محاسبئہ نفس

نفس ہمارا کھلا دشمن ہے لیکن اس کی سازشوں کو سمجھنا بہت مشکل ہو تا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نفس ہمارا محبوب دشمن ہے۔ یہ ہمیں ایسی چیزوں کی طرف مائل کر تا ہے جو بظاہر بہت اچھی معلوم ہو تی ہیں لیکن اس کے نتائج اچھے نہیں ہو تے ۔اس لیے اس کی دشمنی کو سمجھنا مشکل ہو جا تا ہے۔
اللہ ہمیں نفس کی دشمنی سے محفوظ رکھے ۔ آمین
﴿
نفس بہت زیادہ نقصان پہنچانے والا دشمن ہے۔ یہ اس لیے بھی نقصان دہ ہے کہ یہ ہمارے اندر رہنے والا دشمن ہے ۔جیسے کوئی گھر میں چھپا ہو۔ اسے ہم گھر کا رہزن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا ہر لمحہ محاسبہ ہی ہمیں اس کے ہر وار سے لڑنا اور اسے شکست دینا سکھاتا ہے۔
﴿
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرے بابا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میں عمرؓ سے زیادہ کسی کو دوست نہیں رکھتا۔
پھر فوراََ ہی کہا کہ اے عائشہؓ !ابھی میں نے کیا کہا تو میں نے ان کے ہی الفاظ دہرا دیئے تو فرمایا کہ یہ تو میرے منہ سے نکل گیا ورنہ میرا مطلب یہ تھا کہ زندہ انسانوں میں مجھے عمر ؓ سے زیادہ کوئی شخص عزیز نہیں ہے۔
ان اعلیٰ ہستیوں نے زبان سے سرزد ہوئی چھوٹی سی لغزش کا بھی محاسبہ کیا۔ اور اسے فوراََ درست کیا ۔کیونکہ اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺسے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہو سکتا۔
اللہ ہمیں بھی فوراََ ایسے ہی اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
﴿
ہمارے لیے اپنا محاسبہ اس لیے مشکل ہو تا ہے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے دوسروں کا محاسبہ کرنے کی عادت ہو تی ہے۔ اپنی اس عادت کو بھی ہم چاہیں تو اچھا استعمال کرسکتے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں کسی کے برے عمل کا محاسبہ کرنے کی سوچ آئے تو ایک بار خود کو بھی چیک کر لیں کہ کیا یہ عمل مجھ میں ہے۔ اگر ہے تو اسے چھوڑنے کے لیے اللہ سے مدد مانگیں۔ اور اگر نہیں ہے تو اللہ کا شکر ادا کریں ۔اس طرح دوسرے شخص سے توجہ ہٹا کر ہم اپنا محاسبہ زیادہ اچھی طرح کر سکتے ہیں۔
﴿
کئی بار لوگوں کے ساتھ معاملات اور تعلقات میں کوئی عمل کر تے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کام ا للہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں ۔لیکن اکثر ہمارے لوگوں کے ساتھ تعلقات میںبہتری یا کمی ہمارے دل پر اثر انداز ہونے لگ جا تی ہے۔
سوچیئے . ...اگر ایسا ہو تا ہے تو کیا وہ عمل ہم لوگوں کے لیے انجام نہیں دے رہے تھے؟
﴿
ہر لمحہ دو طرح کی آوازیںہمیں اپنی طرف بلاتی ہیں۔ ایک آواز اللہ اورپیارے آقائے دو جہاںﷺ کی طرف بلاتی ہے۔ جبکہ دوسری آواز نفس ، شیطان اور دنیا کی طرف بلاتی ہے۔ اب جس کو جو آواز اور بلاوا پسند ہو تا ہے وہ لبیک کہتا ہو ااس کی طرف چل پڑتا ہے۔ اور اپنی منزل کا تعین خود کر تا ہے کہ مرنے کے بعد اس نے کہاں جانا ہے۔
انتہائی غور سے اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس آواز کو پسند کر تے ہیں اورکس راستے پر چلتے ہیں؟
﴿
اللہ کا قرب پانے کی خواہش میں اگر کوئی اپنا قدم بڑھاناچاہتا ہے تواس کا پہلا قدم ہی محاسبہ نفس ہے۔
سوچیے کہ کیا ہم نے اللہ کی قربت میں قدم آگے بڑھانے کے لیئے محاسبہ نفس کی کوشش کی۔
﴿
القرآن سورة الاعراف آیت ۱۰۲ میں اللہ کا فرمان ہے۔
بیشک جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی ہے جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے( تو وہ اللہ کے امر ونہی اور شیطان کی دشمنی) کو یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی بصیرت کی آنکھیں کھل جا تی ہے۔
اللہ ہم سب کو بصیرت عطا کرے۔آمین