کہ سکول سے گھر واپسی پر کچھ نہ کچھ کھانے کو تیار ملے گا اور دوسری صورت میں بھی ماں پر یقین ہوتا ہے کہ اگرروٹی یا کھانا نہ بھی بنا ہوا تو اسی وقت روٹی یا انڈہ یا پھل یا کچھ بھی پیٹ بھرنے کو دے دیں گی۔اسی طرح سے عید کا موقع ہو تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ ماں ہمارے پہننے کے لیے نیا جوڑا بنوا دے گی اور ہم اس بارے میں فکر نہیں کرتے۔ مایوس نہیں ہو تے۔ لیکن جیسے یقین ایک بچے کے اپنی ماں پر ہو تے ہیں ہمیں اللہ پر ویسا یقین نہیں ہو تا ۔اسی لیے ہم مایوس ہو جا تے ہیں کہ پتا نہیں ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہی ایمان کی کمزوری ہے ۔یہ مایوسی ہے اور اس حالت میں ہمیں اپنے اللہ کے ساتھ یقین کو جانچنا چاہیے ۔ ہمیں ہمارے معاملات یا کسی بھی حوالے سے جو مایوسی ہو تی ہے وہ اس وجہ سے ہو تی ہے کہ ہمارا اللہ پر یقین ہی نہیں ہو تا اس لیے ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔