طنزوتمسخر

قرآن پاک میں اللہ کا فرمان ہے
”ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا ،ممکن ہے کہ وہی عورتیں مذاق اڑانے والی عورتوں سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو“
اللہ ہمیں قرآن کے احکامات پر عمل کی توفیق دے ۔ آمین
﴿
حضرت امام غزالیؒ نے لکھا کہ جو لوگ دنیا میں لوگوں پر ہنستے ہیں قیامت میں ان پر بھی ہنسی ہو گی ۔وہ یوں کہ ایک دروازہ جنت کا کھول دیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ یہاں آﺅ ۔مصیبت کے مارے جب دروازے کے قریب پہنچیں گے تو وہ بند کر دیا جائے گا۔ اور دوسری طرف بلایا جائے گا۔جب وہاں پہنچیں گے تو پھر وہی حال ہو گا۔ اور ایسا ہی باربار ہو تا رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ تھک جائیں گے اور بلانے پر پھر نہیں جائیں گے۔
اللہ اس عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین
﴿
” آدمی کے بُرا ہونے کے لیے اتنا ہی کا فی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔“
اللہ ہمیں مسلمانوں کو طنزوتمسخر کر نے سے اپنی پناہ عطا فرمادے۔ آمین
﴿
طنز و تمسخر کا اظہار ہم تب ہی کر تے ہیں جب ہم اگلے شخص کو ہر لحاظ سے اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اس کے بدلے میں ہمارے سامنے زبان نہیں کھولے گا۔
ذرا سوچیئے ...!کیا یہ ہماری کم ظرفی اور گھٹیا پن نہیں ہے؟
﴿
جب ہم جانتے ہیں کہ طنز وتمسخر اور تحقیر کرنا اللہ اور پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کا پسندیدہ نہیں ہے۔
تو پھر ہمارے اندر کا وہ کون سا احساس ہے جو ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر تا ہے؟
اس منفی احساس کو پہچان کر اپنے اندر سے باہر نکال پھینکیں تا کہ ہم ایسے کسی بھی ناپسندیدہ عمل کے مرتکب نہ ہوں۔
﴿
ذرا سوچیے کہ اللہ اپنے جس بندے سے ستر ماﺅں سے زیادہ پیار کر تا ہے ہم اس کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ عزت دینا اور ذِلت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم کسی کو نیچا دِکھا کر صرف اپنے گھٹیا پن کا ثبوت دیتے ہیں۔ہماری ہر خوبی اللہ کی عطا کر دہ ہے اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔
اللہ عیبوں کی پردہ پوشی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر ہمارا کسی کے عیب یا خامی پر ہنسنا کیوں....؟
﴿
ہنسی مذاق صرف اس صورت میں جائز ہو تا ہے کہ جب ہماری باتیں یا اشارے کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں بلکہ اگلے کا دل خوش کر دیں۔
اے اللہ ہمیں کسی کی دِل آزاری کی ہمت نہ دینا۔ (آمین)
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا:”میں مذاق کر تا ہوں لیکن حق کے سِوا کچھ نہیں کہتا“۔
جیسا کہ ایک بار کسی نے آپ سے اونٹ مانگا ۔ آپ نے فرمایا تجھے اونٹ کا بچہ دیا جائے گا۔ اس کہا مجھے اونٹ کے بچے سے کیا کام وہ تو مجھے گِرا دے گا ۔تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ہر اونٹ دوسرے اونٹ کا بچہ ہو تا ہے خواہ کتنابھی بڑا ہو جائے۔
اس مذاق میں ایک لطیف احساس ہے جس سے کسی کی دل آزاری کی گنجائش نہیں۔
سوچیئے....!!! کیا ہماری حسںِ مزاح بھی ایسی ہی ہے؟
﴿
کسی سے بھی ہنسی مذاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ساتھ کئے گئے ہنسی مذاق کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
اللہ ہم سب کو جائز مذاق کا شعور عطا فرمائے۔ (آمین)
﴿
جائزمذاق جوپیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام سے ثابت ہے۔ اس میں نہ کسی کی دِل آزاری ہو نہ کوئی جھوٹی یا خلاف واقعہ بات زبان سے نکلے اور نہ ہی یہ ہماری عادت بن جائے۔ بلکہ کبھی کبھی اتفاقاََ ہو جائے۔ تمسخر حرام ہے
اس میں کسی کی دل آزاری ہو تی ہے۔ اور جھوٹ شامل ہو تا ہے۔
خود کو چیک کریں.....! ہم مذاق کر تے ہیں یا تمسخر....؟
﴿
کسی شخص کے حالات و معاملات یااس کی گفتگو کی وجہ سے اس پر طنز کر تے ہوئے اس کی ہنسی اڑ انا طنز وتمسخر کہلاتا ہے۔
اللہ ہمیں اس بُری عادت سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین
﴿
جس شخص کے بارے میں کسی بھی قسم کی طنزیہ بات کا اظہار کیا جا رہا ہو چاہے وہ سامنے موجود ہو یا نہ ہو طنز ہی کہلائے گا۔
اللہ ہمیں اس برائی سے محفوظ رکھے۔ آمین
﴿
بات کر تے ہوئے ایسے الفاظ کا استعمال جو بات کے اصل مطلب کی بجائے الٹ مطلب کو سامنے لائے وہ طنز ہے۔ طنز کرنے والا حالانکہ اصل بات کے بالکل الٹ الفاظ استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہاں موجود لوگ بات کے اندر چھپے ہوئے مطلب کو اچھی طرح جان گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ طنز کرنے سے باز نہیں رہتا۔
سوچیئے!کیا ہم بھی دانستہ یا عادتاََ طنز کر نے والوں میں تو شامل نہیں ہیں؟
﴿
طنز کے لیے الفاظ ہی ضروری نہیں ہو تے بلکہ ہم اشاروں کنایوں اور حرکات و سکنات سے بھی اس کا اظہار کر تے ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کہ طنز کا اظہار حقیقت پر مبنی الفاظ اور اشاروں سے ہوتا ہے۔اللہ ہمارے دلوں میں طنز کے اصل احساس کو اجاگر کر دے۔ (آمین