احساسِ برتری

خودکو دوسروں سے بہتر و برتر سمجھنے کے بے جا احساس کو احساس ِ برتری کہتے ہیں۔اور چاہے ہم زبان سے کہیں یا نہ کہیں ہمارے انداز ، طرز ِ زندگی خود بخود ہمارے اندرموجود احساس ِ برتری کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔احساس ِ برتری ہمیں دوسروں کو خود سے کمتر دکھاتا ہے اور خود کو اعلیٰ و برتر سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔
اللہ ہمیں احساسِ برتری سے بچائے۔آمین
﴿
ہمارے اندر موجود احساس ِ برتری کی وجہ سے ہم خو د کو خود ہی سب سے الگ اور منفرد سمجھنے لگتے ہیں۔اسی وجہ سے ہم ہر جگہ اپنی ذات کو اہم اور نمایاں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اپنا آپ منوانے کی چاہت کے پیچھے ہمارا احساس ِ برتری ہی ہوتا ہے۔اپنے اسی احساس ِ برتری کی وجہ سے ہم خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھتے بھی ہیں اور یہی بات دوسروں پر مختلف طرح سے ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں۔احساس ِ برتری ہمیں اپنے علاوہ کسی کو نہ اہمیت دینے دیتا ہے اور نہ ہی ہم دوسروں کی حیثیت کو ماننے کو تیار ہوتے ہیں۔
اپنا جائزہ لیں ۔کیا ہم بھی ایسا ہی تو نہیں کر رہے؟
﴿
احساس ِ برتری کی وجہ سے ہم اپنے خاندان، حسب و نسب ، دنیاوی مرتبہ ، دولت، معیار ِ زندگی وغیرہ کو دوسروں سے بہتر جانتے ہوئے اس پر بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے فخر کرنے لگتے ہیںتو ہمارے اندر ان سب کی وجہ سے احساس ِ برتری پیدا ہو جاتا ہے۔جس کا اظہار لمحہ لمحہ ہمارے ہر انداز سے ہوتا ہے۔ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جن چیزوں کی وجہ سے احساس ِ برتری کا شکار ہیں وہ نہ تو ہمارا حق ہیں اور نہ ہی ہمارے کسی عمل کا نتیجہ ہیں بلکہ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں نواز رکھا ہے۔اللہ چاہے تو اس سب کو ہمیں دینے کی بجائے کسی اور کو دے دیتا اور اگر وہ ایسا کرتا تو ہمارا کوئی بس یا اختیار نہیں تھا۔اور اگر اللہ اب بھی چاہے تو یہ سب ہم سے لے کر کسی اور کو دے سکتا ہے۔ضرور سوچیے...!
﴿
ہم دنیا میں ملی ہوئی حیثیت ،مرتبے اور بہتر معیار ِ زندگی کی وجہ سے احساس ِ برتری میں مبتلا ہوتے ہیں جب کہ یہ سب کچھ تو ہمیں آزمائش کے طور پر دیا گےا ہوتا ہے۔جب ہم اس کو آزمائش کے بجائے اپنا حق اور ملکیت سمجھ بیٹھتے ہیں تو ہمارے اندر احساسِ برتری پیدا ہو جاتی ہے۔
اپنا جائزہ لیں!کہیں ہم بھی اس سب کو اپنا حق اور ملکیت تو نہیں سمجھتے؟
﴿
اپنی ذاتی صلاحیتیں ، ہنر، سلیقہ بھی ہمارے احساسِ برتری کا باعث بنتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں یہ سب کچھ ہماری محنت کی وجہ سے ملا ہوا ہے۔جبکہ ان خوبیوں کا ملنا ، ان کے استعمال کی صلاحیت اور ان کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی بھی ہمارے لیے اللہ کا کرم ہی ہوتی ہے۔ہم دوسروں سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو دوسروں سے قابل سمجھتے اور احساسِ برتری میں آ جاتے ہیں۔یہ نہیں سوچتے کہ اس میں ہمارا کیا کمال ہے۔
﴿
احساس ِ برتری میں مبتلا شخص جہاں بھی موجود ہوگا اس کے حرکات و سکنات سے برتری کا احساس ہوتا ہے۔اس کا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا، میل ملاپ، مشاغل، ظاہری رکھ رکھاﺅ، تعلقات ، نمود و نمائش سے اس کے اندر کااحساس ِ برتری جھلکتا ہے۔وہ ایک طرف اپنی برتری کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف دوسروں کو نہ صرف اندر ہی اندر کمتر اور حقیر سمجھتا ہے بلکہ مختلف طرح سے اس کا اظہار کر کے دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔
غور کریں کہ کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے؟
﴿
احساس ِ برتری کی وجہ سے ہم اپنی ہی ذات کے پجاری بن کر اللہ سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔جب ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم تو احساس ِ برتری کا شکار ہیںتو ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو اندر سے جھکائیں ۔یہ احساس رکھ کر کہ ہم اللہ کے عاجز بندے ہیں اور ہماری کوئی اوقات نہیں ۔یہ اللہ ہی ہے جس نے ہمیں نواز رکھا ہے ورنہ ہمارا اپنا کچھ نہیں ۔ہمیں جو ملا ہوا ہے وہ ہماری آزمائش ہے کہ ہم کس طرح عاجزی میں رہ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سب کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔جب ہم ایسے شکر کے احساس میں رہتے ہیں تو احساس ِ برتری پیدا نہیں ہوتا ہے۔ جھک کر عاجزی میں جانا احساس ِ برتری کو کم کرنے میں مدد کرتاہے۔
اللہ ہمیں احساس ِ برتری سے نجات دے۔آمین
﴾﴿