سوال5:عشق میں تڑپ کیسے بڑھائی جاسکتی ہے؟
کیا یہ عطا ہے یا اس میں عاشق کی اپنی کوشش بھی شامل ہوتی ہے؟
جواب:
عشق معشوق کی عطا ہے۔ عاشق کے دل میں پیدا ہوئی طلب معشوق کو پسند آتی ہے اور وہ تڑپ بڑھا دیتا ہے۔ سب کچھ معشوق کی عطا ہے۔ تڑپ بھی معشوق عطا کرتا ہے۔ تڑپ کا ذریعہ بے شک عاشق خود تلاش کرتا ہے۔ چاہے وہ کسی کلام کے ذریعے ہویا کسی سے بات کرکے یادعا کروا کے یا کسی بھی اور ذریعہ سے ہو۔ ہر تڑپ کا ذریعہ معشوق کی نظر کا جام ہے۔ جو ان کی مرضی کہ وہ پسند کرکے ہمیں پلا دیں ۔ ہم نے اپنی سی کوشش اپنے معشوق کے بھروسے کرنی ہوتی ہے۔منزل پر جانے کی طلب ہی تڑپ بڑھاتی ہے۔ منزل کی طلب تڑپ کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جیسے عشق عطا ہے ۔ ایسے ہی تڑپ بھی عطا ہے۔ پر عاشق پہ جب عطا ہو گئی تو پھر آگے عاشق اس عشق کی آگ کو بھڑکائے گا۔ خود کو چھانٹا مار کر بھی عاشق خود کو تڑپ لگاتا رہتا ہے۔ وہ کہیں درد لے کر ،کہیں ذات کاٹ کر اور کہیں مرضی چھوڑ کراپنی تڑپ بڑھاتا ہے۔ تڑپ بھی نظر کرم کا صدقہ ہے۔ عطائے یار ہے۔ایک دفعہ معشوق نے اپنی نظر کرکے تڑپ تو لگادی اب عاشق کا کام ہے کہ وہ کیسے آگے آتا ہے۔ اور تڑپ کو بڑھاتا ہے۔ جیسے جیسے عاشق کی تڑپ بڑھتی ہے۔ عاشق ویسے ویسے اپنی ذات کو مٹاتا جاتا ہے۔ جتنا مٹاتا جاتا ہے تڑپ اور بھی بڑھتی جاتی ہے۔منزل کو پانے کی طلب تڑپ کو بڑھاتی ہے ۔ منزل سے دوری کا احساس تڑپ کو بڑھاتا ہے۔ معشوق کی نظر کرم سے اندر تڑپ لگتی ہے۔ جب تک معشوق نظر نہ کرے تڑپ بھی نہیں لگتی۔ اس میں کسی حد تک عاشق کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ جتنی معشوق کے لیے عاشق کی طلب زیادہ ہوگی اتنی ہی تڑپ بھی زیادہ ہوگی۔ تصور یار میں گم رہنا تڑپ بڑھاتا ہے۔اور منزل کا جنون سفر میں قدم آگے لے کے جاتا ہے