توکل

توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے کام کو اللہ کے حوالے کردو اور قلب کو مطمئن رکھو۔ غیر اللہ کی طرف التفات بھی نہ کرو۔
توکل کے معنی یہ نہیں کہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اسباب وآلات کو چھوڑ دیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اسباب اختیار کریں ۔مگر بھروسہ اسباب پر کرنے کی بجائے اللہ پر کریں کہ جب تک اس کی حشیت وارادہ نہ ہو کوئی کام نہیں ہو سکتا۔اللہ ہمیں صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنے کی سمجھ عطا فرما دے۔ آمین
﴿
توکل کے متعلق اللہ فرماتے ہیں۔
” اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کر تا ہے“ یعنی جو شخص اللہ پر توکل اور بھروسہ کرے گا۔ اللہ اس کی مہمات کے لیے کافی ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے کام کو جس طرح چاہے پورا کر کے رہتا ہے۔توکل اسلام و ایمان کے بلند اعمال و احوال میں سے ہے ۔جس شخص کا توکل خدائے پاک کے ساتھ جس قدر زیادہ ہو گا اسی قدر وہ تقرب کے مقام پر فائز ہو گا۔
اللہ ہمیں توکل کی دولت عطا کر کے اپنا قرب عطافر مادے۔ آمین
﴿
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام کی خدمت میں آیا اور پوچھااونٹ باندھ دوں اور پھر توکل کروں؟ یا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا باندھ دو اور پھر توکل کرو۔ مطلب یہ کہ اسباب کو اختیار کرے پھر اللہ پر بھروسہ کرے۔
ایسا کرنادرست نہیں کہ نہ دکان کھولے نہ ملازمت کرے ۔پھر مال اور نفع کی امید رکھے۔ اللہ نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے ۔اور ہم کو ان اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ ہمیں توکل کرنے والوں میں شامل فرما دے۔ آمین
﴿
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
میری امت کے ستر ہزار لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ ہوں گے جو تعویذ گنڈے اور فا ل میں نہ پڑیں گے اور اپنے رب پر بھروسہ کر تے ہوں گے“۔یعنی جو محض اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں تو وہ کمال یقین و اعتماد کے ایسے مر تبے پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ظاہری اسباب سے بھی منقطع ہو جا تے ہیں۔ اور اسی حالت میں ان کو سکون میسر ہو تا ہے۔
اللہ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل کر دے۔آمین
﴿
القرآن سورة توبہ آیت 129میں اللہ کا فرمان ہے
مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہوں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
اپنی زندگی کاہر دن اس دُعا کے احساس میں گزارنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ ہمیں کامیاب کرے آمین
﴿
آدمی زبان سے تو کہے لا الہ اِلا اللہ(نہیں ہے کوئی تیرے سوا) لیکن دِل سے اس پر اعتماد اور یقین نہ رکھے تو یہ منافقوں کا توکل اور توحید ہے۔ اللہ نے تمام مسلمانوں کو توکل کا حکم دیا ہے اور اِسے شرطِ ایمان قرار دیا ہے۔
ذرا سوچیئے.... !کیا ہم ایمان کی اس شرط پر پورا اتر تے ہیں۔
﴿
”پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا اگر تم لوگ اللہ پر توکل رکھو جیسا کہ توکل رکھنے کا حق ہے تو اللہ تمہیں اس طرح روزی پہنچا ئے گا جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے جو صبح بھوکے ہو تے ہیں اور شام کو سیر ہو کر آ تے ہیں“
اللہ ہم سب کو ایسا ہی توکل کرنے کی توفیق عطا کر دے۔ آمین
﴿
توکل کے تین درجات ہیں۔
توکل کرنے والے کا حال ایسا ہو جائے جو جھگڑے میں ایک چالاک وکیل اور رہنما مقرر کر تا ہے اور اس پر مطمئن رہتا ہے ۔
متوکل کا حال بچے کی طرح ہو تا ہے ۔ جو ہر آفت میں اپنی ماں کے سِوا کِسی اور کو نہیں پکارتا پنا ہ کے لیے۔
متوکل کا حال ایسا ہو جیسے غسال کے سامنے مر دے کا ہو تا ہے۔
توکل کے ان تین درجات کے حوالے سے اپنا جائزہ لیں کیا ہم متوکلین میں شامل ہیں۔
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
” جوشخص اللہ کی پناہ چاہتا ہے۔ اللہ اس کے سب کاموں کی نگرانی کر تا ہے۔ اس کے لیے کافی ہو جا تا ہے اور ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو تا اور جو شخص دنیا کی پناہ لیتا ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
اللہ ہمیں سچا متوکل بنائے تا کہ ہمیں اصل سکون حاصل ہو۔ آمین
﴿
اللہ کی محبت سے جڑے ہوئے لوگوں میں سب سے بلند درجہ متوکل کا ہو تا ہے۔ اور جس کو اللہ مدد کے لیے کا فی ہو تو اس کا کیا ہی بلند مقام ہے۔ اللہ نے جس پر اپنی محبت ، عافیت، اور نگہبانی کا احسان عظیم فر ما دیا اسے کامیابی حاصل ہوئی۔
اللہ ہمیں بھی ایسا متوکل بنائے کہ دین و دنیا کی کامیابیاں نصیب ہوں۔ آمین
﴿
توکل یہ نہیں کہ بندہ سب کاموں کو اللہ پر چھوڑ دے کہ جیسے اپنے اختیار سے کچھ محنت ہی نہ کرے۔ سانپ ، بچھو اور شیر سے نہ بچے۔ بیمار ہو تو علاج نہ کرے ۔یہ سب غلط ہے اور یہ توکل نہیں ہے۔
اللہ ہمیں اپنے فضل و رحمت اور کمال قدرت پر ایمان اور یقین عطا فرمائے ۔ آمین
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
” اللہ بندوں کو مصیبت سے اس طرح آزماتے ہیں جیسے سونے کو آگ سے۔ پھر کوئی سونا خالِص نکلتا ہے اور کوئی خراب۔ اللہ کسی کو بھی محروم نہیں رکھتا اپنی رحمت سے“
اللہ ہمیں ہر آزمائش میں اپنے بہترین یقین کے ساتھ سرخرو کرے تاکہ بہترین توکل قائم ہو۔ آمین
﴿
توکل کی بہت بڑی مثال حضرت ابراہیمؑ نے قائم کی ۔جب کفار نے انہیں آگ میں ڈالنا چاہا تو حضرت جبرائیل ؑ نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا کہ آپ کی کوئی حاجت؟
آپؑ نے فرمایا”کچھ نہیں اللہ ہی مجھے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے“
اللہ! آج کے اِس مشکل دور کی آزمائشوں میںہمیں بہترین توکل کرنے والا بنا دے۔ آمین
﴿
دنیا کے مسائل اور مشکلات میں بھی انسان کے دل کا رابطہ اللہ کے ساتھ اتنا مضبوط ہو کہ ظاہری کاموں اور اسباب میں خلل پڑنے کی وجہ سے بھی آدمی کا دِل کمزور نہ پڑے بلکہ ہر حال میں اللہ پر ہی بھروسہ رکھے۔توکل کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمام کاموں میں اللہ پر مکمل اعتماد کرنا ۔
اللہ ہم سب کو اپنے خزانوں کا محتاج بنائے تاکہ ہم کسی اور طرف نہ دیکھیں۔آمین
﴿
توکل: یعنی دِل کی وہ حالت جو ایمان کو مکمل کر تی ہے۔ دو باتوں پر ایمان لانا توکل ہے۔
۔نعمت اس شخص کو نہ ملی ہو تی
۔یا اب اس کے پاس نہ رہے
اللہ ہمیں توکل کے اصل معنی سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔آمین)
﴾﴿