PDA

View Full Version : key 31: ہمارا اللہ پر یقین



Admin-2
03-05-2017, 10:05 AM
key 31
اکثرہماری خام خیالی ہوتی ہے کہ ہمارا اللہ پر یقین ہے۔ اسی لیے تو جس وقت تک آسانیاں ہوں ہمارا یقین اللہ پر قائم رہتاہے مگر اگر ذرا سی آزمائش آپڑے تو یقین جھاگ کی طرح بیٹھ جاتاہے اور پر یشانی میں گھر کر ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ اللہ ہے نا اور جب وہ ہے تو پریشانی کیسی ۔اور اندر یقین رکھنا ہوتاہے کہ اللہ مجھ سے زیادہ میری بہتری جانتا ہے ۔ اس لیے اللہ سے ہمیشہ بہتری کی اُمید اور اچھا بلکہ بہترین گمان رکھیں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہمارے گمان کے مطابق ہی ہوتاہے ۔جس جس لمحے ہم یقین سے کھڑے ہوتے ہیں یقین کی دیوار میں اینٹ سے اینٹ جڑتی جاتی ہے جس لمحہ ہمارا یقین کمزور ہوا... ہلا... کم ہوا ...تو تب سمجھیں کہ اس اینٹ کے ساتھ بے یقینی کی بھی اینٹ لگ گئی ۔ کیونکہ ہم نے حق کو چھوڑ کے باطل کا ساتھ دیا۔ ایسے دیوار تو مضبوط نہیں ہوتی ۔ اسی لیے جس وقت کسی آزمائش کا سامنا ہوتو یہ دیوار مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ڈھے جانے پر آجاتی ہے ۔ اس وقت ہم پھر ذات میں پھنس جاتے ہیں کہ محنت تو بہت کی تھی، ذات پر کام بھی کیا، یقین بھی مضبوط رکھے مگر پھر بھی دیوار گر گئی نتیجہ سامنے نہ آیا وغیرہ وغیرہ ۔جب کہ سچ تو یہ ہے کہ یقین تو احساس کی صورت ہمارے اندر کھڑا ہوتاہے اور ہم خود بہترین طور پر جانتے ہیں کہ کب یقین کی ڈور مضبوطی سے مرکز سے جڑی رہی تھی اورجب یقین کی ڈور مضبوطی سے مرکز سے جڑی ہو دیوار بھی مضبوط رہتی ہے اور اگر ایسانہ ہو تو دیوار کی مضبوطی بھی کم ہونے لگتی ہے ۔ اگر ورکر کا یقین مضبوط ہے تو اس کی دیوار میں کوئی اینٹ کمزور نہ ہوگی اور وہ اس دیوار کی مضبوطی کو اپنے مالک پر یقین کی مضبوطی سے ہی ممکن بناتاہے اور اس یقین کی مضبوطی ہی اس کو ورکنگ میں ثابت قدم رکھتی ہے ۔ کیونکہ اس کا یقین اسے عمل کی جانب لے جاتاہے ۔ اس کا عمل یقین کی بنیاد پر ہوتاہے کہ وہ جو کر رہاہے بس اپنے مالک کی رضا اور خوشی کی خاطر کر رہاہے تو وہ بے لوث ہو کر اور استقامت سے ورکنگ جاری رکھتاہے۔ اگر اس کی منزل کی چاہ، جذبہ اور مرکز پر یقین کم ہوگا تو نہ وہ عمل کر سکے گا اور نہ پاور سے آگے بڑھ کر ہر دم ورکنگ جاری رکھ سکے گا۔ ورکر کو یقین ہو کہ یہ ماہی کا کرم اور مہربانی ہے کہ وہ اس دیوار میں یقین کی ایک ایک اینٹ لگارہاہے ۔اور جب کبھی یہ کمزور ہو تو تب بھی ڈاﺅن نہ ہو بلکہ یاد رکھے یہ بھی حکمت سے خالی امر نہیں اس کی بے یقینی کی اینٹوں کانظارہ اسے کرایا گیا کہ اس اینٹ کی وجہ سے دیوار کمزور ہے لہٰذا اس کو اکھاڑ پھینکو اور اس کی جگہ یقین کی مضبوط اینٹ لگاﺅ کیونکہ گرجانا غلط نہیں اور گر کر سنبھلنا اہم ہے ۔ دیوار گرے تو مالک کو مدد کے لیے پکارکر پھر یقین پکڑو اور پھر سے اس کو مضبوط کرنے پر لگ جاﺅ۔ کیونکہ ورکر یہاں بھی باطل سے نہیں ڈرتا۔ نہ اس کے سامنے جھکتا ہے ۔ورکر جانتا ہے کہ باطل اس کے یقین کے خزانے کو لوٹنا چاہتاہے اور یہ خزانہ وہ لٹنے نہیں دے گا کیونکہ باطل بھی جانتاہے کہ کسی بھی محنتی ورکر کے پاس احساس کی دولت ، آشنائی کا خزانہ ، یقین اور پاور ہے ۔ اسی لیے وہ اس خزانے کو لوٹنے کے لیے کسی بھی محمدی حسینی ورکر پر زیادہ حملہ آور ہوتاہے کہ اگر اس نے اس ورکر کو دبوچ لیا تو بہت سے اور حق کے راہی حق کی راہ پر نہ آسکیں گے۔ لہٰذا یہاں ورکر الرٹ رہے وہ اپنی یقین کی دولت کو لٹنے نہ دے ۔ جب کبھی باطل حملہ آور ہو اور خدا نخواستہ اس کا حملہ کامیاب ہو بھی جائے تب بھی اس کا یقین نہ کم ہو کہ جن لجپالوںنے پہلے اس کو سنبھال رکھا تھا اب بھی وہ ہی سنبھالیں گے اور کبھی نہ چھوڑیں گے۔ اس یقین کے سہارے ہی وہ اٹھ کھڑا ہو۔ اور یقین کے سہارے ہی ورکنگ شروع کرے اور ہر لمحہ مدد کا طلب گار ہے ۔ کیونکہ ایک محمدی حسینی ورکر کی یقین کی پاور اتنی ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر باطل کی اپنی جانب اٹھنے والی نظر کو جھکا دے ، اس کی آنکھیں نوچ لے ۔ جس لمحے باطل یقین لوٹنے آئے اور کامیاب ہوجائے تو بھی کبھی ڈاﺅن نہیں ہونا بلکہ اپنے مالک کو پکارنا ہے اور یقین رکھنا ہے کہ وہ پکار سنتے ہیں ۔ اس کا یقین ہی باطل کو کتے کی موت مارنے کے لیے کافی ہے۔