منافقت

حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ
چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے۔اور جس میں ان چاروں میں سے ایک بات ہو گی تو بھی اس میں ایک بات نفاق کی ضرور ہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ دے۔وہ چار باتیں یہ ہیں۔
جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔
جب لڑے تو بےہودہ گوئی کرے۔(صحیح بخاری و مسلم
اللہ ہمیں منافقوں میں شامل ہونے سے بچائے۔آمین
﴿
جب ہمارا ظاہر کا عمل اور باطن کی نیت ایک نہ ہو تو وہ منافقت کہلاتی ہے۔یعنی منافقت ظاہر اور باطن کے درمیان فرق یا ان کے ایک نہ ہونے کا نام ہے۔
ذرا سوچیے...! کہیں ہمارے ظاہر اور باطن میں بھی فرق تو موجود نہیں؟
﴿
منافق شخص کا ہر عمل ناخالص ہوتا ہے۔اس میں صرف اور صرف دکھاوا یا مطلب وابستہ ہوتا ہے اور وہ عمل کرتے ہوئے اسے اور کوئی سر و کار نہیں ہوتا۔
اللہ ہمیں خالص عمل کی توفیق عطا کرےآمین
﴿
منافق شخص سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہے مگر اصل میں تو وہ خود کو دھوکہ دیتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان خود اٹھاتا ہے۔کیوں کہ منافقت کرنے والے کو نہ تو دنیا والے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے عمل کے نا خالص پن کی وجہ سے اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنا سکتا ہے۔تو اس لیے بہت احتیاط کریں۔
﴿
اپنا جائزہ لیں جب ہمیں اپنے رویوں اور عمل کے ظاہر اور باطن کے فرق کا احساس ہو جائے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ اسے خالص کرتے ہیں یا نہیں؟
ضرور سوچیے
﴾﴿