تکبر

اگر ہم خود پر ذرا غور کریں.... کہ ہماری اس دنیا میں پیدائش کا آغاز ایک گندہ قطرہ اور ہماری آ خرمٹی میں ملی ہوئی چند بوسیدہ ہڈیاں ہیں۔ اور اس درمیان کے عرصے میں جسم سے جو کچھ خارج ہو تا ہے وہ کتنا گندہ اور گھٹیا ہو تا ہے تو ہم کبھی تکبر نہ کریں۔
ٍٍ مگر افسوس..... !!!
کہ ہم تفکر نہیں کر تے۔ اسی لیے ہمیں اپنی اوقات بھول جا تی ہے۔ اورہم تکبر کا شکارہوجا تے ہیں۔
﴿
”مال و دولت کا تکبر“
دنیا کے مال و دولت کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی کا احساس ہو نا اور لوگوں کے ساتھ معاملات اور باتوں میں اس مال و دولت کا ذکر فخر یہ کرنا، تکبر کی علامتیں ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا:
”کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے ۔اگر ہے تو صرف تقویٰ (پرہیزگاری) کی بنیاد پر “
اللہ ہمارے دلوں میں مال و دولت کے تکبر سے زیادہ تقویٰ کی فضیلت کا احساس ڈال دے۔ (آمین)
﴿
”حسن و جمال کا تکبر “
یہ تکبر ہمارے اندر تب آتا ہے جب ہم کسی شخص کے جسمانی اعضاءرنگت، لباس یا چال ڈھال کے مقابلے میں خود کو بہتر سمجھتے ہیں۔
پیارے آقائے دو جہاںﷺنے فرمایا:
”ایک شخص ناز و نخرے سے چل رہا تھا۔ اس نے خوبصورت لباس پہن رکھا تھا ۔اور وہ اپنے آپ کو غرور سے دیکھتا تھا۔ اللہ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا ۔وہ اب تک دھنستا چلا جا رہا ہے اور قیامت تک اس کی یہی صورت رہے گی“
اپنا جائزہ لیں...! کہیں ہم بھی تو ایسا ہی نہیں کر رہے ہیں؟
﴿
”عبادت کا تکبر “
پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا کہ:
” بعض لوگ ایسے ہیں کہ قرآن کی تلاوت تو بہت کر تے ہیں لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے بھی نہیں اتر تا ۔اور دعویٰ ان کا یہ ہو تا ہے کہ کون ہے جو ہماری طرح تلاوت کر سکتا ہے۔ اور ہے کوئی جو ان باتوں کو جانے جنہیں ہم جا نتے ہیں۔ یہ لوگ تم میں سے ہی ہوں گے یعنی میرے امتی ہوں گے ۔لیکن جو کوئی بھی ہوں گے بہر حال دوزخی ہو ں گے“۔
اللہ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل ہونے سے بچالے ۔ آمین
﴿
بنی اسرائیل میں دو شخص تھے۔ ایک بہت بڑا عابد (عبادت گزار) اور ایک بہت بڑا فاسق (گنہگار)۔ ایک بار عابد کے سر پر بادل کے ایک ٹکڑے نے سایہ کیا تو فاسق بھی اس کے ساتھ جا بیٹھا کہ شاید اللہ اس کی برکت سے مجھ پر بھی رحم کر دے۔عابد کو اس کا پاس بیٹھنااچھانہ لگا۔ اور اس نے منہ بنا لیاتو فاسق اٹھ کر چل پڑا ۔ بادل کا ٹکڑا بھی فاسق کے ساتھ چل پڑا۔ اس دور کے رسول پر وحی آئی کہ فاسق کے گناہ اس کے ایمان کے سبب بخش دیے گئے ۔اور عابد کی عبادت اس کے تکبر کے سبب چھین لی گئی۔ ایسے تکبر سے بچئے۔
﴿
”علم کاتکبر “
اصل علم وہ ہے جو انسان کو اللہ کی عظمت اور بڑائی سے آشنا کر ے۔ لیکن اگر کسی شخص کے اندر علم کی وجہ سے ہی اپنی بڑائی کا احساس پیدا ہو اوروہ دوسروں کو کمتر سمجھے تو یہ علم کا تکبر کہلائے گا۔
اللہ ہمیں علم کے تکبر کی پہچان عطا کرے تاکہ ہم اس تکبر سے خود کو بچا سکیں۔ آمین
﴿
اللہ فرما تے ہیں کہ تکبر کرنے والوں کا بہت برا ٹھکانہ ہے اور دوزخ میں اس قسم کے آتشیں صندوق ہیں جن میں متکبرین کو بند کیا جائے گا۔
اللہ اس ہیبت ناک برائی سے بچا ئے۔ آمین
﴿
حضرت عبد اللہ بن سلامؓ ایک بار بازار سے گزرے۔ ان کے سر پر لکڑیوں کا گٹھا تھا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ یہ کیوں اٹھا رکھا ہے؟جب کہ اللہ نے آپؓ کومستغنیٰ کر دیا ہے۔ فرمایا میںنے چاہا کہ اپنے آپ سے تکبر دور کر دوں۔
اللہ ہمیں بھی اپنے اند رسے تکبر ڈھونڈ کر اسے دور کرنے کی توفیق عطا کر دے۔
(آمین)
﴿
٭ تکبر یہ بھی ہے کہ حق بات کو قبول نہ کر نا اور خود کو سب سے بہتر خیال کرنا۔ یہ وہ گناہ ہے جس نے سب سے پہلے شیطان کو تباہ کیا۔ اس گناہ سے نعمتوں کے چھن جانے کا اندیشہ ہو تا ہے۔
اللہ ہمیں اس گناہ سے بچائے رکھے آمین
﴿
اللہ تعا لیٰ نے قرآن میں فرمایا
” اور زمین میں اِتراتے ہوئے نہ چلو۔ تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندی کو پہنچو گے۔ بنی اسرائیل
اللہ ہمیں زمین پر اکڑ کر چلنے سے بچائے اور عاجزی عطا فرما دے۔ آمین
﴿
پیارے آقائے دو جہاںﷺ کے سامنے دو شخص اپنے خاندان کا ذکر بہت فخریہ انداز سے کر رہے تھے اور جھگڑ رہے تھے ۔
آپﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے بھی دو آدمیوں نے ایسا ہی جھگڑا کیا کہ میں فلاں ابن فلاںہوں اورنوپشتوں کا ذکر کیا۔ اس وقت اللہ نے وحی بھیجی کہ اس متکبر سے کہہ دو کہ جن پشتوں کا تم ذکر کر رہے ہو وہ دوزخ میں سٹر رہے ہیں۔
ؒؒ اللہ ہمیںحسب نسب پر تکبر کرنے سے بچائے۔آمین
﴿
دین یا دنیا کے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو بہتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنا تکبر کہلا تا ہے۔ تکبر اللہ کو سخت نا پسند ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔
اللہ ہمیں تکبر کے گناہ سے بچائے رکھے ۔ آمین
﴾﴿