PDA

View Full Version : سوال121:ہاٹ سیٹ سے کیا مراد ہے؟



Admin-2
03-06-2017, 11:26 AM
سوال121:ہاٹ سیٹ سے کیا مراد ہے؟
جواب
Hot seat
ایسے ہی ہے کہ جیسے خود کو آئینہ دکھاتے ہوئے خود ہی اپنے آپ کو
تیز دھار چھری سے کاٹ ڈالاجائے۔ یعنی اپنا جائزہ انتہائی گہری نظر سے لیتے ہوئے اپنی ذات کے منفی پہلو پکڑے جائیں اور اپنی اس اصلیت کو اندر سے تسلیم کیا جائے۔ذات کو کاٹ ڈالنے کا کام خود کریں تو
self hot seat
ہوگی اور اگر کسی اور کو یہ اختیار دیں کہ وہ ہماری ذات
کو کاٹ دے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ وہ جس جس طرح سے ہمیں ذات کے مختلف پہلو نکال کر دکھائے گا اور اصلیت کھولے گا اسمیں ہماری اصلاح کے پہلو ہوں گے۔ پھر چاہے وہ بے عزتی کی چھری چلائے.. ملامت کی تلوار یا سیدھا سیدھا بے وقعتی کا ٹوکا چلاکے ہمیں ہماری گھٹیا ذات سے نجات دلانے کی کوشش کرے۔ وہاں اپنا آپ بچانا نہیں ہوتا۔ اس اصلیت کو جاننے کے بعد درد بھی لگے گا ،اپنا آپ ٹوٹے گا بھی مگر ہمیں ذات کے آزار سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس
hot seat
کا بنیادی مقصد ہمارے اندر کے سوئے ہوئے احساس کو جگانا اور اس نقصان کا احساس دلانا ہوتاہے جس کی وجہ سے ہمارا سفر متاثر ہورہا ہو۔ اور اس احساس کو جگانے کے لیئے ہر قسم کے ہتھیار سے لیس ہوکے وار کیاجائے تو احساس پر ضرب لگنے سے ذات کٹے گی۔ذات میںدراڑ کے پڑنے سے ہی اس کامکروہ چہرہ سامنے آئے گا اورہم اس سے نفرت کریں گے ۔ہماری ذات سے ہماری نفرت ہی ذات کے چنگل سے نجات پانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ ورنہ تو ہم اس ذات کے ظاہری حسن میں ہی پھنس کر اس کی پوجا کرتے چلے جاتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو خود بھی کاٹ سکتے ہیں۔جتنا ہم اپنی اصلیت کو قبول کرتے جاتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو خالص کررہے ہیں ۔اپنی حقیقت کا سامنا کرنا ہی خود کو کاٹنا ہے۔ خود کو کاٹنا ہی ذات پر کام ہے۔اپنی اپنی اصلیت سے ہم خوب اچھی طرح واقف تو ہوتے ہیں مگر ہم خود کو کاٹنا نہیں چاہتے۔ ہم ضرب لگانا جانتے ہیں مگر یہ ضرب دوسروںپر لگاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم حقیت کو کھولنے کے ہنر سے واقف تو ہوتے ہیں مگر اس ہنر کی زور آزمائی دوسروں پر کرتے ہیں یعنی ٹوکا اپنے پر نہیں چلاتے بلکہ دوسروں پر چلاتے ہیں۔ اپنی چھلائی نہیں کرتے دوسروں کی رگڑائی کرتے ہیں۔
جب ہم خود اپنی صفائی کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اور اگر ہم اپنی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو میدان میں کود پڑنے کے بعد ہم تنہا نہیں ہوتے۔ بلکہ ہم اپنے مالک سے مدد وصول کرتے ہیں اور اس پاور سے ہی اپنی حقیقت کو کھولتے جاتے اور قبول کرتے جاتے ہیں۔ اس میں
step by step
کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک پوائنٹ کو پکڑا ہے اس کو تہہ در تہہ کھولو۔ اس کی جڑ کو پکڑو ۔ایسے ہی جیسے کہ کسی درخت کی جڑ کو اکھاڑ ا جاتا ہے کہ پھر دوبارہ اس کا اگنا ممکن نہ رہے۔ اسی طرح کسی بھی پوائنٹ کو پکڑنے کے بعد اس پر صرف سطحی نظر نہ ڈالو۔اس کی جڑ تک جاﺅ اور اس کو اکھاڑ پھینکو کہ پھر وہ سر نہ اٹھائے۔
اپنی من مرضیاں... پسند... اختیار... چاہیتں... خواہشیں... یہ سب ذات کی ہی شکل ہے۔ اپنے آپ پر گہری نظر رکھ کے خالص پن کی طر ف قدم بڑھانا... غیر سے وابستہ خواہشات کو مٹانا ...دل کو فانی چاہتوں سے خالی کرنا اورا یسے عمل کرنا جو ہمارے مالک کی پسند اور رضا کے مطابق ہوں...یہ ذات پر کام ہے۔ ذات پر کام کامقصد یہ ہے کہ خود کو سنوار سکیں اور اپنے معشوق کی قربت میں آگے بڑھ سکیں۔
ذات کسی مجسم شے کا نام نہیں ہے جس کو ظاہر ی آنکھ سے دیکھا جاسکے۔ یہ اندر کے منفی احساسات، انا، فخر، غرور، تکبر، مال مرتبہ اور دنیاکی حرص کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔ اپنی میں کی نفی کرتے ہوئے اپنے ہر عمل کو معشوق کی رضاوخوشی کے لیے انہی کے رنگ میں رنگ لینا ذات پر کام ہے۔ اپنی مرضیوں، چاہتوں کو ایسے ڈھال لینا کہ ہمارے مالک کو پسند آجائے... یہ ذات پر کام ہے ...جو ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ میں کی نفی ذات پر کام ہے ۔ تُو... کے علاوہ جو بھی ہے وہ ذات ہے۔ جب اور جہاں میں آئی اور ’ تُو ‘ سے نسبت یا رابطہ کمزور ہوا.. یا ٹوٹ گیا وہاں ذات موجود ہوتی ہے۔ اب چاہے وہ میں... احساس، سوچ، جذبہ، خیال یا بول میں ہو اور چاہے کسی معمول، عمل یا معاملے سے اس میں کا اظہار ہووہ دراصل ہماری ذات ہی ہے۔ اپنی میں کو مارنے کی کوشش عاشق کو لمحہ لمحہ حالت جنگ میں رکھتی ہے اور اس کا سفر جاری رہتا ہے۔