غیبت
کسی کے پس پشت اس کا ذکر ایسے کرنا کہ اگر وہ سنے تو برا مانے، بے شک وہ اس کے بارے میں سچ ہو غیبت کہلاتاہے۔
حضرت عبد الرحمٰن بن جوزی ؓ نے غیبت کی تعریف یاں بیان کی ہے۔
کسی کو ایسی بات سے یاد کرنا کہ اگر وہ اس تک پہنچے تو اسے ناگوار گزرے اگرچہ تو اس میں سچا ہو خواہ اس کی ذات میں کوئی نقص بیان کرے یا اس کی عقل یا اس کے کپڑوں میں ، یا اس کے قول و فعل میں کوئی کمی بیان کرے یا اس کے دین یا گھر میں کوئی نقص بیان کرے یا اس کی سواری یا اولاد میں ، اس کے غلام یا کنیز میں (اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے یہاں تک کہ یہ کہنا اس کی آستین یا دامن لمبا ہے (عیب کے طور پر) سب غیبت میں داخل ہے۔
غیبت بہت سی روحانی امراض کی جڑ ہے اور غیبت اکثر دل آزاری اور بہتان میں بدل جا تی ہے۔ غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی ہے جیسے چرواہ درخت کاٹ دیتا ہے۔
حضرت ابراہم بن ادھم ؓ فرماتے ہیں میں کوہ لبنان میں کئی اولیاءکی صحبت میں رہا ان میں سے ہر ایک نے یہی وصیت کی کہ جب لوگوںمیں جاﺅ تو ان کو ۴ باتوں کی وصیت کرناَ
۔ جو پیٹ بھر کر کھانے لگے اسے عبادت کی لذت نہیں ملے گی۔
۔ جو زیادہ سوئے گا اس کی عمر میں برکت نہیں ہو گی۔
جو صرف خوشنودی چاہے گا اسے رضائے الٰہی حاصل نہیں ہو گی۔
۔ جو غیبت اور فضول گوئی زیادہ کرے گا اس کا خاتمہ اسلام پر نہیں ہوگا۔
غیبت گناہ کبیرہ ہے کیونکہ اس عمل سے کسی شخص کےلئے نفرت کا اظہار ممکن ہوتا ہے اور سوسائٹی میں بھلائی اور بھائی چارے کی فضانہیں بنتی۔سب سے بڑھ کر غیبت کرنے والا اپنے نیک اعمال گنوا بیٹھتا ہے اپنا نقصان کرتا ہے۔
ہمیں لوگوں سے بہت گلے شکوے شکایت رہتے ہیں۔ ہم دلی طور پر لوگوں سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہوتے اس لیئے غیبت کرتے ہوئے ہمیں شیطان یہ سمجھا رہا ہوتا ہے کہ تم تو حق بات کر رہے ہو سچائی پر ہو یہ سب کہنا تمہارا حق ہے ۔ایسا سوچ کر بھی ہم غیبت جیسی برائی کرتے ہیں ۔ عام طور پر روٹین لائف میں ہم ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔ ہم ایسی باتوں میں دلچسپی دکھاتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی برائی کی عادت ہوتی ہے۔ہم اپنی طرف سے بڑا اچھا کام کر رہے ہوتے ہیں کہ جس کے سامنے ہم کسی کی برائی بیان کر رہے ہوتے ہیں اس کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسا کر کے کسی کی عیبوں سے پردہ اٹھارہے ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالیں گے تو آخرت میں اللہ ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔ ہم اس کے بر عکس عمل کرتے ہیں ہم ناصرف اپنے نفس کی تسکین کررہے ہوتے ہیں بلکہ جس کے سامنے عیب بیان کر رہے ہوتے ہیں اس کے دل میں بھی کسی کے لیئے تنگی پیدا کررہے ہوتے ہیں ۔
قرآنی آیات اور احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی برائی کا لباس پہنا اللہ اسے اس کے مثل جہنم کا لباس پہنائیں گے اور جس شخص نے کسی کو شہرت و ریاکاری اور دکھلاوے کے مقام پر کھڑا کیا یا کسی شخص کی وجہ سے ریاکاری و شہرت کے مقام پر کھڑا ہوا تو اللہ قیامت کے روز اس سے ریاکاری اور شہرت کے مقام پر کھڑا کرے گا۔(سنن ابو داﺅد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ غیبت کیا ہے فرمایا کہ اپنے بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔ کہا گیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کے بارے میں اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہو اگر وہ اس کے اندر فی الواقع موجود ہو تو۔ فرمایا کہ غیبت جب ہوگی جب تو جو بات کہہ رہا ہے وہ اس کے اندر موجود ہو اور اگر وہ بات اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔(سنن ابو داﺅد)
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ان لوگوں کی جماعت جو صرف زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا مسلمانوں کی غیبت مت کیا کرو اور نہ ان کی عزت وآبرو کے درپے رہو اس لئے جو کسی کی عزت کے درپے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کی عزت کے درپے ہو جائیں تو اس کو اپنے گھر بیٹھے رسوا کر دیتے ہیں۔(سنن ابو داﺅد)
القرآن سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔(آیت ۲۱)
اے ایمان والو! بہت بد گمانوں (یعنی شک کرنے والے) سے بچتے رہو کیونکہ بعض گمان تو گناہ ہیں (اک دوسرے کی ) جاسوسی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کیا کرے ۔تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کیا گوشت کھائے؟ اس کو تم ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ بڑا تو بہ قبول کرنے والاہے اور بڑا رحم کرنے والاہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج عطا کی گئی تو اس رات میں ایک قوم پر گذرا ان کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کھرچ رہے تھے تو میں نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں اے جبرائیل انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزت وآبرو کے درپے رہتے ہیں ۔(سنن ابو داﺅد)
ذاتی تجربہ:
۔ آج گھرمیں بہت کا م تھا اور وقت کم تھا ۔ابھی کام باقی تھا کہ ساتھ والے گھر سے کزن اور اس کے ابو آگئے کیونکہ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھا۔ مشکل سے وقت نکالا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا لیکن وہاں کافی ٹائم لگ گیا۔ گھر واپس آیا وہ لوگ اپنے گھر چلے گئے تو میں نے اپنی بہن سے ان کے بارے میں بات کی جو کہ غیبت ہی تھی۔
میں نے کہا کہ ان لوگوں کو دوسروںکا احساس نہیں ہوتا ۔اور جب بھی آئیں ضرور کوئی نہ کوئی کام ہی بتاتے ہیں۔آج بھی آئے تو اتنے سارے کام بتادیئے۔ یہ بات ان کے سامنے کرتا تو انہیں برا لگتا۔ احسا س ہو ا کہ ان کی پیٹھ پیچھے بات کر کے ان کی برئی کی ہے۔یہی عمل کو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے میںغیبت جیسا نا پسندیدہ عمل کر کے میں اللہ کی ناراضگی مول لی اور اپنا نقصان کیا۔
غیبت کے نقصانات
غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا ہے اور ایک ناپسندیدہ عمل ہے جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ یہ محسوس کرنا کہ ہم مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں اس عمل سے کراہت دلائے گا۔
۔ غیبت کرنے والے کے نیک اعمال، جس کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں اس کے نامہ اعمال میں منتقل ہو جاتے ہیں ، اور اس کی کوتاہیاں اور گناہ غیبت کرنے والے کے نامہ اعمال میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ غیبت کر کے ہم اپنی جمع پونجی جو نیک اعمال کی صورت اکٹھی کی ہوتی ہے اس سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
۔ غیبت کرتے وقت اللہ کی پسند کو نظر انداز کر کے نفس اور ذات کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی اور نافرمانی کا سبب بنتی ہے۔
۔ غیبت کر کے جو وقت کسی اچھے کام میں لگایا جاسکتا ہے و ہ ضائع کر کے اللہ کی قربت میں آگے بڑھنے کا موقع گنوا دیتے ہیں ۔
۔ غیبت کر کے دل سے امت کے لوگوں کےلئے پیار کا جذبہ کم ہو جاتا ہے۔ پیار کی جگہ حسد ، نفرت اور کینہ جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور دل کو گندہ کرتے ہیں ۔
غیبت کر کے ہم اللہ کا ناپسندیدہ کام کر کے اس سے دور ہو جاتے ہیں ہمارے دل کا رابطہ سوہنے مالک سے نہیں ہو پاتا ، اس سے دوری ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
۔ غیبت کر کے ہم اپنی ذات کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کی آشنائی کے سفر میں ذات کی تسکین کےلئے غیبت کرنا سخت نقصان کا باعث ہے۔
غیبت کر کے ہم اپنی زبان کا غلط استعمال کرتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا صحیح استعمال نہ کر کے اللہ کی ناراضگی مول لے رہے ہوتے ہیں ۔
۔ غیبت کرکے ہم اپنے ساتھ دوسروں کا بھی نقصان کرتے ہین ان کے اندر منفی سوچ اور احساسات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جو آخرت میں بربادی کا باعث ہے ۔
۔ غیبت کر کے اپنا نقصان تو کرتے ہی ہیں ، جس کے ساتھ غیبت کریں ان کو بھی اس گناہ میں شامل کر کے برا عمل کرتے ہیں اور جہاں دوسروں کو حق کا رستہ دکھا سکتے ہیں ، غیبت میں شامل کر کے شر کے راستے پر ساتھ لے کر چل پڑتے ہیں۔
نفس کے جال سے بچ کر اللہ کی قربت پاسکتے ہیں وہاں غیبت جیسا عمل کر کے ذاتی تسکین حاصل کرتے ہیں اور خود کو اللہ کے قرب سے دور کرلیتے ہیں ۔
۔ غیبت کرنے ہم اللہ کی سمیع کی صفت کا احساس نہیں رکھتے کہ اللہ سن رہا ہے ۔ جب دل میں یہ احساس نہیں ہوتا تو بُرے عمل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
غیبت جیسا عمل کر کے ہم دل گندہ کرتے ہیں دوسروں کے بارے میں غلط خیالات رکھتے ہیں۔ دوسروں کو برا کہتے ہیں تو خود سے نظر ہٹ جاتی ہے۔
غیبت کی مدد سے باطل اپنے جال میں پھنساتا ہے اور ہم بڑھا چڑھا کر لوگوں کی برائیاں بیا ن کرتے ہیں۔
غیبت کرنے سے اندر منفی سوچ اور احساس آتا ہے جس سے اللہ کی ذات اور صفات کی پہچان سے بھی دور ہوتے ہیں۔
غیبت گناہ کبیرہ ہے اس سے گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ غیبت سننے کی بھی عادت ہو جاتی ہے پر ہم اس گناہ سے باز نہیں آتے۔
۔ غیبت کرنے سے خود پر نظر نہیں رہتی، ہم اپنے گناہ بھول کر دوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں جس سے حق کی راہ کا سفر متاثر ہو جاتاہے۔
غیبت تکبر کی بھی علامت ہے ، دوسروں کی برائی کو اچھا لتے ہیں اور اپنی برائیوں کو چھپا کر خود کو دوسروں کی نظر میں بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
۔ کسی کی غیبت نہ کرنا اس کی برائی پر پردہ ڈالنا ہے ۔ بدنامی سے بچنے کےلئے وہ اس برائی سے تو بہ کرے کہ آئندہ ایسا گناہ نہ کرے جبکہ غیبت کرنا کسی کے عیبوںسے پردہ اٹھانا ہے جس سے دوسرے کی بد نامی ہوتی ہے اور وہ گناہ کرنے کےلئے بے باک ہو جاتا ہے۔
۔ غیبت کرنے والے کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو ہر طرف تیر پھینکتا ہے تو جس طرح اس کا ترکش تیروں سے خالی ہو جاتا ہے اسی طرح غیبت کرنے والا بھی اپنی نیکیاں لوگوں کو دیتا ہے اور اس کا نامہ اعمال خالی ہوجاتا ہے۔
ذاتی تجربہ :
۔ یونیورسٹی ہال میں دوست کے ساتھ بیٹھی تھی ۔آج ایک کانفرنس تھی۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی نے خطاب کیا تو انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں تو یونیورسٹی کے بارے میں ٹھیک نہیں تھیں ۔ جب دوست نے بتایا تو اچھا نہ لگا ۔ آپس میں دوستوں کے ساتھ اس پر بات کرنے لگی، کہ وہ ایسے ہیں اور انہوں نے ایسی باتیں کہیں۔سب نے بڑھ چڑھ کر اس پر تبصرے کیئے۔ اصل میں تو یہ غیبت ہی تھی میں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور خوب مصالحے لگا کر غیبت کرتی رہی۔
اچانک احساس ہوا کہ اس لمحے میں بھی غیبت سنتی بھی رہی اور غیبت کرنے میں بھی شامل رہی ۔ وہاں نفس کی تسکین کی خاطر بیٹھی تھی اور باتوں میں شامل رہی۔ اپنا وقت برباد کیا۔ سوچ ، احساس ،بھی نیگیٹوہوئی اور اللہ کی حکم عدولی کر کے اس سے دوری اختیار کی ۔
ذاتی تجربہ :
۔ میری ایک کلاس فیلو ہے جس کی اکثر باتوں اور عادات سے مجھے چڑ ہوتی ہے۔ کل میں گھر میں سب کو اس کی باتیں بتارہی تھی کہ وہ ایسے ایسے کرتی ہے۔ وہ بناوٹی ہے اور بہت زیادہ ماڈرن بنتی ہے ۔ میں اس کی باتیں بتاتی گئی اور مزے مزے لے کر ذات کے تسکین کرواتی گئی۔غیبت کرتے ہوئے تب احساس بھی نہ ہواتھا کہ کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ ایسے ہی اس کے بارے میں بات کرنا اور اس کی غیبت کرناکچھ دن سے چل رہا تھا۔یونیورسٹی سے آکے اس کی باتیں کرتی۔
پھر احساس ہوا کہ مزے اور ذاتی تسکین کےلئے میں نے کتنا نقصان کیا ہے مگر پھر خود کو تسلی دی کہ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ دل کی حالت بہت گندی ہو رہی تھی ،نہ دعا میں ٹانکا لگتا اور نہ مرکز سے دل جڑ پاتا تھا ۔ دل میں پیار کی جگہ غیبت نے جگہ لے لی تھی۔ جس کی وجہ سے دل میں منفی احساسات چل رہے تھے۔ جہاں نفس کو مار کر قربت میں قدم بڑھا سکتی تھی وہاں نفس غیبت کر کے نفس کی تسکین کی اور باطل کی خوش کیا۔
غیبت سے بچنے کے طریقے:
۔ اللہ کے سمیع ہونے کا احساس غیبت جیسی برائی سے بچاتا ہے کہ میری زبان سے ادا ہونے والی ہر وہ بات جو کسی کی برائی ہے اللہ وہ سن رہا ہے، ایسے احساس سے غیبت جیسی سے بچیں گے۔
خود پر گہری نظررکھی جائے اور جب غیبت سر زد ہونے لگے تو الرٹ رہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے جسکی معافی بھی نہیں جب تک غیبت کرنے والا معاف نہ کردے۔
خود اپنی خامیوں اور عیبوں پر نظر رکھیں یہ احساس ہو کہ میں خود کہاں صحیح ہوں یہ تو اللہ نے ہی عیبوں پر پردے ڈال رکھے ہیں ۔ اپنے عیبوں پر نظر اور شرمندگی بھی غیبت جیسی برائی سے روک دیتی ہے۔
۔ غیبت کرنا مر دہ بھائی کا گوشت کھانا ہے جب اس کا احساس ہو گا تو غیبت سے بچیں گے۔
غیبت کر کے ہم اپنی نیکیاں ضائع کر دیتے ہیں اور خود پر گناہوںکا بوجھ لا د دیتے ہیں جب اس بات کا احساس ہوگا تو غیبت کرنے سے رک جائیں گے۔
لوگوں کے عیبوں پر نظر رکھنے کی بجائے انکی خوبیوں اور اچھائیوں پر نظر رکھی جائے۔
غیبت اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے اور اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے اس لئے اس کے احکام کے مطابق چل کر غیبت سے بچیں تاکہ اسکی رضا حاصل ہو ۔
کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچ لیں کہ کیابولنے جارہے ہیں ، کہیں غیبت تو نہیں ہو رہی اور یہ احساس ہو کہ غیبت جیسے گناہ کی وجہ سے جہنم میں پھینکے جائیں گے۔
اللہ سے مدد مانگی جائے کہ وہ طاقت عطا کرے اور اس برائی سے بچ سکیں ۔
اپنے ہر عمل ، بات اور سوچ پر نظر رکھنے کی کوشش کرناکہ اس وقت میرا ایسا کرنا کیااللہ کو پسند آرہا ہو گا؟ یہ بات سن کراللہ کو کیسا لگے گا ۔ ایسے اپنے آپ کو جانچنا ہمیں غیبت سے روک سکتا ہے ۔
۔ اپنے اندر یہ احساس رکھنا کہ ہر شخص سے اللہ بے حد پیار کرتا ہے اور ہم جس کی غیبت کرتے ہیں اللہ اس کے بارے میں غلط سننا پسند نہیں کرتا ، اس طرح جس شخص کے بارے میں غیبت کریں اسکو اللہ کے بندے کی حیثیت سے دیکھیں تو خود کو ایسی برائی سے روکنے کی کوشش کریں گے۔
۔ غیبت کرتے ہوئے یہ احساس رکھنا کہ غیبت کرنے والے کا انجام کتنا سنگین ہے۔
جیسا کہ غیبت کے بارے میں ہے کہ یہ زنا سے بڑھ کر ہے اگر اس بات کو ہم واقعی دل سے محسوس کریں تو ہم کبھی بھی غیبت جیسا گھٹیا عمل نہ کریں ۔
۔ انسان جو بھی کوئی لفظ زبان سے نکالتا ہے تو ایک فرشتہ اسے فوراً لکھ لیتا ہے۔ اگر اس بات کا احساس ہو کہ میری زبان سے نکلا ایک ایک حرف لکھا جارہا ہے تو بھی دوسرے کی برائی کرنے سے بچ جائیں گے۔
اپنے ہر عمل ، سوچ اور احساس پر گہری نظر رکھ کر الرٹ رہا جائے تو غیبت جیسی برائی کرنے سے بچے رہیں گے۔
اندر یہ بھی احساس ہو کہ میں اپنے ہر عمل کے لئے جوابدہ ہوں تو بھی غیبت سے بچ سکتے کہ دوسروں کی برائی کر کے، جو تسکین حاصل کر رہی اس کےلئے میں نے جواب دینا ہے۔
۔ اس برائی سے بچنے کےلئے اللہ سے دعا کریں ، مدد مانگیں کہ میں کمزور ہوں اور مجھے پاور عطا کریں تاکہ اس برائی سے بچ سکوں ۔
اپنی خامیوں پر نظر رکھ کر ہم دوسروں کی خامیوں کو بیان کرنے سے بچ سکتے ہیں کیونکہ جب اپنی خامیوں کا پتا ہو گا تو احساس ہو گا کہ ہماری حقیقت کیا ہے تو ہم دوسرے لوگوں کو خود سے بہتر سمجھیں گے اوربرائی سے بچے رہیں گے ۔
دنیا کے عارضی ہونے کے احساس کو اندر رکھ کر غیبت سے بچا جاسکتا ہے کہ نہ جانے کس پل زندگی کا سفر ختم ہو جائے تو اگر غیبت جیسا گند مارتے ہوئے جان نکل گئی تو اللہ کے سامنے کیسے پیش ہوں گے۔
۔ اللہ پاک سے محبت کا جذبہ ہمیں پاور دیتا ہے کہ جب اللہ کی قربت چاہیے تو مجھے ہر اس عمل سے بچنا ہوگا جو اللہ کو ناپسند ہے اور غیبت بھی اللہ کا نا پسندیدہ عمل ہے ۔ اللہ کی محبت اور قربت کی چاہ رکھ کر بھی ہم اس برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
۔ خاموش رہ کر بھی غیبت سے بچ سکتے ہیں ۔ زیادہ بولنے کی عادت سے ہمیں غیبت کے لئے اکساتی ہے اور بولتے ہوئے ہم خواہ مخواہ دوسرے کی برائی میں لگ جاتے ہیں اس لیے خاموشی اختیار کرنا بھی ایک طریقہ ہے۔
۲۲۔ اپنے مقصد حیات پر نظر رکھی جائے کہ میری زندگی کا مقصد تو اپنے اللہ کی خوشی اور آخرت میں سکھ پانا ہے تو غیبت جیسے فعل سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ ہم کبھی بھی ایسے غلیظ عمل کونہیں اپنائیں گے ، ہمارا مقصد حیات ہمیں ایسے عمل سے بچنے کی پاور دے گا۔
جب بھی ذات پر کام کرنا ہوتا ہے تو ارادہ باندھنا ضروری ہوتا ہے کہ جب تک ہم خود اپنی ذات کو قید نہیں کرتے یا ارادہ نہیں بناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے خود کو ڈھیل دے رہے ہیں ۔ اس طرح غیبت چھوڑنے کا اراداہ کرکے اس برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
باطل ہمارا کھلا دشمن ہے ہر لمحہ کوئی بھی موقع نہیں گنواتا اور ہمیں برائی کی راہ پر ڈالتا ہے، جب ہم اندر اس بات کو بٹھا لیں گے اور احساس جگا لیں گے کہ باطل ہمارا کھلا دشمن ہے تو ہم اس کے چنگل میں نہیں پھنسیں گے اور برائی سے بچنے کی پوری کوشش کریں گے۔
۔ جہاں پر غیبت ہورہی ہو تو وہاں اس مجمع کو منع کرنا مشکل ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ بات کا رخ بدل دیا جائے، موضوع تبدیل کر دیں جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ مل جاتی ہے ۔ جہاں الرٹ ہوتے ہیں وہاں بات کا رخ بدل کر اس برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
غیبت کر کے ہم کسی ایک شخص کی دوسرے کے سامنے برائی کر کے اس کی شخصیت کو مسخ کررہے ہوتے ہیں ۔ اور ہم نے کسی کی عزت کم کی تو اللہ ہماری عزت بھی کم کردے گا،یہ احسا س ہمیں غیبت سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
۔ ہماری منزل کیا ہے اگر اس بات کا تعین کر لیں تو ہم غیبت جیسی برائی سے بچ سکتے ہیں ، کیونکہ غیبت کر کے نفس کے پجاری بن جاتے ہیں اور اپنی منزل سے خود کو دور کر لیتے ہیں یہ احساس ہمیں غیبت سے روکتا ہے۔
۔ جس کسی نے مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ اسی طرح اسے جہنم کا نوالہ کھلائے گا۔یہ احساس کہ غیبت جیسا عمل کرنے والے کا کیا انجام ہو گا اور اس کی سزا کتنی سخت ہے، ہمیں غیبت جیسی برائی سے بچائے گا کہ جہنم کی آگ کا لقمہ بننے سے بچنے کےلئے کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کی جائے۔
یہ یاد رکھیں کہ کیسے اللہ نے ہمارے عیبوں کو چھپایا ہوا ہے اور ہم ایک شخص کی برائی کر کے اس کے عیبوں سے پردہ ہٹا رہے ہیں ۔اگر ایسے ہی اللہ ہمارے رکھے ہوئے پردے فاش کر دے تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ اپنے عیبوں پر پردے کا احساس ہمیں غیبت سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
غیبت کرنے والا اور غیبت سننے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔اس بات کا احساس غیبت ہو تو غیبت کرنے اور سننے سے بچنے کی کوشش کریں گے ۔
ذاتی تجربہ
سکول میں جماعت دہم کے پیپرز ہو رہے ہیں میری ڈیوٹی لگی تھی ۔ابھی پیپر شروع ہونے میں ۵۱منٹ تھے میں لیب میں چلی گئی کہ جو کام ہے وہ مکمل کر لوں ۔ وہاں وہ دوسری ٹیچربھی تھی جس کی میرے ساتھ ڈیوٹی تھی۔ کچھ دیر میں وہاں سے اٹھ کرڈیوٹی روم میں آگئی۔ اتنے میں وہاں ہیڈ ماسٹر آگئے اور انہوں نے دوسری ٹیچر کا پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں کہ انہیں لیب سے آتے ہوئے ڈیوٹی پر آنے کا کہا ہے مگر لیب میں ہی بیٹھی ہیں ۔یہ بھی خیال آیا کہ وہ تو ہر روز ہی ڈیوٹی پر لیٹ آتی ہیں جبکہ میں وقت پر آجاتی ہوں۔ اس سے پہلے کہ کچھ کہنے کو منہ کھولتی فوراً احساس ہوا کہ میں یہاں اسکی برائی کر کے خود کو اچھا ثابت کر رہی ہوں ،خود بھی تو پورے ٹائم پر ہی آئی ہوں ۔ یہ احساس ہوتے ہی چپ کر گئی۔
یہ بھی احساس ہوا کہ اللہ سن رہا ہے اوراپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کےلے جو کسی دوسرے کی غیبت کرنے لگی ہوں وہ سب اس کو پسند نہیں آئے گا۔ شرم آئی کہ غیبت جیسا فعل کر کے میں اللہ اور اسکے حبیب کے احکام پر عمل نہیں کر رہی، صرف ذات کی مان رہی ہوں ۔ اب چپ کر گئی کچھ نہیں کہا۔ اس طرح اللہ کے احساس اور اپنی ذات کی گندگی پر نظر رکھنے سے میں اللہ کے ایک بندے کی برائی کرنے سے بچ گئی۔
ذاتی تجربہ:
۔ آج یونیورسٹی میں پراجیکٹ پر بات کرتے ہوئے اپنے ایک ساتھی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں کہا کہ جو اس کا کام تھا اس نے وہ مجھے مکمل نہیں کیا ہے ۔ اس کی یہی عادت ہے اور ہمیشہ ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہاں اپنے آپ کو صحیح ثابت کرتے ہوئے میں نے اسکی غیر موجودگی میں اس کی کمی بیان کی۔ اسکی غلطی بتائی اور اس کا مذاق اڑایا ۔اس وقت بات کرتے ہوئے یہ سب بڑا نارمل لگ رہا تھا لیکن اسی دوران میں احساس ہوا کہ میں نے یہ کس قدر غلط کیا۔ میں نے اپنے آپ کو سچا ثابت نہیں کیا بلکہ یہ تو اس کی غیبت کی ہے ۔جس سے مجھے سوائے اندر گند بڑھنے کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔
اب مزید جو اس کے بارے میں بولنے لگا تھا اس سے خود کو روکا یہ احساس تھا کہ یہ اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے اور وہ سن رہا ہے۔ ساتھ ہی اپنے عمل سے اللہ سے دوری کااحساس ہوا تو شرمندگی ہوئی اور رک گیا ۔ اللہ کا ناپسندیدہ عمل کر کے خود کو اس سے دور کرنے کے احساس سے غیبت جیسی برائی کرنے سے بچا۔
غیبت سے بچنے کے فائدے:
۱جب ہم غیبت کرتے ہیں تو اپنے دل میں اس بندے کے لئے ڈھیر سارا گند اکٹھا کر رہے ہوتے ہیں جو کہ اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر اسی غیبت سے بچ جائیں گے دل صاف کر لیں گے۔ اللہ کی پسندیدہ حالت میں دل رہے گا، اللہ کی پیار بھری نظر حاصل کر سکیں گے۔
جب ہم کسی کے سامنے کسی دوسرے کی غیبت کرتے ہیں تو اس کے دل میں بھی اس دوسرے بندے کےلئے گند بھر رہے ہوتے ہیں۔جب جب اس بندے کے دل میں اس دوسرے بندے کے لئے منفی خیال اور احساس آئے گا تو اس منفی سوچ کے ہم ذمہ دار ہوں گے اور اس برائی کے حصہ دار بن جائیں گے۔ اگر اسی غیبت سے بچ جائیں تو اپنے ہونے والے نقصان سے بچ جائیں ۔
اگر کوئی دوسرا ہمارے سامنے غیبت کر رہا ہو ہم وہاں خود بھی رک جائیں اور اسے بھی روک دیں تو نا صرف اپنی بھلائی ہوگی بلکہ دوسرے کو بھی برائی سے بچا کر اس کا بھی بھلا کرنے کا اجر ملے گا۔
جب ہم غیبت کرتے ہیں تو اپنی نیکیاں اس بندے کو دے دیتے ہیں ۔ جس کی غیبت کی ہو اگر ہم غیبت سے بچیں گے تو جو تھوڑی بہت نیکیاں ہمارے نامہ اعمال میں پڑی ہیں وہ کسی دوسرے اعمال نامے میں ڈال کر خالی ہاتھ رہ جانے سے بچیں گے۔
جس کی غیبت کرتے ہیں اس کے گناہ ہمارے نامہ اعمال میں لکھ دیے جاتے ہیں تو اگر غیبت سے بچ جائیںگے تو کسی کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے۔
غیبت گناہ کبیرہ ہے اس کی سزا سخت ہے اگر ہم اس وقتی تسکین کو نظر انداز کر جائیں تو اللہ کی ناراضگی اور آخرت کی تباہی سے بچ جائیں گے۔
غیبت سے بچنے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
غیبت سے بچنے سے شر نہیں پھیلتاہے ۔
غیبت سے بچنے سے بندہ سکون میں رہتا ہے ۔
کسی کی غیبت کر نے اسے رک جائیںتو ا پنا عمل پر تکبر سے بچ جاتے ہیں۔
غیبت سے بچ کر اللہ کی قربت پاسکتے ہیںاور لوگوں کی نظر میں بھی برے ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔
غیبت سے بچ کر بہت سے گھریلو اور معاشرتی مسئلوں سے بچ سکتے ہیں ۔
غیبت کی وجہ سے دوسروں کےلئے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ ایسا کرنے سے گھر میں لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں اس طرح غیبت سے بچ کر گھروں کو برباد ہونے سے روک سکتے ہیں ۔
۔ غیبت اناکی تسکین ہے جب ہم غیبت سے بچتے ہیں توذات پر کام کا موقع ملتا ہے خود پر گہری نظر رکھ کر غیبت سے رکیں گے تو آگے بھی اس برائی سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ اس طرح فساد نہیں پھیلے گا۔ خیر بڑھے گی ۔
جب اس اللہ کے بندوں کی برائی کرنے سے خود کو روکتے ہیں اور کسی دوسرے کی باتیں آگے نہ پہنچائی جائیں تو اللہ خوش ہوتا ہے۔
آپس میں تعلقات اچھے رہتے ہیں ۔ دوسروں کےلئے نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ پیارے سے دل آپس میں جڑا رہتا ہے۔
غیبت سے بچ کر ہم اس شرمندگی سے بچ سکتے ہیں جو اس شخص کے سامنے اٹھانا پڑتی ہے جس کی غیبت کی ہو۔ اسے پتہ چل جائے تو سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے اس پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔
ذاتی تجربہ:
میں نے کالج سے کچھ بقایا پیسے لینے تھے۔ کلرک سے جا کر پیسے مانگتی کہ کتابیں لینی ہیں تو کلرک آج کل پر ٹا ل رہے تھے ۔ دل میں آیا کہ روز مانگتی ہوں مگر پیسے دے ہی نہیں رہے ۔ کالج والوں کےلئے بہت برا محسوس ہوا۔ آج تو جس ٹیچرسے بات ہوتی دل کرتا انہیں بتاﺅں کہ کالج والے کیسے تنگ کرتے ہیں ۔ ایک ٹیچر پاس سے گزریں تو دل کیا کہ بتاﺅں مگر اندر احساس ہوا کہ کسی دوسرے کی برائی کرنے لگی ہوں ۔کچھ ٹیچرز کے سامنے تو بات کرنا شروع ہوتی اور پھر چپ کر جاتی اندر کا احساس الرٹ کرتا کہ غیبت جیسا گناہ کر رہی ہوں ۔ یہی نہیں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی غیبت میں شامل کروں گی۔ یہ گناہ کبیرہ ہے اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ یہ احساس ہوا تو رک گئی بات نہ کی ۔ جب اللہ کا حکم ہوگا مجھے پیسے مل جائیں گے ۔ غیبت سے بچ کر اللہ کی پسند کے مطابق عمل کیا اور اپنے آپ کو بہت بڑے نقصان سے بچالیا۔
ذاتی تجربہ:
مجھے اپنی ایک آنٹی کے بارے میں ایک بات پتہ چلی کہ انہوں کے کچھ ایسا کیا ہے جبکہ حقیقت میں وہ ایسی نہیں نظر آتیں کہ ایسا کام کریں ۔ بہنوں کے ساتھ بات کر رہی تھی تو ان کا ذکر آیا کہ بہت نیک ہیں عبادت گزار ہیں ۔تب اندر آیا کہ ان کو یہ بات بتاﺅں تو پتہ چلے کتنی نیک ہیں، پھر رک گئی کہ نہیں بتاتی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ان کی بات ہوئی تو دل میں آیا کہ انہیں تھوڑا سا بتا دیتی ہوں تا کہ وہ بھی دھیان رکھیں آئندہ الرٹ رہیں ۔ ان کے ساتھ بھی زیادہ راہ و رسم نہ بڑھائیںمگر رک گئی کہ ایسے بات کر کے غیبت کروں گی اور اپنے ساتھ دوسروں کا بھی دل گندہ کروں گی۔
اپنے غلط عمل کا احساس ہوا اپنی وہ غلطیاں یاد آئیں جن پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے اور میں دوسروں کی پیٹھ پیچھے ایسے باتیں کر کے غیبت کر رہی ہوں اپنے غلط اعمال پر پردہ ڈالے جانے کا اور غیبت جیسے گناہ کی سنگینی کا احساس ہوا تو رک گئی ۔ اس طرح غیبت سے بچ کر اللہ کی قربت اور رضا حاصل کی ۔