ضِد

ہماری کسی بھی طرح کی ضد دراصل ہماری انا کا اظہار ہے۔اپنی کسی چاہت کو پتھر پہ لکیر سمجھنا یا کسی بھی معاملے میں اپنے موقف پر اڑ جانا ہم اپنی شان سمجھتے ہیں۔ہمیں نہ تو اس وقت اللہ کے بندوں کو ہماری اس ضد کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف یا نقصان کا احساس ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ہمارے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس ضد کی وجہ سے اللہ اور ہمارے تعلق پر کیا فرق پڑتا ہے۔
ذراسوچیے.
﴿
ضد کرتے وقت نہ تو ہمیں اپنے اچھے برے کا فرق یاد رہتا ہے۔ اور نہ ہی ہم اس وقت اللہ کی مرضی کو فوقیت دینا اہم سمجھتے ہیں۔ہمیں ہماری انا اور ذات اس وقت ضد کر کے وہ حاصل کرنے کی طرف راغب کرتی ہے جس کے انجام سے ہم خود بھی بے خبر ہوتے ہیں۔
﴿
ہمارے اندر اپنی پسند کو ترجیح دینا ، اپنی مرضی کو مقدم سمجھنا ،اور اپنی چاہت کے درست ہونے پہ اکڑ جانا بھی ضد کہلاتا ہے۔
ضرور سوچیے
﴿
جب بھی ہم چھوٹی بڑی کسی حاجت کے لیے اللہ کے سامنے دعا میں پیش ہوتے ہیںتو ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سامنے اپنی حاجت رکھ دیں اور اسی پہ چھوڑ دیں کہ وہ اس حاجت کو جیسے اور جب چاہے پورا فرمائے۔مگر ہم عام طور پر ایسا نہیں کرتے بلکہ ہم دعا میں بھی الفاظ کو ضد کی صورت بنا کے اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ دعا میں پیش کی گئی ہماری حاجت بھی ہماری چاہت اور مرضی کے مطابق پوری ہو ۔اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ سے زیادہ اپنے پہ یقین ہوتا ہے ۔
ذرا سوچیئے کیا ہمیں ایسی ضد کرنا زیب دیتا ہے؟
﴿
ہم نے اللہ کے حکم کے تابع رہ کر ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔مگر زندگی کے معاملات میں اللہ کے حکم کے بجائے جب ہم اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں۔ معاملات کو اپنی مرضی سے ڈھالنے، بدلنے یا اپنی پسند کا رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ایک طرح سے اللہ کے فیصلے میں دخل اندازی کرنا اور اللہ کے فیصلے سے پہلو تہی کرنا ہے۔جب ہم ہرطرح سے زور آزمائی کرتے ہوئے اپنے تمام اسباب بروئے کار لا کر معاملات کو اپنی ضد کے مطابق ڈھال کر بعد میں اپنی اسی ضد کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں تو تب بھی اپنی غلطی ماننے کے بجائے اللہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سراسر ہماری اپنی ضد کا نتیجہ ہوتا ہے۔
سوچیے...!! کیا ہم بھی ایسا کرنے والوں میں تو شامل نہیں؟
﴿
ہمیں علم ہے کہ ہماری اپنی زندگی میں جو اچھا ہوتا ہے وہ اللہ کی مہربانی اور کرم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور جو نقصان ہم اٹھاتے ہیں وہ ہمارے اپنے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔اللہ کی مرضی مان لینا ہمیں ہمیشہ فلاح کے رستے پہ آگے بڑھاتا ہے۔اس کے باوجود نہ ہم اللہ کی مانتے ہیں اور نہ ضد سے باز آتے ہیں۔اور یوں نہ صرف دنیا میں نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ آخرت کے لیے بھی خسارے کا سود اکر لیتے ہیں۔اللہ ہمیں اپنی ضد سے نجات دے اور دنیا و آخرت کے نقصان سے بچائے۔آمین
﴾﴿