تعریف

اگر کوئی ہماری تعریف کرے تو اس کے نقصانات سے بچنے کے لیے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر یہ شخص میرے ان اعمال اور سوچوں سے واقف ہو جائے جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے تو یہ کبھی میری تعریف نہ کرتا۔اس سے ہمارے دل میں شرمندگی آئے گی اور اللہ سے محبت کا احساس بڑھے گا کہ جو ہمارے عیبوں کو چھپا کر لوگوں کی نظر میں ہمیں قابل ِ تعریف بنا دیتا ہے۔
حضرت علی ؓ کی لوگوں نے تعریف کی تو آپ ؓ نے عرض کیا
اے اللہ ...! یہ لوگ جو کہتے ہیں اس کے سبب میری پوچھ نہ کرنا۔ اور جو نہیں جانتے اسے بخش دینا اور مجھے اس سے بہتر کر دے جو یہ سمجھتے ہیں۔
اللہ ہمیں بھی یہی دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین)
﴿
زیادہ تر ہم اپنی تعریف سن کر تکبر میں آ جاتے ہیں۔ خود کو دوسروں کی نسبت بہتر سمجھنے لگ جاتے ہیں اور خود کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کم کر دیتے ہیں ۔
پیارے آقا ئے دو جہاںﷺکا فرمان ہے کہ چھری لے کر کسی کے سامنے جانا اس سے بہتر ہے کہ منہ پر تعریف کی جائے
لیکن جہاں یہ نقصان نہ ہو عاجزی رکھنے والا سچا مومن ہو تو وہاں تعریف درست ہے ۔
پیارے آقائے دو جہاں ﷺ نے بہت بار صحابہ کرام ؓ کی تعریف فرمائی اور ایک بار حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا سب لوگوں کے ایمان کا حضرت ابو بکر ؓ کے ایمان سے مقابلہ کیا جائے تو ابو بکر ؓ کا پلڑابھاری ہو گا
﴿
خیال رہے کہ ہم جس کی تعریف کر رہے ہیں وہ ظالم نہ ہو کیوں کہ ظالم تعریف پہ خوش ہوتا ہے جبکہ ظالم کو خوش کرنا درست نہیں۔
پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کا فرمان ہے کہ لوگ جب ظالم کی تعریف کرتے ہیں تو اللہ کو ان پر غصہ آتا ہے
اللہ ہمیں ظالم کے ظلم سے اور ظالم بننے سے اپنی پناہ عطا فرمائے ۔آمین
﴿
ایک شخص نے پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کے سامنے کسی کی تعریف کی ، آپ ﷺ نے فرمایا
افسوس کہ تم نے اس کی گردن مروڑ دی پھر فرمایا
کسی کی ضروری تعریف کرنی ہو تو اس طرح کرنی چاہیے کہ میرا علم یہ ہے آگے اللہ بہتر جانتا ہے۔
زندگی کے ہر معاملے کے لیے کتنے پیار سے ہمارے پیارے آقائے دو جہاں ﷺ نے ہمیں سمجھایا ہے ۔
اللہ ہمیں ایسا ہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
﴿
جب بھی ہم کسی کی بے جا تعریف کرتے ہیں تو ہم ایسی باتیں بھی اس کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں جن کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ حقیقت میں یہ شخص ایسا ہے بھی کہ نہیں۔اور ایسا کہہ کے ہم سے جھوٹ جیسا گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔
اس بارے میں ضرور سوچیے...!
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
لوگوں کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لینے والا قیامت کے دن اتنا زبان دراز ہو گا کہ اس کی زبان زمین پر گھسٹتی ہو گی اور اس کا پاﺅں اس پر پڑ تا ہو گا اور وہ بار بار گر تا ہو گا۔
اللہ ہمیں اس مصیبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا

لوگ جب ظالم کی تعریف کر تے ہیں تو اللہ کو ان پر غصہ آ تا ہے۔
کسی کی تعریف کرنے سے پہلے خیال رکھیے گا کہ کہیں وہ ظالم تو نہیں ہے۔
﴾﴿