PDA

View Full Version : سوال135:دردکس طرح پیا جاتا یاضائع ہوتا ہے؟



Admin-2
03-06-2017, 12:00 PM
سوال135: عشق میں درد سے فائدہ حاصل کرکے عشق بڑھانے کے لیے اسے کس طرح پیا جاتا ہے؟ اور درد ضائع کیسے ہوتا ہے؟
جواب
درد کو معشوق کی عطا سمجھ کر پیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی آزمائش آئے، درد ملے اور ہم وہ دردپی جانے کی بجائے گھبراجائیں، معشوق سے دور ہوجائیں، شکایت کریں یا مظلومیت میں جائیں تو ایسے ہم نے درد لینے کا موقع ضائع کردیا۔درد کو معشوق کی پیروی میں پیتے جاتے ہیں۔ اور معشوق کے ساتھ عشق میں جوڑتے جاتے ہیں۔اگر درد کو معشوق کے ساتھ نہیں جوڑا تو درد ضائع کردیا۔
درد جہاں سے بھی ملے اسے سنبھال لینا چاہیے۔ اگر درد ملنے پر کسی پر انگلی اٹھائی تو سمجھیں درد ضائع کردیا۔ جب ہم ٹیسٹ میں اپنے مرکز (معشوق) سے دور ہو جاتے ہیں تو درد کو ضائع کردیتے ہیں۔ جب نظر میں معشوق کی رضا ہوتو درد لینے میں مزا ہے۔درد کا فائدہ تبھی ہے جب اسے عطا ئے یار سمجھ کے وصول کیا جائے۔ یقین رکھا جائے کہ اس درد میں معشوق نے میرے لیے قرب کا ایک موقع بھیجا ہے۔ معشوق نے ایک بار پھر مجھ پہ کرم فرمایا ہے۔ دل کی بہترین حالت کے ساتھ درد کو پیا جائے اور معاملے پر نظر نہ رکھی جائے جس کی وجہ سے درد ہوا۔ جتنا درد ہم دل پر گزارجاتے ہیں اتنافائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب ہم مایوس ہو جاتے ہیں تو ہماری نظر معشوق سے ہٹ جاتی ہے اور لوگوں سے شکوہ کرنے لگتے ہیں انہیں اپنے درد کا الزام دینے لگتے ہیں تو سمجھیں درد ضائع کردیا۔ کسی آزمائش میں خوشی سے معشوق کے لیے سرتسلیم خم کرنا ہی درد کو پینا ہے۔
عشق بہانے ڈھونڈتا ہے اپنے معشوق کا قرب پانے کے اور جب اسے درد ملتا ہے تو عاشق کو سرور کا احساس ملتا ہے۔ جب ہم آزمائش میں اپنے اندر شکر اور عاجزی لاتے ہیں تو ہم نے درد پی لیا۔ لیکن اگر نا شکری اور مایوسی کی لہر اندر اٹھی اور دل تسلیم خم نہ کیا تو پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہیں پھر سمجھو درد ضائع کردیا۔ جس بھی معاملے میںسے درد مل رہا ہو اسے معشوق کے ساتھ جوڑ دیا جائے کہ یہ معشوق کا احسان ہے کہ مجھے اتنا قیمتی جام پلایا۔ اور پھر اس درد کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے۔ اس درد کی پاور کو ذات کاٹنے یا ورکنگ میں لگایا جائے۔ پر ہم جب کسی معاملے میں پھنس کر دل میں چڑلاتے ہیں یا شور مچاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ درد پینے کی بجائے ہم درد ضائع کررہے ہوتے ہیں یعنی معشوق سے ملے جام کو گرا دیتے ہیں۔جبکہ عشق تو ہے ہی درد ...جب دردلگے معشوق کی یاد میں مست ہو جاﺅ ...معشوق سے رشتہ مضبوط کرلو۔ یہ درد عشق کے سفر میں بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کو بہت پیار سے معشوق کے لیے پی جانا عشق بڑھاتا ہے۔عشق بڑھانے کے لیے درد کو پینا لازمی ہے۔ درد کو جتنا جذب کیا جاتا ہے اتنا ہی دل نرم ہوتا ہے۔ اور صاف اور پاک ہو جاتا ہے۔
عشق میں عاشق کو درد ملے تو پھر اسے سنبھالنا پڑتا ہے۔ اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ اور عا شق اپنی ذات سے آزاد ہوکر معشوق کا درد لے سکتا ہے۔ اپنی ذات بچائے گا تو معشوق کا درد اندر نہیں سماسکے گا۔ معشوق کا دردسہنے کے لیے دل اندر سے خالی کرنا ہوگا تبھی تو دل کا دل سے رابطہ ہوگا ۔اور عاشق کا دل اپنے معشوق کے دل سے درد وصول کرے گا۔ معشو ق کا درد لینے کے لیئے محور و مرکز اگر معشوق ہوگا تو ہی عاشق پیروی کرسکے گا۔ پیروی کرنا ہی اس کے دل کو وسعت دے گا۔ اور اسی دل کی وسعت میں ہی معشوق اپنا درد اتارے گا۔ جس دل میں پیار محبت نے وسعت ہی نہ پیدا کی ہو اس میںدرد کیسے سماسکے گا۔
درد احساس ہے۔ ایک ایسا احساس جو عاشق میں تڑپ پیدا کرے گا۔ جتنا معشوق کا درد ملے گا اتنا ہی عاشق کا جینا مرنا ان سے منسوب ہوتاجائے گا۔اندرجتنا معشوق بسا ہوگا اتنا دل اس کے درد کو محسوس کرسکے گا ۔اور درد کو محسوس کرنا عاشق کو اپنے معشوق کا درد لینے ،بانٹنے اور کم کرنے کی کوشش پر مجبو ر کرتا ہے۔
معشوق کی خوشی... ایک مسکراہٹ ...ہر پل ان کی نظر پانے کے لیے... معشوق کے درد کو سنبھالے رکھنے کی کوشش... ہی ایک عاشق کا شیوہ ہوتا ہے۔ اور یہی اس کے عشق کی پہچان ہے کیونکہ عشق درد ہے... اور درد عطائے یار... اور عطائے یار.... ایک سوغات ہے... جو ہر کسی کا نصیب نہیں... جس کومل گئی وہ ہی عاشق ٹھہرا۔ معشوق کا کرم... عاشق کا بھرم.... عطائے یار ہی ہے۔