PDA

View Full Version : معرکہ



Admin-3
09-24-2017, 07:53 PM
حق و باطل کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی ۔یہ فرائض سےانکار کی جنگ بھی نہیں تھی کیونکہ اس وقت ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہواقعہ اس لیے ہوا کہ پسند صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے اور رہےگی۔ یہاں مخالف بھی اللہ کو ماننے والے تھے
فرائض کو ادا کرنے والےلو گ تھے۔ یہ معاملہ صرف اتنا تھا کہ کسی بندے کا حکم نہیں چلے گا۔ صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہی چلے گا۔ کسی شخص کیذاتی خواہش کو اللہ کے حکم پر فوقیت نہیں دی جائیگی کیونکہ یہ آنے والیامتیوں کی ہدایت و نجات کا معاملہ تھا۔ یہ انسانیت کے حقوق کا معاملہتھا ۔اور ان حقوق کو غصب ہونے سے بچانے کی قیمت امام عالی مقام ؑ حضرت امام حسینؑ نے ادا کی۔

Admin-3
09-24-2017, 08:04 PM
٭​اس و اقعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس کے حکم کے تابع رہنا چاہتےہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے یا ایک ایسے شخص کے حکم کے تابعجو علی اعلان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو نا پسند کر کے اپنیمرضی چلا رہا ہے۔ امام عالی مقامؑ حضرت امام حسینؑ کے یزید کی بیعتکرنے سے یہ ثابت ہو جا تا کہ ایک شخص کے ڈر سے امام عالی مقامؑ سبطرسولﷺ نے اللہ کے تابع رہنے کی بجائے خود کو ایک شخص کے تابع رہنےکے لیے راضی کر لیا۔ امام عالی مقام ؑحضرت امام حسینؑ اللہ کے اور اسکے رسولﷺ کے ہر حکم کو اس کی اصلی حالت میں نافذ رکھنے اور خودکو اسی کے تابع رہنے کا پابند بنائے رکھنے کے لیے یہ سب کر گذرے کہ وہاحکام نافذ العمل رہیں جو اللہ اور رسول کے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی حکمراناپنی طاقت ، اقتدار اور دولت کو اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کے لیےاستعمال کرے۔ بلکہ اللہ اور رسول کی پسند اور مرضی پر عمل کرنے اورکرانے کے لیے یہ سب استعمال ہو۔

Admin-3
09-24-2017, 08:06 PM
﴿
٭​اللہ نے پہلے ہی جو عزت و مرتبہ، پیار اور عظمت و بزرگی آل ِنبیﷺکو عطاکی تھی تو انہوںنے اسکو ثابت بھی کر دکھایا کہ اگر ان عطاﺅںسے نواز ا گیا تووہ واقعی ان مقامات کی لاج رکھنے والے ہی ہیں۔

Admin-3
09-24-2017, 08:07 PM

µµµ٭​کربلا میں امام عالی مقامؑ حضرت امام حسینؑ نے عشق کےراستے پر چلنے والوں کے لیے ایک ایسا معیار بنا کر دکھایا کہ چاہے ابکوئی کتنے اور کیسے ہی کارنامے کر گزرنے والا آتا رہے وہ اپنے ہر کار نامےاور قربانی کو انتہائی کم سمجھے اور عشق میں اپنا امام ...امام عالیِ مقامؑحضرت امام حسینؑ کو ہی بنائے رکھے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:11 PM
﴿
٭​کربلا میں یہ دکھا یا گیا کہ ان ہستیوں کی زندگی میں ان سےکرامات کا ظہور ہو تا رہا ۔پر جب جب اپنی ذات کے حوالے سے اللہ کی رضاپر راضی رہنے کی آزمائش سے گزرنا تھا تو اپنے لیے کچھ نہ مانگا...بسراضی رہے اس فیصلے پر جو اللہ کی طرف سے ان کے لیے تھا۔ دکھا یا گیاکہ اپنی ذات کی خواہشوں اور مرضیوں سے کیسے نکلا جاتا ہے۔ او ر اسکے لیئے کیا کچھ کر دیا جا تا ہے۔ اور ساتھ ہی اس حد تک اللہ کی رضا پرراضی رہتے ہوئے بھی اللہ کی طرف سے اگر قربانی مانگی گئی تو قربانیدے کر بھی کس انتہا تک شکر گزار رہا جا تا ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:18 PM
میدان جنگ میں امام عالی مقا م ؑحضرت امام حسینؑ جب باطل سےپر سرپیکار ہوئے تو آپؑ نے ثابت کر دکھا یا کہ اسلام کو پھیلا نے والےپیغامبرﷺ کے جگر گو شے ہیں۔ اللہ کے سچے دین کو پھیلانے والےرسولﷺکے بیٹے ہیں۔ آپ ابنِ رسول ﷺکہلاتے تھے۔ اور ابن رسولﷺ ہونےکا حق ادا کر دیا۔ اور اپنے نانا ﷺکے حق کے پیغام کو اسی حالت میں قائمرکھنے کے لیے نہ صرف اپنا سب کچھ لگا دیابلکہ اپنی اور اپنے پیاروں کیجان تک کی قربانی پیش کر دی۔​

Admin-3
09-24-2017, 08:19 PM
﴿٭​کہتے ہیں کہ جو شخص جس حال میں اس دنیا سے جاتا ہے وہہمیشہ ویسی ہی حالت میں رہتا ہے، روزہ دار، حاجی یا نمازی۔ امام عالیمقامؑ حضرت امام حسینؑ نے تو کربلا میں سجدہ میں جان دے دی اور آج تکبندگی کے اعلیٰ مقام پر ہی فائز ہیں۔﴿٭​گو کہ بظاہر باطل قوتوں نے فتح حاصل کی مگر انہی باطل قوتوں نےامام عالی مقام ؑکے سر مبارک کو خود بلند کیا اور اس بات کو ثابت کردکھایا کہ ہمیشہ حق پر رہنے والے ہی سر بلند رہے ہیں اور رہیں گے۔ چاہےباطل قوتیں کیسی ہی فتح حاصل کر لیں۔

Admin-3
09-24-2017, 08:20 PM
﴿٭​معرکہ کربلا نے سیکھا دیا کہ ایک فرد کا اپنے چند جان نثاروں کےساتھ ہونا جس کے سامنے ہزاروں افراد اپنے تمام ساز و سامانِ جنگ سےلیس ہوں تو بھی ہرصورت میں حق.... حق ہی رہے گا۔ اور حق کو تب بھیحق ہی کہنا چاہیے۔ اس بات کا مظاہرہ کر بلا میں امام عالی مقامؑ حضرتامام حسین ؑ نے کر دکھایا۔﴿٭​کربلا میں امام عالی مقامؑ حضرت امام حسینؑ یہ سکھا گئے کہ باطلکو مٹانے کے لیے اور اس کی ظلمت کے اندھیرے دور کرنے کے لیے دل کانورِایمانی.... قوت کا کام کر تا ہے اور صرف اس سے ہی باطل کو مٹایا جاسکتا ہے۔ حق والوں کی قوتِ ایمانی ہی باطل کو مٹا سکتی ہے کیونکہاندھیرے کو روشنی ہی دور کر تی ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:20 PM
﴿٭​معرکہ کربلا میں امام عالی مقام ؑحضرت امام حسین ؑنے کر دکھایاکہ حق کو مٹانے کے لیے اگر مرتبہ ،دولت یا دنیا کی کوئی بھی طاقتاستعمال کی جائے تو وہ لا حاصل ہی رہے گی جب تک کہ دلوں میں ایمانکی قوت نہ ہو۔﴿٭​معرکہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سنگین ہوجائیں کسی بھی حال میں شکوہ نہیں کرنا بس شکر اور رضا پر کھڑےرہنے کی کوشش کرنی ہے۔ کر بلا میں یزیدی فوجوں کے ساتھ نبرد آزما اہلبیت اطہارؑ سکھا گئے کہ عشق کے سفر میں اگر عظمت و بلندی، اللہ اوررسولﷺکی قربت کی صورت میں چاہتے ہو تو ہر طرح کے کر ب وبلا میںبھی بس عاجزی سے سر اللہ کے حضور جھکے رہیں۔ یہ جھکنا ہی کرب وبلا میں پار گذروا جانے کا باعث بن جاتا ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:21 PM
٭​ امام عالی مقامؑ حضرت امام حسین ؑنے حق کی سر بلندی کے لیےاپنی جبین نیاز کو کربلا کی تپتی ریت پر سجدے میں جھکا یا۔ کوئی بھیشعور و آگہی رکھنے والا اگر ذرا بھی سوچے تو اس سجدے سے اس راز کوسمجھ جائے گا کہ کر بلا میں سجدہ کیا سِکھا گیا ہے۔﴿٭​کر بلا کے میدان میں باطل کا بظاہر غلبہ ہو نے کے با وجود آج تکحق اور حق والوں کے علم کی سربلندی اس بات پر ہمارے یقین اور مضبوطکر گئی کہ باطل غالب نہیں رہ سکتا ۔چاہے اس کے پاس کتنا ہی مرتبہ،دولت اور دنیا کی طاقت ہو۔ باطل نے مغلوب ہونا ہی ہو تا ہے۔ اسکی طاقتایک بلبلے کی طرح ہو تی ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:22 PM
﴿٭​کسی بھی واقعہ ...چاہے وہ اچھا ہو یا برا ...میں ملوث یا اس سےمتاثر ہ اور متعلقہ لوگوں کے بارے میں جب ہمیں علم ہوتا ہے تو ہم پہلا سوالکر تے ہیں کہ کس گھرانے کا تھا ۔ باپ بھائی کو ن تھے ۔کس کا بیٹا تھا ۔اور اس حوالے کے معلوم ہونے سے ہی ہمارے دل میں اسکی اہمیت جاگزینہو جا تی ہے۔ واقعہ کر بلا میں اگر دیکھا جا ئے تو سب گھرانوںسے اعلیٰگھرانے کے افراد بنی آخر الزماںﷺ کی آلؑ، نبی کے بیٹے ، علیؑ کے لعل،فاطمہؓ کے خون نے بے مثل و بے نظیر قربانی دی۔​ کیا یہ سب ہمارے دلوں میں احساس بیدار کر نے کے لیے کافینہیں.....؟​کیا ابھی بھی یہ شہادت باقی سب سے منفرد و اعلیٰ نہ سمجھیجائے....؟؟

Admin-3
09-24-2017, 08:23 PM
﴿٭​کسی بھی واقعہ کا علم ہوتا ہے تو ہم پر اس کا اثر اس بات سے بھیہوتا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے مقصد کیا تھا ۔واقعہ کر بلا میں یزید کامقصد صرف دنیا کا اقتدار و طاقت حاصل ہونے پر عیاشی کرناتھا اور امامعالی مقامؑ حضرت امام حسین ؑکا مقصد صرف نانا حضرت محمدمصطفیﷺکے دین کو بچانا تھا تاکہ قیامت تک آنے والے لوگ اپنے لیے بھلائی کیراہ پکڑ سکیں۔ اپنی دنیاو آخرت کو سنوار سکیں۔﴿٭​باطل چاہے کتنا ہی مضبوط ہو او ر ہم کو ہر طرف سے گھیر کے ہمیںجھکانا چاہتا ہو ۔ لیکن یاد رہے کہ وہ جھکنا اگر اللہ کے سامنے دل سےسجدہ ریز ہونے کی صورت میں ہو گا تو باطل کی ساری مضبوطی دھریکی دھری رہ جائے گی۔

Admin-3
09-24-2017, 08:23 PM
﴿٭​جیسے کسی فیملی فوٹو میں خاندان کے سربراہ بیچ میں بیٹھے ہوتےہیں اور باقی خاندان کے لوگ ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔​ ایسے ہی اگرتصور کی آنکھ سے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کیخاندانی تصویر میں جس جس کو دیکھیں تو وہ تیر، تلوار اور نیزوں سےزخمی نظر آئے گا۔​ کیا ہم پیارے آقائے دو جہاںﷺ کے اس درد کو محسوس کرتے ہیں؟​اگر نہیں ...تو کیا ہم عاشق کہلانے کے حق دار ہیں....؟؟؟

Admin-3
09-24-2017, 08:25 PM
٭​ہر وہ دل جس میں اللہ کا احساس آشنائی بیدار ہوتا جا رہا ہوتاہے.... تووہ اتنا ہی حق و باطل کی پہچان کرنے لگ جاتاہے۔ اور جتنا وہ یہپہچان پاتا ہے.... وہ اتنا ہی امام عالی مقامؑ حضرت امام حسینؑ سے محبتمیں جھکتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔﴿٭​کوئی بھی حق کا راہی اگر اعلیٰ منازل کی قربت پانا چاہے گا تو اسکو امام عالی مقا مؑ حضرت امام حسین ؑکی صورت میں ایک ایسا آئیڈیلعطا کیا گیا ہے جن کی راہ پکڑنے سے اسے کسی بھی اعلیٰ مقام تک کےسفر میں ہر طرح کی مدد ملتی ہے۔﴿٭​لوگ کہتے ہیں اسلام کی خاطر شہید تو بہت ہو تے ہیں پھر شہدائےکر بلا کے حوالے سے اتنا و اویلا کیوں کیا جا تاہے۔​ اسلام کے سب شہیدوں کو ہمارا سلام...! پر کیا ہر انسان اور آل نبیبرابر ہیں... ؟​کیا ہر بہنے والا خون اس خون کی برابری کر سکتا ہے جو آل نبیﷺکا بہایا گیا...؟​کیا ہر ایک ماں کی کو کھ اور خاتونِ جنت طیبہ طاہر ہ ؓکی کوکھ ایکجیسی ہے اور اس میں پرورش پانےوالے بچے میں اور ایک عام بچے میںکوئی فرق نہیں...؟​خدا کے لیے سمجھواس فرق کو...!​ تو پتہ چلے گا کہ کر بلا میں بہنے والا زہرہ ؓ کے ناز پالوں کا خون جوبہایا گیا اتنا ارزاں نہیں کہ اسے بھلا دیا جائے۔​ وہ خون جس نے اسلام کے مر جھائے ہو ئے پودے کو اپنا اور اپنےپیاروں کا خونِ جگر دے کر اس کرب وبلا کے عالم میں بھی سنیچا....!​ اور اپنے خون سے اسلام کے گلشن کو سجا یا اور کھلایا...! وہ خونجو نہ صرف ہاشمی نصب کا ہے بلکہ وہ خاص شیر خدا اور محبوب رسولخدا ، حضرت علیؑ کا ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:25 PM
﴿٭​قرآن پاک میں ہے کہ حق کی خاطر ڈٹ جاﺅ۔ اور حق بات کے لیے جوکہو یا کرو تو اس کی وجہ سے آنے والے مصائب و آلام پر صبر کرو اوربرداشت کرو۔ کر بلا میں امام عالی مقامؑ حضرت امام حسینؑ نے ثابت کردکھایا کہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور مصائب و آلام پرصبر و برداشت کیسے ہوتا ہے۔﴿٭​اللہ کہتا ہے کہ جو اس دنیا میں ہر طرح کے حالات میں مجھ سےراضی رہے گا... میں قیامت کے روز اس سے کہوں گا... کہ دنیا میں تو میریرضا کا طالب رہا.........تو اب میں یہاں تیری رضا پوچھتا ہوں کہ بتا اب توکس طرح راضی ہو گا۔​آل رسولﷺ نے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی وہ عالی شان مثالقائم کی کیونکہ ان کو بھی اپنے نانا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امت سےمحبت اور پیار تھا۔​ وہ روزِ محشر اس رضا کے بدلے میںاللہ سے اپنے نانا ﷺکی امتکی بخشش کا سوال کریں گے .....جب اللہ یہ پوچھے گا کہ بتا تیری رضاکیا ہے۔﴿٭​بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں کہ سلام پیش نہ کیاجائے۔ جبکہ ایک زمیں کے ٹکڑے اور اس پر رہنے والوں کے نظریات کیحفاظت کرنےوالے اگر شہید ہو جائیں تو ان کو ہر سال سلامی پیش کی جاتی ہے۔ اور ہمارے دین کے لیے لڑنے اور شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرنےسے سب کو پریشانی کیوں ہو تی ہے...؟

Admin-3
09-24-2017, 08:27 PM
﴿٭​وطن اور قوم کے لیے لڑنے والوں اور جان دینے والوں کو یاد رکھا جاتا ہے اور قوم کے لوگ اپنی آنے والی نسلوںکو وہ کارنامے سنا تے ہیں۔ اورانکی یاد میں ہر سال خاص دن منائے جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنے پیارےآقائے دو جہاں علیہ صلوة السلام کے دین کی اور شریعت کی حفاظت کر نےاور اس کو بچانے والوں یعنی ان کی آلؑ کے ایمان کی مضبوطی اور حق پرکھڑے رہنے کی یاد میں دن منائے اور کارنامے سنائے تو لوگ کسی خاصفرقہ کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ آخر کیوں...؟​ کیا ہم کسی لیبل لگنے کے ڈر سے ان سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔﴿٭​ ہم امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ ایسے ہی باقی تمام آئمین کاانتہائی عقیدت ، محبت اور تعظیم سے نام لیتے اور ذکر کرتے ہیںاور کرتےرہیں گے...​لیکن حضرت امام حسین ؑ جو کہ امام عالی مقام ؑ ہیں انؑ کا ذکر کر تےہوئے کیوں ڈرتے ہیں.....؟؟؟﴿٭​کر بلا میں حضرت امام حسین ؑ نے سیکھا دیا کہ اللہ کی محبت اوراللہ کے حبیب کی پیروی میں کیسے ہر حال میں شکوہ کیے بنا صبر اورشکر کا دامن تھامے رکھنا ہو تا ہے۔ کیونکہ مومن کی مثال ہے صبر اورشکرکا پیکر اورامام عالی مقامؑ نے ان دونوں کو اپنی انتہاﺅں پر تھامےرکھا۔

Admin-3
09-24-2017, 08:28 PM
٭​اللہ خود قرآن میں بیان کر رہا ہے کئی جگہ پر ماں اور باپ کا اپنیاولاد کے لیے دکھ محسوس کرنا تو کیاآل رسول کے جدا مجد اس دکھ کومحسوس نہیں کر رہے ہوں گے۔ اور اگر وہ کر رہے ہیں تو کیا ہمارے دل اتنےپتھر ہیں کہ اپنے پیارے اور مہربان آقاﷺ کے دکھ میں شریک نہ بنیں۔​ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے صرف ایک بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کیقربانی کی یاد ہر سال تازہ کی جا تی ہے اور حضرت محمدﷺکے بیٹےحسینؑ اور آل محمدﷺ کی قربانی کی یاد تازہ نہ کی جائے۔ آخر کیوں...؟﴿٭​جب ہم معرکہ کربلا کا ذکر سنتے ہیں تو کچھ وقت کے لےے آنکھوںمیں آنسو بھی آجاتے ہیں مگر کیا ہم ان کے دکھ کو محسوس کرنے کیکوشش بھی کرتے ہیں...؟​کبھی ذکر سنتے ہوئے ان کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرنااور ذرا سوچنا.... اس بات کو کہ ہماری انگلی پر جب چھری چلتی ہے تو کیاہوتا ہے اور جب کربلا میںان کے بازو کٹے ہوں گے تو کیا ہوا ہو گا۔ ذرا اسبات کا احساس کرنا... او ر ان کے درد کو محسوس کرنا... ان کی باتیںسننے کو ہم سن لیتے ہیں مگر جب سر تن سے جدا ہوتا ہے تو خبر ہوتی ہے... ہمارے کسی اپنے کے ساتھ ایسا ہو تو ہمیں خبر ہو... مگر ہمیں ”وہ“ اپنےلگیں تو ہی ہم ان کا درد بھی محسوس کر سکتے ہیں... اپنی ایک انگلی کیتکلیف کو ہم بہت اچھی طرح محسوس کر تے ہیں۔ اس کا درد ہمیں بے چینرکھتا ہے... کچھ دل کو نہیں بھاتا... سوچو...کہ ان کے گلے پہ خنجر چلگیا اور ہمیں ان کے درد کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا... ہم نے تو ان کےدرد کو اتنا بھی محسوس نہیں کیا جتنا ہم نے اپنی انگلی کے کٹنے کے دردکو محسوس کیا... کہنے کو تو ہم کہتے رہتے ہیں کہ ہم غلام ہیں ...رسول ﷺکے غلام ہیں۔ مگر ان کی کوئی بھی بات... کوئی بھی درد ہمارے دل کو نہیںلگتا۔ شاید ہمارے دل پتھر کے ہو گئے ہیں۔ جو کلمہ ہمیں پڑھایا گیا وہہمارے دل تک تو اترتا نہیں۔ اس کلمے کو ہم نے دل میں اتارا ہوتا تو اس سےہمارے دلوں کی زمین زرخیز ہوئی ہوتی... دل نرم ہوا ہوتا۔ لیکن ہمارا دل بھینرم نہیں ہوتا اس لےے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیسے چھوٹے چھوٹےبچے اپنے آقاؑ پر قربان ہونے کو گئے ہوں گے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے حوالےسے ایسے کبھی سوچتے ہیں۔ کیسے ان بی بیوں نے بیٹھ کر یہ سب منظردیکھے اپنی اولاد کو اپنے سامنے بلکتا دیکھا ۔ اگر دو دن بیٹھ کر اس سارےمنظر اور ان کے درد کے احساس کو ہم دل میں اتار لیں تو ہم بھی محسوسکرنے کے قابل ہو جائیںکہ کربلا میں سب پیاروں پر کیا گزری۔ ہم تو دو دنکے لےے آرام دہ سہل اور ہر سہولت سے مزین سفر بھی کر لیں تو ہماریمظلومیت کا احساس ختم نہیں ہوتا۔ وہ عورتیں ، بچے، مرد کیسے کیسےسفر کرتے رہے۔ ہم سب اپنی دل پر چھریاں، خنجر نہ چلائیں ...لیکن ایکبھائی، ماں ،باپ کے درد کودل سے آپ محسوس کر کے دیکھیںکہ... ہمارےدل پر بھی وہ خنجر چلیں ہم بھی محسوس کریں۔​ اگر تھوڑا سا دل میں احساس اتاریں تو سمجھ آتا ہے کیا بیتی ہوگی

Admin-3
09-24-2017, 08:29 PM
​سوچیں.....!!!وہ کیا منظر ہو گا ....جس میں معرکہ ختم ہو نے کے بعدیزیدی فوجی... حسینی قافلے کے باقی افراد کو لے کر چلے ہوں گے... کسطرح سے سر مبارک کوساتھ لیا ہو گااور بی بیوں نے دیکھا ہو گا ... اوربہنوں نے دیکھا ہو گا .... اور تن مبارک کو چھوڑ دیا ہو گا ......!​ذرا غور کریں کہ.....!!! آخر ہمارے دل ان کے درد کو اس طرح سےمحسوس کیوں نہیں کرتے......؟؟؟​﴿٭​کلمہ پڑھنے سے جنت نہیں ملتی۔ جن کو اللہ نے تخت کا سردار بناکر بٹھا دیا ہے ان کی مرضی کے بغیر جنت نہیں ملتی۔ جنت میںداخلے کاٹکٹ بھی تو وہ جنت کے سردار دیں گے۔جنت جنت سب کرتے ہیں مگر جنتکے سرداروں سے سلام دعا اور شناسائی ہی نہیں ...محبت ہی نہیں....اسیلیئے جنت میںداخلے کے لیئے جنت کے مالکوں سے آشنائی اور سلام دعا اورمحبت کا رشتہ بناﺅ توجنت کے وارثوں اور سرداروںکے وسیلے سے جنت میںداخلہ آسان ہوجائے گا۔ اللہ سے آشنائی اور جنت میں داخلہ ان سےآشنائی کے بغیر نہیں مل سکتا۔﴿٭​

Admin-3
09-24-2017, 08:31 PM
٭​دین بھی حسین ؑ اور دین کی پناہ بھی حسینؑ ہیں۔ وہ دین کو بچاکر اپنی پناہ میںلے کر آئے... وہ چھلنی ہو گئے...کٹ گئے ۔عام دنیاداروں کینظر میںیہ بربادیاں ہیں لیکن در حقیقت وہ کلمہ حق کو بچانے کے لےے کھڑےہو گئے۔ یعنی اللہ کے اس حکم پر سرِ تسلیم خم کر دیا کہ وہ جو کرتا ہےبہترین کرتا ہے۔ اس کے حکم کو ماننا... اور سر تسلیم خم کرنا... اور ماننا... اور ماننا... اور چپ کر کے خشک آنکھوں سے سب کو رخصت کرنا ...یہیصبر ورضا ہے... اسلامیت یہی ہے... اللہ کے راستہ پر سر تسلیم خم کر دیناکہ وہ سر سجدے میں چلا جائے اور کہا جائے کہ جیسے تیری رضا !....


٭​ دین کی کشتی کو بھنور سے نکال کے لانے والے امامِ عالی مقامؑحضرت امام حسینؑ تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں تو پھنسی پڑی تھی توہی مولا حسینؑ نکال کر لائے اور پھنسی بھی ایسی جگہ تھی کہ نہ اللہ کانام باقی رہنا تھا اور نہ ہی رسولﷺ کی بات رہنی تھی ۔مگر انہوں نےگھرانا لٹا کر دین کو پناہ دی اور کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے۔ آپؑدیتے رہے اور ....دیتے رہے ۔ اوریہ کتنی بڑی بات ہے کہ بچے سے لے کر بڑےتک دوست باپ ، بھتیجے ، بھانجے بیٹے ، کزن، خادم ایک ایک کر کے دیتےرہے اور آخر میں خود گئے ہیں۔ یہ نہیں کہ خود پہلے کٹے اور بعد میں سبگئے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے دل پر نہ گزرتی ناں.... اسی لےے تو کہتے ہیںکہ جس وقت حضرت علی اکبر ؑ کی لاش کو اٹھا کر لائے تو جاتے ہوئے آپؑکے بال کالے تھے لیکن جب آپ خیموں کے پاس اٹھا کر لائے تو آپؑ کے سرکے بال سفید ہو گئے تھے۔
٭​اس معرکہ کربلا میں ہر عمر کا.. ہر رشتہ کے درد کا احساس موجودہے۔ وہاں خیموں کا ..بھوک پیاس کا ..کپڑوں کا رہائش کا.. ہر طرح کامعاملہ پیش آیا۔ بی بیوں کا اپنے بھائیوں کے لےے ،خاوندوں کے لےے تڑپنااور پھر بھی پردے میںرہنا ....اور ان کی سسکیاں بھی بند ہونا.... تو اسلیئے کہ امام عالی مقامؑ حضرت امام حسین ؑنے فرمایا کہ خیموں سے باہرکسی بی بی کی آواز نہ آئے۔​تب ہی تو کہتے ہیں کہ قرآن حسین ؑ کا ہے۔ شریعت حسینؑ کی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلط ہے۔​ کوئی کہہ کے دیکھے کہ...” دین است حسین ؑ دین پناہ است حسینؑ“...نہ کہو۔ چپ ہیں سب کے سب مہریں لگ گئی ہیں ہر ایک زبان پر۔ باقیہر بات پر اختلاف ہے کہ وضو ایسے کرو اور ویسے نہ کرو اور ہاتھ چھوڑکر اور ہاتھ باندھ کر نماز کے بارے میں اختلاف ہوں تو ہوں ۔مگر اسپرکوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکتا۔ہر ایک اس پر متفق ہے کیونکہ دینکو پناہ دینے والے ہی حسینؑ ہیں۔ انؑ کے سوا کہیں پناہ نہیں۔

Admin-3
09-24-2017, 08:32 PM
٭​کسی انسان کا قلب کتنا چل رہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگا سکتےہیں کہ اس کا اندر کتنا اس کو صحیح اور غلط کا بتا رہا ہے۔ جتنا اس کااندر اس کو برائی سے روک رہا اور اچھائی کی طرف راغب کر رہا ہے اسکا ا ندر اتنا ہی چل رہا ہے۔ ایسے ہی لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔ ان کی قبریںبھی ہمیشہ کے لےے زندہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے دل حق بات کے لےے چلپڑے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارا دل اندر سے گواہی دیتا ہے۔ جو حسینیہے ان کے سامنے خود اپنا دل آکے کھڑا ہو جاتا ہے جب بھی وہ کچھ غلطکر نے لگیں۔ اور جن کے دل مردہ ہو جاتے ہیں وہ غلط کر بھی رہے ہوں تو انکو اند رسے روک ٹوک نہیں ہوتی ۔اگر ضمیر جاگا ہو تو وہ کہتا ہے کہ رکجا.... منع ہو جا ۔مگر جب اند ر کسی بات پر نہیں روکتا تو یہ یزید یت ہے۔ حق کے لےے .....حق بات کو نہ کہنا ....یا حق کے لےے کھڑے نہ ہونا .....اندرکی یزید یت ہے۔ اور ہمارا کام صرف اندر کے اس احساس کوہی جگانا ہے۔ اس لےے ہی تو ہمیںکسی کے مرد عورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیںصرف دلوں سے فرق پڑتا ہے۔ ہمیںمحبت بھی دلوں سے ہے ۔اور جگانا بھیدلوں کو ہے۔ کسی سے محبت بھی ہے تو اس کے حسینی دل کیخوبصورتی کی وجہ سے۔ حق کی پکار سننے والا حسینی ہو تو وہ ہمیںپیارا ہے۔ جس کے اندر یزیدیت ہومگر اندر صاف نہ ہو وہ کہتا رہے حسینؑحسین ؑ.... تو وہ تو ہمارا نہیں ہے۔ ہمارا وہ ہے جس کا دل حسینی ہے۔اورحسینی وہ ہے کہ حق بات پر جس کا دل سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ مگرایسے دل بہت کم ہوتے ہیں۔ ہزاروں عالموں ، تعلیم یافتہ، پڑھے لکھوں میں آجبھی اُس وقت کی طرح آٹے میں نمک کے برابر صرف72 ہی حق پر کھڑےرہنے وا لے ہوتے ہیں۔ اپنی مرضیاں چھوڑ کر اپنی خواہش چھوڑ کر صرفحق پر کھڑے ہونے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ اور حق کیا ہے؟ اللہ... کائنات میںحق صرف اللہ ہے۔ اس کا ہر حکم ہر بات حق ہے۔ سو حق پرکھڑے ہو جاﺅ۔ اور حق پر ہم تب ہی کھڑے ہوسکتے ہیں جب اندر قوت ایمانی ہو۔ اللہ پر یقینہو تو حق بات کر سکتے ہیں۔ آج ہم میں قوت ایمانی نہیں ہے۔ اللہ پر یقیننہیں ہے۔ اس لےے ہم گھبرا جاتے ہیں کہ اب کیا ہو گا کیونکہ ہمارا اندرمضبوط نہیں ہے۔ ہمارے اندر اللہ پر یقین مضبوط نہیں ہے۔ وہ جو چند قافلےوالے تھے۔ وہ چلے تو جیسی بھی مشکلیں آئیں اللہ کے بھروسے پر سہہگئے اور ہم ایک ذرا سی مصیبت آنے پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیںسامنے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا ہمیں اللہ پر یقین بھی نہیں ہوتا۔ مگران لوگوں کو تو اللہ نظر آرہا ہوتا ہے ان کو توبن دیکھے اللہ پر، بن دیکھیجنتوں پر اور اس اللہ کی بن دیکھی حکمتوں پر یقین ہوتا ہے۔ ہر معاملےمیں وہ اللہ پر یقین کے سہارے ہی آگے بڑھنے والے تھے۔ہم ایسے یقین سےمحروم ہیں اسی لےے گھبرا جاتے ہیں ۔ وہی تو اسلام کو دوبارہ زندہ کر کےکھڑا کر دینے والے ہیں۔

Admin-3
09-24-2017, 08:33 PM
٭​اگر دیکھا جائے تو پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے اپنی اولاد کیقربانی دے کر امت کی بخشش کے لیئے شفاعت مانگی اور جاتے ہوئے بھیذمہ داری لگا دی کہ پھر بعد میںانہی کے کندھوں پرہی بھارر ہے کہ انھوںنے شریعت اور قرآن کو اسی طرح سے آگے پہنچانا ہے ۔ لیکن لوگ یہ باتنہیںسمجھ سکتے کیونکہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں۔ وہصرف کلمہ نماز، روزہ سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی پہنچ اندر خانے تک نہیںہے۔ ساری امت اندر خانے تک نہیں پہنچ سکتی۔ جیسے اگر آپ کے گھرکوئی آئے تو ہر کوئی آپ کے کمرے تک تو نہیں جاتا۔ کوئی گلی تک، کوئیدروازے تک ،کوئی سیڑھیوں تک اور کوئی ڈرائینگ روم تک آتا ہے مگر کوئیچند ہی ہیں جو اندر گھر میں آپ کے کمرے تک آتے ہیں۔ یہ بھی ا ندر خانےکی باتیں ہیں اور یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جس پر اندر خانے والوں کی نظرہو۔ ورنہ سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ اوریہ سمجھ آجانا بہت بڑی عطا ہے کہ آلؑکا معنی کیا ہے... اور آلؑ اصل میں ہے کیا ...اور وہ آج تک کیا کررہی ہے۔ وہسب ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لوگ آل پاک ؑ اور آل پاک ؑکی قربانی کونہیں سمجھ سکتے۔
٭​لوگ حسینؑ کا نام نہیں لے سکتے کیونکہ وہ سمجھ نہیں سکتے کہیہ گہرے راز ہیں۔ یہ وہ خزانے کے نقشے ہیں جو الماریوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ یہ نام خزانے کا نقشہ ہے۔ اور جیسے کسی نقشے میں نشان بنے ہوئے ہوتےہیں اور کوئی جاننے ولا آتا ہے جسے پتا ہوتا ہے کہ نقشے میں موجودنشانوں کا مطلب کیا ہے اور ان کو کیسے جوڑنے سے دروازہ کھلے گا۔ایساہی خزانہ ےہ بھی ہے-یہ ایسے ہی راز ہیں۔ اور اگر ہم بھی ان کا نام لے پارہے ہیں تو اس لےے کہ اللہ کے کرم اور اس کی مہربانی سے وہ نقشے جوڑ کر ان کا راز کھول دیاگیا۔ اور اندر وہ احساس دے دیا گیا۔اگرآپ کے دلوںکو درد کا احساس دے دیا ہے اور آپ کا دل اس درد کے احساس کومحسوس کرتا ہے تو یہ کرم کی انتہا ہے۔ ہم پہ کرم کی نظر ہے عنایت ہے کہاپنوں کی محبت کے بیج بوئے۔ اور یہ باتیں سب کو بتانے کی نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ درد ہے اور جو کوئی جتنا اپنا آپ دیتا جا رہا ہے اور درد میں ڈوبتاجا رہا ہے۔ اس کے اندر کو کسی پل قرار نہیں۔ وہ ان کی اس محبت کو پانےکی خاطر اور اس محبت کے احساس جو چند لمحوں کے لےے اس کے دل پراترتے ہیں کہ امامِ عالی مقامؑ حضرت امام حسین ؑنے امت کے لےے پیارےآقائے دوجہاںﷺ کو دیا ہوا وعدہ نبھانے کے لےے اتنا کچھ کر دیاکہ جسکی مثال رہتی دنیا تک دوبارہ ملنا ممکن نہیں ، انہی کے حق کے مشن کیسر بلندی کے لیئے اپنے آپ کو مارنے پر اپنا آپ لگا دینے پر تل جاتا ہے۔ تبھی یہ احساس اندر اترتے ہیں کہ اپنا ذاتی طور پر سر قلم توکروا دیتےہیں مگر پورا کنبہ کوہانے/کٹوانے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہیں کرسکتا۔ اور کوئی ...بھی کوئی نہیں ہے جو یہ کر سکے۔ دوردور تک کوئینہیں ہے۔

Admin-3
09-24-2017, 08:36 PM
٭​قافلہ کربلا والے جو تکالیف، مصائب ،سختیاں اور بھوک پیاس یہاںبرداشت کر گئے۔ اگر ہم ان کے درد کے احساس میں ان زخموں پر مرہم لگاناچاہتے ہیں تو ہمارا یہاں باطل کے ساتھ لڑنا اور حق پر کھڑے رہنا ان کیاس وقت کی تکلیف کی شدت کو کم کرتاہو گا۔ ہمارا ہر طرح کی تنگی میںباطل کے ساتھ لڑنا اور سب کچھ برداشت کرکے تلخیاں جھیل کے پھر بھیحق پر کھڑے رہنا ان کے زخموں پر مرہم کا کام دیتا ہے۔ اس لےے ہم میںسے جو چاہے کہ ان زخموں کے لےے مرہم بنے تو وہ لمحہ لمحہ حق پر کھڑارہ کے حق کی قوت سے باطل کا مقابلہ کرے یہی حق کی راہ کا سفر ہے۔ اور یہ سفر نوکیلے پتھروں پر چلنے کا سفر ہے جس پر زہریلے کانٹے بھیہوںجن کا درد اند ر تک اترتا چلا جاتا ہے ۔جو کوئی اس نوکیلے راستے پرچلتا ہوا حق کی راہ پر آگے بڑھتا ہے وہ درا صل اس کرب و بلا جیسی راہسے کانٹے چن رہا ہوتاہے ۔ باطل کے ساتھ بھی انفرادی یا اجتماعی طور پرنبرد آزمائی کرنا ان کے راستہ کے نوکیلے کانٹے ہٹانا ہے۔﴿٭​حق کی راہ پر لڑتے رہنے کی وجہ سے ہی تنگی اور مصائب کاسامنا ہوتا ہے۔ اگر لڑنا چھوڑ دیں ہتھیار ڈالدیں تو آزمائش بھی نہیں آئےگی۔ اگر لڑتے رہے اور اندر سے قوتِ ایمانی کے بل پر مقابلہ جاری رکھا توکسی بھی طرح کی آزمائش میں نہ صرف ایک نئی طاقت اور قوت ایمانیکے اضافہ کا احساس ہو گا بلکہ ایک ولولہ جوش اور عزم اندر پیدا ہو گا جوباطل سے لڑوائے گا۔ اس لےے جب بھی ایسی صورتحال ہو کہ آزمائش کاسامنا ہو تو وہاں حق کی قوت کو اپنے اندر محسوس کر کے اللہ کے احساسکو تھامے ہوئے ہر لمحہ اس سے مدد مانگتے رہنا ہماری کشتی کو کنارے جالگاتا ہے۔ ہمیشہ دعا کرو کہ ہمیں بھی وہ طاقت نصیب ہو جائے کہ ہم وفاکر سکیں اور ہماری تا قیامت آنے والی نسلیں اور ان نسلوں میں ایک ایکبچہ ان سے وفا کرنے والا اور ان پر جان نثار کرنے والا ہو۔ ہمیںایسی نسلکی بھی چاہت نہیں جو قطر ہ قطرہ ان پر جان لٹانے والی نہ ہو۔ ہمارینسلوں میں بچہ بچہ ان پر تن من دھن لٹا دینے والا ہو۔(آمین)﴿٭​مانگنے والو!... اگر مانگنا ہے تومانگ لو یہی دعا کہ اس دل میں کربو بلا کا درد اتر جائے۔ بس محسوس کرو وہ درد اور کیا مانگنا ہے۔​انہی کا درد... انہی کی محبتیں ...انہی کی نسبتیںمانگو...یہاں اورکچھ بھی نہیں ہے... نہ دنیا میں نہ آخرت میں... تو مانگ لو انہی کی راہمیں قدم مانگ لو۔​ان کے ہی قدموں میں موت مانگ لو... انہی کی غلامی مانگ لو.. اگر یہمل گیا تو سمجھو سب کچھ مل گیا ..اور مانگنے کو کچھ نہیں بچتا... اگران کے قدموں میں بھی جگہ مل گئی تو پھر سمجھو سب کچھ تمہارا ہے...سب اپنے دل سے مانگ لو...سب کچھ انہی کے پاس ہے اور کچھ بھیکہیں بھی نہیں ہے۔ ہم عاشقوں کے لےے ہماراکل جہاں ہی رسول ﷺ و آلِرسول ﷺ ہے۔ ہم ان کو سلام پیش کرتے نہ تھکیں۔ ان پر سلام پیش کرنےکی اجازت مل جائے تو اپنے لےے بہت احسان سمجھیں۔ اگر یہ اجازت ملگئی تو سمجھ لیناکہ یہ احسان کر کے انھوں نے ہمارے سروں پہ یہ تاجرکھ دیا ورنہ ہم کس کھاتے میں ہیں۔﴿٭​ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا اور کبھی نہ بھولنا....!!!​محشر صرف انہی ہستیوں کا ہے ۔ انہی کی گرفت میں ہے۔ یہ باتکبھی نہ بھولنا ۔​اللہ نے اتنا لٹایا ہے اپنے ان پیاروں پر کہ کوئی حد نہیں چھوڑی یہاںتک کہ جنت کی سرداریاں بھی انہی کے حوالے کر دیں۔​اللہ نے اتنا لٹایا کہ پھر فرماتا ہے اب جو کچھ بھی لینا ہے میرے انہیپیاروں سے لو۔ غلامی لینی ہے... نجات لینی ہے... جنت لینی ہے... انہی سےلو کیونکہ جو کچھ بھی ملنا ہے انہی سے ملنا ہے... اور کہاں سر ٹکرا تےپھر رہے ہو۔کہیں بھی جاﺅ گے توکہیں بھی کچھ نہیں ہے... اور نہ ملے گا۔ بس پتھر ہیں... زمین ہے اور وہ کیا دیںگے۔ اللہ تو پنجتن پاکؑ کا ہے اور اللہتو اور کہیں سے بھی نہیںملتا۔ تم زمینوں پر ماتھے گھساتے ہو ...زمین کیادے گی... زمین تو مقروض ہے آلِ نبیﷺ کی... وہ کیا دے سکتی ہے۔ اس پرسجدہ کرنے سے کیا ملے گا۔ ادھرصرف زمین پر ماتھے ٹکائے ہوئے سجدےہمیں کچھ نہیں دے سکتے۔ جب تک پنجتن پاکؑ کی محبت کی شمع نورِایمانیکی صورت دل میں روشن نہ ہو۔نورِایمانی سے خالی دل لیئے زمین پر ماتھےرگڑ کر کچھ نہیں ملتا۔بیچاری زمین تو خود شرم سے منہ چھپاتی پھر رہیہے کہ آلِ نبیﷺ نے اپنے خون سے دین کا نصاب زمینِ کربلا پر لکھ دیا اوراسی لیئے زمین مقروض ہے ...پانی منہ چھپاتا پھر رہا ہے... اب تک اس کوکہیں بھی پناہ نہیں ملتی... اگر ہم کوئی پناہ چاہتے ہیں تو دین ہماری پناہگاہ ہے ...اور دین تو پھر ہے ہی انہی کی پناہ میں....آج ہم تک جو دینِ حقپہنچا تو وہ انہی کی پناہوںمیںپہنچا.... تو ہماری پناہ تو خود انہی کی پناہمیں ہے... پناہ اور کہیں نہیں مل سکتی۔ پناہ کہیںاور نہیں ہے ...اور ہم انہیسے بھاگتے ہیں۔افسوس!.....ہماری نادانی....!​اس لیئے یاد رکھنا...! ​اگر حق کی پہچان پانا چاہتے ہو....اگر اللہ کے نورِایمانی سے دل منورکرنے ہیں.... اگر دینِ اسلام پر عمل پیرا رہنا ہے اور اگراخروی نجات کی راہپانی ہے.... جنت پانی ہے... تو خود کو اللہ کے انہی پیاروں کی محبت کیپناہ گاہوں میںدے دو۔آشنائے حق رہو٭....٭....٭