PDA

View Full Version : سوال134:درد کو عطا ئے یار کیوں کہا جاتا ہے؟



Admin-2
03-06-2017, 11:56 AM
سوال134: عشق میں درد کو عطا ئے یار کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب
عشق میں درد معشوق کی عطا ہے۔ عاشق درد اتنا ہی لے سکتا ہے جتنااس میں اپنے معشو ق کی چاہ اور طلب ہو۔ جتنا اس کو اپنے معشوق کو پانے کا جذبہ ہوگا تو اتنا ہی معشوق کا درد لینے کے لیے عاشق اپنے معشوق کی پسند اور رضا کے مطابق خود کو ڈھالے گا ۔اورا یسے عمل کرے گاجو ان کی قربت کا سبب بن جائیں۔ جب عاشق اپنے معشوق کا درد لینے کے لیے آگے آتا ہے تو اسے خود کو کاٹنا پڑتا ہے۔ اور جب معشوق کا درد لینے کی چاہ میں اپنا آپ کاٹتا اور کٹواتا ہے تو معشوق کی قربت اس کو نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے درد کو عطائے یار بھی کہا جاتا ہے۔
عاشق جب اپنی ذات پر کام کرے گااور اپنا آپ خالص کرنے کی کوشش کرے گا تو خالص پن کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ قربت بھی بڑھتی جائے گی۔ جتنا عاشق کا دل پیار کے احساس میں ڈوبا ہوگا اتنا ہی وہ درد کو محسوس کر پائے گا ۔اور درد سمیٹنے کے لیے تڑپے گا۔ اور درد لینے کے لیے وہ ہر وہ عمل، معمول اپنائے گا جس سے معشوق خوش ہوں اور ان کا درد کم ہو۔ امتیوںکے ساتھ محبت سے ورکنگ کرکے ہم معشوق کے دل میں بسا امت کا درد لے سکتے ہیں۔ عاشق اپنے معشوق کے زاویہ نظر، رنگ اور انداز کو اپنا کر اپنے ہر معاملے میں معشوق کے درد کو لے سکتا ہے۔
کسی بھی آزمائش کے لمحے میں یہ یقین ہو کہ یہ معشوق کی ہی طرف سے ہے ۔اور دل کا وہاں پیش کردینا کہ ..میں حاضر ہوں... اور اس وقت معاملات میں کسی بھی ظاہری حالات میں نہ پھنسنا بلکہ راضی برضارہتے ہوئے معشوق کی ایک مسکان کی امید پر ہنسی خوشی اس میں سے گزر جانا ہی معشوق کا درد لینا ہے۔
عاشق جیتا مرتا اپنے معشوق کے لیے ہے۔ اس کا غم و خوشی اپنے معشوق سے وابستہ ہوتی ہے۔ معشوق کے رنگ میں رنگ جانا عاشق کے لیے درد کے معنی بدل دیتا ہے۔اور وہ ذاتیا ت سے بالا تر ہوکر صرف معشوق کے دل میں بسے امت کے دردکو اپنا درد بنا کر جیتا ہے۔ جیسے کسی بھی درد کی وجہ کو جان کر اس درد کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے ہی عاشق اپنے معشوق کے درد کی وجہ کو جان کر اس درد کو کم کرنے کے لیے امت کی فلاح و ہدایت کو اپنا مقصد بنا کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہی اس کے معشوق کے درد کوبانٹنے کا بہانہ ہے۔
معشوق کا مشن اپنا لینا ہی معشوق کا درد بانٹنا ہے ۔ درد کوئی ظاہر ی شے تو نہیں ہے۔ یہ تو ایک احساس ہے۔ ایک خاص الخاص عطا ہے۔ جس میںعاشق اپنے احساس، سوچ اور عمل کو رنگ لیتا ہے۔ اور یہی رنگ معشوق کے درد کو اس کے اندر اتارتا ہے ۔اور پھر وہ معشو ق کی عطا کردہ پاور اور جذبہ سے مشن پر لگ جاتا ہے۔ اور امت کی فلاح کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جتناعاشق کے دل کا رابطہ معشوق کے ساتھ ہوگا خودبخود ہی اس کے دل میں اتنا ہی معشوق کا درد آتا جائے گا۔
جب درد ملتا ہے تو دراصل معشوق اپنی قربت کا موقع دیتے ہیں۔عشق میں درد لازمی ہے۔ درد بنا عشق نہیں۔ عاشق کو ہر درد صرف اور صرف معشوق کی جانب سے عطا ہے۔ چاہے اس کے لیے حالات اور معاملات کوئی بھی استعمال ہوں۔ عاشق کے لیے وہ سارا سیٹ اپ معشوق کی طرف سے بنایا گیاہوتا ہے۔ معشوق نے اس آزمائش کے لیے اپنے عاشق کوچنا ہوتا ہے۔اس آزمائش میں ملنے والادرد عاشق کو عشق بڑھانے کا موقع دینے کے لیے ملا ہوتا ہے۔
دردیار کی عطا ہے۔ درد کو ہنس کر سہہ جانے سے عاشق اور معشوق کی قربت میں اضافہ ہوتاہے ۔ یہ عشق میں بہت قیمتی چیز ہے۔ جس پہ معشوق خوش اور راضی ہوں اسے ہی درد یتے ہیں۔ ورنہ یہ ہر کسی کا نصیب نہیں۔ عشق سے پہلے بھی دنیا میں درد موجود تھاپر اندر نہیں اتر ا تھا۔ اب جب معشوق نے کرم کیا... درد عطا کیا... اور دل کی دنیا بدل گئی... تو درد واقعی عطائے یار ہی ہے۔عشق میں درد کی بہت اہمیت ہے۔ درد سے عشق بڑھتا ہے۔ عشق میں بہانے بہانے سے درد لگائے جاتے ہیں۔ درد دل کو نرم کرتا ہے۔ عشق میں قدم قدم یہ درد لگتا ہے۔ عشق میں درد پینا ہوتا ہے۔ درد عاشق کے عشق کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔درد لگتا ہے تو عشق کواڑان ملتی ہے۔ درد جہاں سے بھی آکے لگے اسے وصول کرنا ہوتا ہے۔ عاشق کے لئے ہر درد یارکا تحفہ ہوتا ہے اور معشوق سے قربت کا سبب بنتا ہے۔جب کوئی درد ملے گا تو اس وقت عاشق کا دل اپنے معشوق کی طرف جائے گایوںعاشق کی قربت بڑھے گی۔ عشق میں لگا درد ضائع نہیں جاتا وہ معشو ق کی قربت میں لیتا جاتا ہے۔ جب دل پہ درد کا پہرہ رہتا ہے... تو یار کی قربت میں رہتا ہے... اسے یاد کرتا رہتا ہے... کوئی درد کے بغیر محبوب تک نہیں پہنچ سکتا۔
عشق عطا ہے... اور عشق ہے ہی درد.... تو درد بھی عطا ئے یار ہوا ناں....! جیسے عشق عطائے یار ہے۔ درد معشوق تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے۔ اورجب عاشق کو درد لگتا ہے تو وہ معشوق کے قدموں میں جاگرتا ہے ۔ عاشق درد میںمزالیتا ہے... مست ہوجاتاہے۔جتنا عشق اتنا درد ...درد ہی معشوق کے پاس لے جاتا... درد ہی معشوق کو صدا لگواتا ہے... درد جوڑتا ہے معشوق کے ساتھ... درد قریب کرتا ہے معشوق سے... معشوق سے دل کی گرہ مضبوط کرتا ہے ۔
درد عطا ئے یار ہے۔ درد عاشق کو اس کی منزل تک بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ عشق مٹی سے نہیں... درد سے بنا ہوتا ہے... درد قربتوں کے سفر کراتا ہے... درد کے سواعشق نہیں ہے.... عشق میں درد کی حیثیت ایسی ہے جیسے آنکھ میں نورہو....درد عشق کی غذا ہے... درد لگتا ہے تو عشق بڑھتا ہے.... عشق تو نام ہی درد کا ہے... ہر خیال درد ...ہر سوال درد...معشوق کا ساتھ بھی درد ....معشوق سے دوری بھی درد ....جتنا درد بڑھتا جاتاہے... اتنا عشق بڑھتا جاتاہے ...عاشق کو درد مزا دیتا ہے... معشوق کے ہجر کا درد... معشوق کی خاطرسب کچھ برداشت کرنے کا درد ....ان کے درد میں جینے کا درد ....معشوق کا ہجر کاٹنا....معشوق کے درد میں جیتے ہوئے نہ مر سکنے کی مجبوری کا درد....سب سے بڑا درد ہے۔
دردہی درد ہے عشق میں...عشق میں اور کچھ نہیں ملتا ...عاشق کا اوڑھنا بچھونادرد ہے... مزا ہے درد میں ...درد سکون ہے... معشوق کا پیار ہے... درد بہانہ ہے دیدار کا... قرب کا ...درد ہی سب کچھ... ...عاشق کی کہانی درد پہ ختم.... معشوق کے درد کی چاہ کا درد...عاشق کا درد ...ہے۔