دنیا

حضرت ابنِ عباس ؓ فرما تے ہیں کہ اللہ نے دنیا کے تین حصے کئے ہیں۔
ایک حصہ مومن کے لیے۔
ایک حصہ منافق کے لیے۔
ایک حصہ کافر کے لیے۔
مومن یہاں سے آخرت کا زادِ راہ لیتا ہے۔ منافق یہاں زیب و زینت کر تا ہے۔ کافریہاں کا نفع حاصل کر تا ہے اور دنیا کے مزے لوٹتا ہے۔
خود کو چیک کریں کہ ہم یہاں اس دنیا میں کیا حاصل کر رہے ہیں؟
﴿
جب ہمارا تھوڑا سا بھی دنیا کا نقصان ہو تا ہے تو ہم غمگین ہو جاتے ہیں اور اس کا اثر ہمارے چہروں اور باتوں میں نظر آ تا ہے۔
کیا دین کے نقصان سے بھی ہم غمگین ہو تے ہیں اور ہماری باتوں اور چہروں سے محسوس ہو تا ہے؟
﴿
حضرت جبرائیل ؑ نے حضرت نوح ؑ سے پوچھا کہ اتنی لمبی عمر آپ کو نصیب ہوئی تو آپ نے دنیا کو کیسا پایا؟
فرمایا اس مکان کی طرح جس کے د و دروازے ہیں۔آدمی ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔
حضرت نوح ؑ کی عمر تقریباََ ایک ہزار سال کے قریب تھی۔اور ان کے لیئے اتنی لمبی عمر بھی نہایت قلیل تھی ۔یعنی یہاں قیام انتہائی مختصر ہے جسے ہم مستقل سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا کے فانی ہونے کا سچا احساس عطا فرما دے۔ آمین
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام فرما تے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے کہ اس نے جو کچھ بھی پیدا کیا اس میں ذلیل ترین چیز دنیا ہے۔ جو اس کی دشمن ہے ۔ یہاں تک کہ جب سے اس نے دنیا کو پیدا کیا اس کی طرف دیکھنا تک پسند نہیں کیا۔
سوچیں....!اگر ہماری ہر سوچ و عمل اور کوشش صرف دنیا اور دنیا والوں کے لیے ہو تو اللہ ہماری طرف دیکھنا پسند کرے گا؟
آئندہ کوشش کریں گے کہ ہر سوچ ، ہر عمل، اور کوشش صرف اور صر ف اللہ کی رضا اور خوشی کے لیے ہو۔ اللہ ہماری کوشش میں ہمیں کامیاب کرے۔ آمین
﴿
دنیا حق کی راہ میں دشمن کی طرح ہے۔ اس سے بڑھ کر اور گھٹیا چیز کیا ہو گی جو بندے کا اللہ کے قرب کی جانب سفر مشکل کر دیتی ہے ۔ حق کی راہ کے مسافر کو یہ ایسے لوٹتی ہے جیسے کسی راہگیر کو ڈاکو راستے میں ہی لوٹ لیں اور وہ خالی ہاتھ نڈھال ہو کر گھر پہنچے۔
اللہ! ہمیں حق کی راہ پر چلتے ہوئے دنیا کے ہاتھوں لٹنے سے بچا لے آمین
﴿
” القرآن سورة الانعام32میں اللہ کا فرمان ہے۔
دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ ہی تو ہے اور پرہیز گاروں کے لیے آخرت کا گھر بہت ہی اچھا ہے تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے۔
ہم کتنے نادان ہیں کہ قرآن پاک میں اتنا واضح فرق سمجھانے کے باوجود بھی اس کھیل تماشے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
اللہ ہم پر دنیا کی اصلیت کھول دے۔
آمین
قرآن پاک میں دنیا کی حقیقت کو بہت سمجھا یا گیا ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ دنیا کی زیب و زینت اور آرائش صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کو آزمایا جا سکے کہ کون لوگ ہیں جو اس ظاہری زیب و زینت کے مقابلہ میں بن دیکھی آخرت کو یاد رکھتے ہوئے اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہیں۔
اے اللہ! ہمیں اس آزمائش میں سے کامیابی سے گزارنا ۔آمین
﴿
القرآن سورة العنبکوت آیت 64 میں اللہ کا فرمان ہے
” اے لوگو! یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے حقیقت میں آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے کاش یہ لوگ یہ راز جانتے۔“
اللہ ہمارے دِلوں سے اس فانی دنیا کی چاہت نکال دے ۔ آمین
﴿
قرآن پاک کا زیادہ تر حصہ دنیا کی مذمت کے بارے میں ہے اور مخلوق کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی دعوت دینے کے لیے ہے۔
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
” جو دنیا سے محبت کر ے گا اس کی آخرت کو نقصان ہو گا اور جو آخرت سے محبت کر ے گا اس کی دنیا کو نقصان ہو گا ۔اس لیے باقی کو فانی پر ترجیح دو۔“
﴿
پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة و السلام نے فرمایا
” مومن دو خوف کے درمیان ہوتا ہے۔ اس عمر کا خوف جو گزر چکی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اور دوسرا باقی رہ جانے والی عمر کا خوف کہ نہیں جانتا اللہ اس کا کیا فیصلہ کر ے گا۔اس لیے بندے کو چاہیے کہ اپنے لیے زادِ راہ لے۔ دنیا سے آخرت کا حصہ لے۔ دنیا میں موت کا سامان کرے۔ جوانی میں بڑھاپے کا انتظام کرے۔ کیونکہ دنیا تمہارے لیے پید ا ہوئی ہے اور تم دنیا کے لیے۔ اس ذات کی قسم.....! جس کے قبضے میں میر ی جان ہے کہ موت کے بعد کوئی تھکاوٹ کا کام نہیں ہے۔ اور جنت یا دوزخ کے سِوا اور کوئی گھر نہیں ہے۔“
سوچیئے..... !کیا ہم نے اپنا زادہ راہ تیار کر رکھا ہے؟
﴿
دنیا کی زندگی کو مومن کے لیے قید خانہ کہا گیا ہے کیونکہ مومن کی نظر اپنے ابدی گھر کی طرف لگی ہوتی ہے۔ اس کا دل اس دنیا کی فانی رنگینیوں میں نہیں لگا ہوتا۔ وہ ہر لمحے یہاں کی قید سے آزاد ہونے کے تجسس میںلگا رہتا ہے۔ اور اس تجسس کی وجہ سے اس کا ابدی ٹھکانہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
سوچیئے
کیا دنیا ہمارے لیئے بھی قید خانہ ہے؟
﴿
دنیا ایک پل ، راستہ ، گزر گاہ کی طرح ہے جہاں سے سب نے گزر کر دوسری طرف جانا ہے یہاں نہیں رہنا۔
اللہ ہمیں اس دنیا میں دل لگانے سے بچالے ۔ آمین
﴿
اما م غزالی ؒ کیمیائے سعادت میں ایک حدیث مبارکہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
” قیامت کے دِن دنیا کو ایک ایسی بد شکل بڑھیا کی شکل میں لایا جائے گا کہ جس کی آنکھیں سبز اور دانت باہر نکال دیئے گئے ہوں گے ۔لوگ اس کو دیکھ کر اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے پوچھیں گے کہ یہ کون ہے؟بتایا جائے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جس کی خاطر تم ایک دوسرے سے بغض ، کینہ اور دشمنی رکھتے اور خون بہا تے تھے۔“
افسوس کہ ہم ایک بد صورت بڑھیا کی چاہت میں اپنے پیارے اللہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ ہمیں دنیا کی بد ہیتی کے احساس دے۔آمین
﴿
دنیا آزمائش کا گھر ہے۔ہم اس بات سے تو واقف ہیں لیکن شاید اس میں چھپے راز سے آشنا نہیں۔ ہم کبھی کبھی اپنی آنکھیںاس حقیقت کی طرف سے بند کر لیتے ہیںکہ دنیا میں آزمائش کے لیئے بھیجے گئے ہیں جس کا نتیجہ اگلے جہان میںدیا جائے گا۔ جیسے دنیا کے کمرہ امتحان میں صرف امتحان کے لیئے جاتے ہیں۔ وھاں کسی اور چیز کی توقع یا چاھت نہیں کرتے۔ ایسے ہی اگر اس دنیا کو آزمائش کا گھر سمجھ لیں گے۔تو بہت اچھی طرح اس آزمائش سے نکلنا آجائے گا۔ اور جو اس آزمائش سے جتنی اچھی طرح گزرتا ہے اگلے جہاں میں اسکا اتنا اچھا صلہ پاتا ہے۔
یہاں کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ آج یہاں کی کمائی کا صلہ اگلے جہاں میں ملے گا۔ سوچئیے
اللہ ہمیں دنیا کی زندگی کی حقیقت سے آشنا کر دے۔ آمین
﴾﴿