عہد

القرآن سورة العمران آیت ۶۷ میں اللہ کا فرما ن ہے
”جس کسی نے عہد پورا کیا اور پرہیز گاری کو اختیار کیا تو بیشک اللہ پر ہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔“
اس آیت مبارکہ میں عہد نبھانے اور تقویٰ یا پر ہیز گاری اختیار کرنے والوں کو اللہ کی محبت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
اللہ ہمیں عہد پورا کرنے والا پرہیز گار بندہ بنا دے۔ آمین
﴿
ایفائے عہد میں بے شمار حکمتیں ، راز، خوبیاں اور محبتیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے اللہ ان صفات والے شخص سے محبت کر تا ہے۔ اگر سچائی سے دیکھا جائے تو ہم سے دانستہ یا دانستہ بدعہدی ہو جا تی ہے۔ شاید ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
اللہ ہمیں ایفائے عہد کرنے والا بنا دے۔ آمین
﴿
وعدہ صرف وہ بات ہی نہیں جس میں ہم نے یہ کہا ہو کہ ” یہ میرا وعدہ ہے“ ۔بلکہ ہر وہ بات جو ہم روز مرہ کی گفتگو اور معاملات کے دوران کسی شخص کے ساتھ اقرار کی صورت کر تے ہوئے اسے مطمئن کر دیتے ہیں وعدہ یا عہد کہلاتا ہے۔ اللہ نے وعدہ یا عہد پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اپنے عہد کو پورا کرو اس کی بازپرس ہو گی۔“
اللہ ہمیںعہد پورا کرنے کی تو فیق دے کہ ہم باز پرس سے بچ سکیں۔آمین)
﴿
حضرت ابوھریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا کہ:
تین نشانیاں منافق کی ہیں چاہے وہ نماز پڑ ھتا ہو، روزہ رکھتا ہو، اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ وہ نشانیا ں یہ ہیں۔
بات کر ے تو جھوٹ بولے۔
وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
عہد کرے اور توڑدے۔
اللہ ہمیں بد عہدی سے بچائے۔آمین
﴿
زندگی کے بعض معاملات میں صرف زبانی اقرار کر کے وعدہ کر تے ہیں اور بعض اوقات ہمارے کسی بھی قول و فعل کے ساتھ خود بخود عہد کی ڈوری جڑ جا تی ہے۔ اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے ساتھ کوئی عہد و ابستہ نہ ہو۔
پیارے آقائے دو جہاںﷺ کا فرمان ہے:
” جو کسی مسلمان کے ساتھ عہد کر کے توڑ دیتا ہے تو اس پر اللہ تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت بھیجتا ہے اور اللہ اس کے نفل اور فرض قبول نہیں کر تا۔
اے اللہ! ہمیں وعدہ اور عہد کا پابند بنا دے۔ آمین
﴿
ایک عہد اللہ نے دنیا اور انسانی زندگی کے آغاز سے بہت پہلے روحوں کو اکٹھا کر کے ان سے لیا تھا اور فرمایا تھا
” کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں“ تو سب نے کہا تھا ”ہاں“

´۔
اب انسان نے اس دنیا میں اللہ کی اطاعت کر کے اس عہد کا عملی ثبوت دینا تھا ۔اس عہد کی یاد دہانی کے لیے نبی اور رسول بھیجے گئے۔ ہم پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ ہمیں عہد کی یاد دِلانے کے لیے اللہ نے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کو رحمت اللعالمینﷺ بنا کر بھیجا
او ر فرمایا
” جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا“
اپنا جائزہ لیں! کیا ہم اس دنیا میں اپنے عہد ِ ازل کو نبھانے کی عملی کوشش بروئے کار لا رہے ہیں؟
﴿
عہد کا مطلب ہے کسی بات یا عمل کی حفاظت کر تے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ جو شخص اللہ کی اطاعت کر تا ہو گا وہ شخص ہی بندوں سے کئے گئے عہد پر بھی قائم رہتے ہوئے اسے پورا کر تا ہے۔ اور اصل میں وہی شخص سچا دین دار ہو تا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ
پیارے آقائے دو جہاںعلیہ صلوةالسلام ﷺ نے جب بھی ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ بات بہت بار اِرشاد فرمائی
” اس شخص کا دین نہیں جو اپنے عہد کا پابند نہ ہوگا۔“
اللہ ہمیں سچا دین دار بننے کی توفیق دے۔آمین
﴿
چاہے کوئی اطاعت کرے یا نہ کرے پر ہر شخص کے ذہن میں اللہ کی اطاعت کا اقرار ہے۔ اور وہ اتنا ضرور جانتا اور مانتا ہے کہ ہمیں اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے۔
قرآن پاک میں واضح طو رپر اپنی اطاعت کے ساتھ اللہ نے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی اطاعت مشروط کر دی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺ کا فرمان ہے
” جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے عہد شکنی کر تے ہیں۔ ان پر دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ ان کے اموال لُوٹ کر لے جا تے ہیں“
پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی اطاعت دراصل اللہ کی ہی اطاعت ہے جس کا اقرار ہم دل سے کر کے عمل سے اس کا اظہار کر تے ہیں۔ یہی عہد نبھانا ہے۔ اللہ ہمیں اسکی تو فیق دے۔ آمین
﴿
کلمہ طیبہ بھی ایک عہد ہے اور اس کو پڑھنے والا ہر شخص خود بخود ایک عہد کی ڈوری میں بند ھ جا تا ہے۔
غور کیجئے کہ اس میں ہم سے کیا عہد لیا جا رہاہو تا ہے۔
اللہ ہمیں کلمہ طیبہ میں کئے گئے عہد کی سمجھ اور شعور عطا کر کے اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
﴿
حضرت عبد اللہ بن عامر ؓ سے روایت ہے ۔
پیارے آقائے دو جہاںعلیہ صلوةالسلام ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا آﺅ کچھ دوں گی۔
آپ ﷺ نے والدہ سے پوچھا کہ کیا دو گی؟ کہا کھجوردوں گی۔آپ ﷺ نے فرمایااگر تم کچھ نہ دوگی تو جھوٹوں میں لکھی جاﺅ گی۔
عموماََ ہم لوگ بچوں کو بہلانے کے لیے اور متوجہ کرنے کے لیے ایسے ہی کچھ کہہ دیتے ہیں۔ اور پھر اپنی اس بات کو پورا نہیں کر تے یہ گناہ کی بات ہے۔ شیخ عبدالحق نے لکھا ہے کہ جھوٹ کسی چیز کے دینے کے لیے کہا تو یہ حرام ہے۔ لہذا بچوں سے جھوٹا وعدہ نہیں کرنا چاہیے ۔اور اگر کریں تو اس کو پورا کریں۔
اللہ ہمیں عہد کو پورا کرنے کا احساس عطا فرما دے۔ آمین
﴾﴿