PDA

View Full Version : سوال137: ”تیرے عشق نچایا“سے کیا مراد ہے؟



Admin-2
03-06-2017, 12:11 PM
سوال137:عشق میں تیرے ”تیرے عشق نچایا“سے کیا مراد ہے؟
جواب
تیرے عشق نچایا.....یہ ایسے ہے کہ جیسے معشوق نچائے... عاشق کی دھڑکن... اپنے معشوق کی دھڑکن کے ساتھ ویسے ناچے۔ وہ کہے کہ جھک جا... تو عاشق جھک جائے۔ جتنا زیادہ دل کا احساس بڑھے گا اتنا عاشق کا عمل اپنے معشوق کی مرضی کے تابع ہوگا۔ اور عمل میں تیزی اندر کے جذبے سے ہی آتی ہے۔ اور جذبہ باتوں سے نہیں دل کے خاص ارادے سے آتا ہے۔ اور دل کا یہ خاص ارادہ ہی عاشق کو اپنے معشوق کے لیے نچاتا ہے اور یہی دل کا ناچنا ہے۔ جب بھی عاشق اپنے معاملات میں اپنی ذات، اپنی مرضی، اپنی خواہش کے بجائے معشوق کے بنائے ہوئے سیٹ اپ میں انہی کی رضا میں راضی رہ کران کی نظر کے اشارے پر ناچے تو یہی ’تیرے عشق نچایا‘ کہلائے گا۔
یہ بے سرو بے تال ناچنا ہرلمحہ جاری رہ سکتا ہے۔ اب یہ عاشق پر ہے کہ ذات کے گرد گھومے یا معشوق کی چاہ اور مرضی کو محور بنالے۔ یار کی اک نگاہ کی جنبش کو سمجھ کر... کہ وہ کیسے نچانا چاہ رہا ہے... اور ذات کے پردے گرا کر... اپنے عشق کو بڑھاتا جائے۔
کہیں ذات مار کے ...کہیں قرب کے احساس دل میں جگا کر ...کبھی ہجر کی لذت چھلکا کر...کبھی دید کا مزہ عطا کرکے ...بس معشوق جس صورت عاشق کو نچانا چاہیں... عاشق بنا کوئی شکوہ کئے سر تسلیم خم کرتا جائے اور اس کا من بولے’ تیرے عشق نچایا‘ کیونکہ عاشق کی اپنی کوئی مرضی، چاہ، خواہش نہیں ہوتی۔عاشق نے معشوق کی رضا کا گھنگرو پہن کے ناچنا ہوتاہے۔ اس لیے اپنی ہر چاہت ،اپنی ہر مرضی چھوڑ کے درد لینا پڑتا ہے۔ اسی سے رضا ملتی ہے اور اسی کے لےئے عاشق ناچتا ہے۔ اور نچاتا ہمیشہ معشوق ہے کیونکہ وہ عاشق کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے۔ وہ عشق کے سارے سرتال لگاتا اور عاشق کو ناچنا سکھاتا ہے۔ کبھی سر بدلتا ہے تو نفس مرتا ہے عاشق کا...کبھی کسی تال پہ ناچتے ناچتے عاشق کی ذات پر پاﺅں آجاتا ہے... کبھی مست ہوکے عاشق اپنا آپ پیش کرتا ہے... اور دل کہتا ہے کہ ہو ر نچ..... بس ہور نچ
عاشق سرتاپا محوِ رقص ہوجاتاہے۔ جتنا درد کا سرتال بجتا ہے اتنا ہی اپنے اردگر یار کی نگاہ کے اشارے کو پاکر ہر ہر شے، ہر معاملے میں عاشق اپنے آپ کو مٹاتا ہے۔ اور یہی اس کا ناچناہے۔ رقص مزا کرتا ہے تو عاشق مست ناچتا جاتا ہے کہ یار مسکراد ے .....عاشق یار کے نام کے گھنگرو پہن لیتا ہے.... اور اتاردیتا ہے ہر فانی چاہ کی زنجیر کو...اپنے پاﺅں سے چاہتوں کی بیڑیاں..... اور اپنے گلے سے خواہشوں کے طوق کو اتار کر.... دل کے پردے گرانے کے لیے.... یار کی حقیقت کی چاہ میں عاشق ناچتا ہے۔ پھر کوئی اور سرتال عاشق کو مزہ نہیں دیتا۔ اس کا اندر ویسے ناچتا جاتا ہے..... جیسے یار نچائے... عاشق کبھی اپنا آپ لٹا تا ہے..... کبھی عشق میں مرتا جاتا ہے ...کسی لمحے میں زندہ ہوکے بھی مرکر...اور ....کبھی مرے ہوئے ہوکے بھی زندہ رہ کے.....عاشق بس ناچتا جاتا ہے اور ناچتا جاتا ہے.... اور ناچتا جاتا ہے.... اور ناچتا جاتا ہے..... اس کا دل کہتا جاتا ہے کہ بس مینوں تیرے عشق نچایا........ مینوں تیرے عشق نچایا.......مینوں تیرے عشق نچایا.......مینوں تیرے عشق نچایا.......
...مینوں تیرے عشق نچایا....


عشق سلامت