رضا

اللہ کی رضامیں راضی رہنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہمارے اندر اللہ کا احساس اور یقین پختہ ہو ۔اس احساس اور یقین کے ہونے پر ہی ہم کسی بھی معاملے میں اللہ کی رضا میں راضی ہوتے ہیں۔چاہے بظاہر ہم اس میں بہتری یا بھلائی دیکھ سکیں یا نہیں۔مگر اس کے باوجود دل کا ایمان ہو کہ اللہ ہمارے لیے کبھی بھی بہترین کے سوا نہیں کرتا اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم اس حکمت کو سمجھنے یا دیکھ سکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں مگر اللہ کی طرف سے ہر فیصلے اور معاملے میں حکمت اور بھلائی ضرور ہوتی ہے۔اور اس پوشیدہ بھلائی اور بہتری پر دل سے ایمان رکھنا ہمیں اللہ سے شکوہ کرنے سے بچاتا اور رضا پر کھڑا رکھتا ہے۔
﴿
اللہ کی رضا میں راضی رہنے والے ہمیشہ ہر حال میں اللہ کے حکم پر سر ہی نہیں بلکہ دل بھی جھکاتے ہیں۔وہ حکم کے بندے ہوتے ہیں اور حکم کی بجا آوری پر خوش رہتے ہیں۔اللہ کے حکم کو اللہ کی چاہت اور پسند کے مطابق بجا لانے کی بہترین کوشش کرنے والے اللہ کی رضا کو پانے والے ہوتے ہیں ۔
اللہ ہمیں بھی اپنے ایسے بندوں میں شامل فرما لےآمین
﴿
اللہ کی رضا میں راضی رہنے والوں کے دل ہمیشہ اطمینان میں رہتے ہیں۔ان کے قلب و روح پر سکینت اترتی ہے۔وہ کسی بھی طرح کے حالات میں خوف و غم کا شکار نہیں ہوتے۔ کیسے ہی حالات و واقعات پیش آئیں، اللہ کے پیار کا احساس ان کے اللہ پر یقین کو مضبوط رکھتا ہے۔اور ان کے د ل کا ایمان ایسا ہوتا ہے کہ نہ وہ ڈگمگاتے ہیں اور نہ ان کے قدم حق کی راہ پر لڑکھڑاتے ہیں۔وہ سر تسلیم خم کر کے اللہ کی راہ میں قربت کے سفر میں ہر طرح کی آزمائش میںسے ہنس کر گزرتے ، قدم قدم آگے بڑھتے اور لمحہ لمحہ شکر بجا لاتے ہیں ۔یہی شکر کا احساس جب بڑھتا ہے تو اللہ انہیں اپنی رضا میں مزید راضی رہنے کی تو فیق عطا فرماتا ہے اور اپنے قرب سے نوازتا ہے۔
اللہ ہمیں بھی ایسی ہی رضا میں راضی رہنے والی دل کی حالت عطا کر دے۔آمین
﴿
ہم اللہ کی رضا میں تب راضی نہیں رہ پاتے جب ہمیں محض سوچوں میں یہ یقین ہو اور ہم صرف زبانی کلامی یہ اظہار کریں کہ اللہ ہمیں ستر ماﺅں سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔یہ ہمارا اللہ پر صرف رسمی سا یقین ہوا کیوں کہ ہمارے دل میں یہ یقین نہیں اترا ہوتا ۔اسی لیے تو ہم ذرا سا تیز ہوا کا جھونکا چلنے پر بھی گھبرا جاتے ہیںاور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔یعنی کوئی بھی معاملہ اگر ہماری چاہت ، مرضی اور خواہش کے برعکس ہو تو ہم اسے قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ ہمیں اندر سے یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اللہ ہمیں پیار کرتا ہے اور اس کے ہر فیصلے میں ہمارے لیے پیار چھپا ہوتا ہے۔اگر ہمیں یہ یقین ہو جائے تو ہم ایک لمحے کے لیے نہ جھجکیں اور فوری طور پر ہمارا دل اللہ کی مرضی پر راضی ہو جائے۔سوچیے کہ کیا ہمارا دل اللہ کی مرضی کو قبول کرتا ہے؟
﴿
جب ہم اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں تو ہمارے احساس ، سوچ اور عمل سے اس کااظہار بھی ہوتا ہے۔
زندگی کے مختلف معمولات، معاملات، فرائض کے حوالے سے ہمارے انداز ِ فکر، زاویہ ِ نظر اور ہمارے دل کی حالت کا بہترین لیول پہ ہونا یا نہ ہونا، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کس طرح سے اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے انہیں بہترین طور پر ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اپنا جائزہ لیں ۔کیا ہم ایسا کرتے ہیں یا نہیں؟
﴿
جب ہم اپنے ہر عمل کا تعلق اللہ سے جوڑ کر اسے اللہ کی مرضی کے مطابق کرنے کی کوشش ، اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرنے لگتے ہیں تو اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔کیوں کہ تب ہم اپنے ہر معاملے کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر اسے بہترین انداز میں نبھاتے ہیں تو وہ عمل ، معاملہ یا معمول ہمارے لیے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
اللہ ہمیں بھی ایسا کرنے کی توفیق دے۔آمین
﴾﴿