PDA

View Full Version : 30:امامِ عالی مقامؓ اور ابنِ سعد کی ملاقات



Admin-2
05-04-2017, 07:20 PM
امامِ عالی مقامؓ اور ابنِ سعد کے درمیان ملاقات

حضرت امامِ حسینؓ نے ابنِ سعد کو پیغام بھیجا کہ آج رات میں ہم تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابنِ سعد نے آپؓ کی یہ بات مان لی اور رات کے وقت بیس سواروں کے ساتھ دونوں لشکروں کے بیچ میں آیا۔آپؓ بھی بیس سواروں کے ساتھ تشریف لائے۔پھر دونوں نے اپنے ساتھیوں کوعلیحدہ کیا اور تنہائی میں دیرتک گفتگو کرتے رہے۔
آخر میں حضرت امامِ حسین ؓ نے فرمایا کہ میں تین باتیں پیش کرتا ہوں اس میں سے تم جسے چاہو میرے لیے منظور کرو۔
1 ۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس جانے دو۔
2 ۔ مجھے کسی سرحدی مقام پہ لے چلو میں وہاں رہ لوں گا۔
3 ۔ مجھے سیدھا یزید کے پاس دمشق میں جانے دو۔اطمینان کے لیے تم بھی میرے پیچھے چل سکتے ہو۔میں یزید کے پاس جا کر اس سے براہ ِ راست اپنا معاملہ طے کر لوں گا۔جیسے کہ میرے بھائی حضرت حسن ؓ نے امیر المومنین سے طے کیا تھا۔
حضرت امامِ حسین ؓکا رویہ اتنا نرم اور سلجھا ہوا تھا کہ عمر بن سعد نے اقرار کیا کہ حضرت امامِ حسینؓ صلح کے راستے پہ ہیں۔اور اس نے بہت خوش ہو کر ابنِ زیاد کو لکھا کہ خدائے تعالی نے آگ کا شعلہ بجھا دیا اور اتفاق کی صورت پیدا کر دی۔اور امت کے معاملے کو سلجھا دیا۔پھر حضرت امامِ حسینؓ کی پیش کش کی ہوئی تینوں باتیں تحریر کیں۔اور آ خر میں اپنی رائے بھی لکھی کہ اب اختلاف کوئی وجہ نہیں ہے۔اور اب اس معاملے کو ختم ہونا چاہیے۔ابنِ زیاد نے خط پڑھ کر کہا کہ یہ تحریر ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے امیر کا خیر خواہ اور اپنی قوم کا شفیق ہے۔اچھا میں نے منظور کر لیا کہ ان تینوں میں سے ایک بات مان لی جائے۔اس وقت ابنِ زیاد کے پاس شمر بن زی الجوشن بھی بیٹھا تھا۔ وہ بدبخت کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم حسینؓ کی ان شرطوں کو قبول کرتے ہو حالانکہ اس وقت وہ تمہاری گرفت میں ہے۔خدا کی قسم !اگر وہ تمہاری اطاعت کیے بغیر یہاں سے چلا گیا تو یہ اس کے غا لب و قوی اور تمہارے کمزور اور مغلوب ہونے کا باعث ہوگا۔اس کو ایسا موقع ہرگز نہ دو اس میں سراسر تمہاری ذلت ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اور اس کے ساتھی تمہارے حکم پر گردنیں جھکا دیں۔پھر اگر آپ انہیں سزا دیں تو آپ کو حق ہے اور اگر معاف کر دیں تو اس کا بھی اختیار ہے تمہیں ۔اور رہی ابن ِ سعد کی بات تو خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حسین ؓ اور ابنِ سعد اپنے لشکروں کے درمیان رات رات بھر بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں۔شمر خبیث کی ان باتوں سے ابن ِ زیاد کی رائے بدل گئی اور اس نے کہا کہ تم نے بہترین مشورہ دیا ہے۔پھر ابنِ سعد کو لکھا کہ میں نے تم کو اس لیے نہیں بھیجا کہ تم حسین ؓ کو بچانے کی فکر کرواور سفارشی بن کر ان کی سلامتی چاہو۔
ابن ِ زیاد نے شمر زی الجوشن کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اگرحسین ؓ اور اس کے رفقا ءمیرے حکم کی تعمیل کریں گے تو بہتر ورنہ عمر بن سعد کو حکم دو کہ وہ حسین ؓ اور ان کے رفقاءپر حملہ کر دے۔اور اگر عمر بن سعد اس پر عمل نہ کرے تو اسے قتل کر دو۔اور خوارج کی کمان خود سنبھال لو۔قتلِ حسینؓ پر سستی کرنے پر ابن ِ زیاد نے عمر بن سعد کو ایک تہدید آمیزخط لکھاکہ اگر حسین ؓ اور انؓ کے رفقا ءاطاعت قبول نہ کریں تو ان سے جنگ کرو کیوں کہ وہ باغی ہیں ۔ (البدایہ و النہایہ)
یہ خط اس نے شمر کے سپرد کیا اور زبانی کہہ دیا کہ اگر ابن ِ سعد میرے حکم پر عمل نہ کرے تو پہلے تم اس کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دینا۔(طبری)
ابنِ سعد نے جب یہ خط پڑھا تو شمر سے کہا کہ کمبخت تم نے یہ کیا ۔ خدا تجھے غارت کرے۔تو یہ کیا میرے پاس لایا ہے۔خدا کی قسم !میں سمجھتا ہوں کہ ابنِ زیاد کو تو نے ہی میرے مشورے پر عمل کرنے سے روک دیا اور اس بات کو بگاڑ دیاجس کے بننے کی امید تھی۔خدا کی قسم ! حسین ؓ کبھی بھی ابنِ زیاد کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے۔شمر نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاﺅ کہ دشمن کو قتل کرو گے یالشکر کو میرے سپرد کرو گے؟ ابنِ سعد جو دنیا پر جان دینے والا اور ازلی بدبخت تھا ۔اس نے کہا کہ میں لشکر تمہارے حوالے نہیں کروں گابلکہ یہ مہم میں خود کروں گا۔چنانچہ اس نے فوراََ حملے کا حکم دے دیا۔یہ محرم کی
۹
تاریخ تھی جمعرات کا دن اور شام کا وقت تھا۔