حسد کی تعریف
تعارف:
ٍ حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی نعمت ملے اور ہمیں وہ بری معلوم ہو اور ہم یہ چاہیں کہ یہ نعمت اس شخص کو نہ ملی ہوتی یا اب اس کے پاس نہ رہے۔
ٍ اگر کسی کو اللہ نے نعمتیں دی ہیں تو ان نعمتوں کا کسی کے پاس ہونا نہ برداشت نہ کرسکنا حسد ہے ۔دوسرے الفاظ میں کسی کے علم ، فضیلت ، مال و دولت، عزت اور شہرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھنا اور یہ تمنا کرنا کہ یہ چیزیں دوسرے سے چھن جائیں ۔
نیکیوں میں حسد ایسے کرنا ہے کہ نیک کاموں میں آگے بڑھ جاﺅ ںاور اللہ کی نظر میں متقی بن جاﺅں۔منفی احساسات کا دل میں پیدا ہونا حسد کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایک بہت گندی روحانی بیماری ہے جو انسان کی نیکیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اور انسان اس حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اپنی قدرو قیمت گنوا دیتا ہے۔
جس شخص سے حسد ہو ہم جب اس شخص کو دیکھیں یا ملیںگے تو یا اس کے بارے میں سوچیں گے تو اپنے دل میں بے چینی، بے قراری اور بے سکونی محسوس کریں گے َ حسد دوسرے معنوں میں اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونا ہے۔ حسد کو بہت ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ حقیقت میں دیکھیں تو کسی کواللہ کی طرف سے عطا کی گئی نعمت کو نا پسند کرنا اصل میں اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونا ہے۔اس سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم جانے انجانے میں کتنا بڑا گناہ کر رہے ہوتے ہیں جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
دوسروں کے پاس اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر انسان کے اندر حسد کی آگ بھڑکتی ہے۔ اللہ سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور ایک دفعہ جب کوئی انسان شکوے میں آجاتا ہے تو پھر وہ اللہ کی رحمتوں کو نہیں دیکھ پاتا ، بلکہ اللہ کی عطا کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اور ہمیشہ اللہ کی ناشکری میں رہتا ہے۔

حسد کی کئی شکلیں ہیں ۔
حسد کی ایک شکل یہ ہے کہ ایک انسان یہ تمنا کرے کہ فلاں آدمی سے وہ نعمت جو اسے حاصل ہے چھن جائے یہ حسد کی بد ترین شکل ہے۔
حسد کی دوسری شکل یہ ہے کہ کسی آدمی سے فلاں نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے۔ یہ بھی مذموم خصلت ہے۔
حسد کی تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو جو نعمت دے رکھی ہے اس کے زوال کی تمنا نہ کرے بلکہ یہ چاہے کہ اس جیسی نعمت مجھے حاصل ہو جائے۔ حسد کی اس شکل کو رشک کہتے ہیں اور دینی معاملات میں یہ بہت پسندیدہ ہے۔



قرآنی آیات اور احادیث:
سورة النساءآیت ۲۳ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور اس کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے، "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت ( کی دولت ) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو ) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو ، آپس میں حسد نہ کرو ، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔(صحیح بخاری



حسد کے نقصانات:
حسد کے نقصانات درج ذیل ہیں ۔
حسد ایک ایسی بیماری ہے جو دل کے سکون کو برباد کر دیتی ہے اور اس میں پیار اور محبت کے احساسات مٹنے لگتے ہیں ۔
حسد کرنے والے کی نظر دوسروں کی عطا پر ہوتی ہے جسکی وجہ سے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر نا شکری کا شکار ہو کر اللہ کے شکر گزار بندوںکی صف سے نکل جاتے ہیں ۔
۔ حسد کرنے والا دل کا تنگ ہوتا ہے اور تنگ دل میں اللہ کی محبت نہیں سما سکتی ۔
حسد سے انسان کبھی خوش نہیں ہوتا کیونکہ اس کی نظر دوسروںکی خوشی پر ہوتی ہے، تو وہ اپنی خوشی پر بھی خوش نہیں ہو پاتا۔ مایوسی کا شکاررہتا ہے،جو کہ کفر ہے اور اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے۔
۔ حاسد انسان دوسروں کی خوشیوں کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دل میں آگ لگا کر خود کو ہی تکلیف دیتا ہے اور کسی کی خوشی میں خوش نہ ہو کر اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔
حاسد انسان منافقت کا شکار بھی ہو جاتا ہے ۔ بظاہر کسی کی ترقی دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے مگر دل ہی دل میں جل رہا ہوتا ہے۔ کہ "اسے یہ سب کیوں ملا"۔حسد کی وجہ سے پیدا ہونے والی منافقت اسے اللہ سے دور کرتی ہے۔
جو حسد کر کے نفس کی پیروی کرتے ہیں ان کا نفس دوسروں کو ملنے والی نعمت پر بھڑکاتا ہے کہ تم زیادہ حقدار تھے، یوں خود کو نفس کے تابع کر دیتے ہیں جو اللہ کی راہ پر سراسر نقصان ہے۔
۔ حسد کرنے والا اللہ کے فیصلوں کو دل سے نہیں مان رہا ہوتا کیونکہ جس کو جو کچھ بھی ملتا اللہ کے حکم سے ملتا ہے۔ یوں اللہ کی فیصلوں کو دل سے نہ ماننا ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے جو دنیا اور آخرت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔
حسد کی آگ میں جلتے ہوئے ہماری نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں ۔ حسد نیکیاں کھا جاتا ہے
دل میں برائی/ نیگیٹیویٹی آتی ہے تو اللہ کا احساس کھونے لگتا ہے۔حسد اللہ کی قربت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
حسد کرنے والا دوسروں کی خوشی اور ترقی سے حسد کر کے خود کو ہی بے سکون کرتا ہے۔
حسد کرنے سے نظر دوسروں پر رہتی ہے، خود سے نظر ہٹ جاتی ہے ۔ جس سے خود کو سنوارنے اور حق کی راہ میں قدم بڑھانے میں رکاوٹ در پیش ہوتی ہے۔




حسد سے بچنے کے طریقے:
پیارے آقاﷺ نے فرمایا کہ "حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑیوں کو "
ہم تدن میں اتنی نیکیاں تو کرتے ہی نہیں جتنی حسد کر کے جلا دیتے ہیں اور اگر ساری نیکیاں ایسے ہی چلی گئیں تو بچے گا کیا؟ اپنے پیارے نبی ﷺ کے اس فرمان کو یاد رکھ کر حسد سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ احساس کہ اللہ کی محبت تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے محبوب ﷺ سے ، ان ﷺ کی آل اور انﷺ کی لاڈلی امت سے محبت کریں گے ، نا کہ دل کو حسد کی آگ کا گہوارہ بنا لیں ۔
حسد سے بچنے کےلئے سب سے پہلے یہ احسا س مدد کرتا ہے کہ دل کو ہر دم شکر میں رکھا جائے کہ اپنے پاس جو ہے جیسا ہے اور جتنا بھی ہے ہم اس کے قابل نہ تھے ۔ جو بھی ملا ہوا ہے وہ اوقات سے بڑھ کر ہے تو اس احساس کے ساتھ اگر شکر میں رہیں تو دل کا حسد جاتارہے گا۔
دل سے اس بات کا یقین رکھنا کہ اگر کسی اور کے پاس کچھ ہے اور اللہ نے اسے نوازا ہے تو وہ ہر کسی کو نواز سکتا ہے۔ میں اس کے سامنے جھولی پھیلاﺅں تو وہ مجھے بھی نوازے گا۔
اس بات کا احساس کہ حسد انسان کو دوسرے کی طرف بڑھنے نہیں دیتا۔ وہ حسد میں کڑھتا رہتا ہے اور خود کو پیچھے کر رہا ہوتا ہے جبکہ اگلی کی خوشی میں خوش ہو کر اس کو دل سے دعا دے کر وہ دگنی خوشی پا سکتا ہے۔
۔ دل بڑا کرنے کی کوشش کرنے کی خاطرخود سے پوچھیں کہ کیا ہمارے اندر اتنی وسعت بھی نہیں کہ جو بندہ اللہ کا پیارا اور پیارے آقاﷺ کا امتی ہے اسے خوش دیکھ سکیں ؟ اس کی خوشی تو مل کر منانی چاہیے کہ مالک دیکھ کر مسکرائے۔
خود کو ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کرنا اور اللہ کے پیار پر یقین رکھنا کہ مجھے جو کچھ عطا ہوا اسی میں میری بہتری ہے۔
اس بات کا احساس ہونا کہ اللہ میری سوچ سے بھی واقف ہے وہ جانتا ہے کہ میں اس کے بندے سے حسد کر رہی ہوں جو اس کو بالکل پسند نہیں ۔
جس کے بارے میں حسد پیدا ہو اس کی خوبیاں لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے لگیں ۔
دوسروں پر نظر رکھنے کی بجائے خود پر نظر رکھی جائے۔
جس شخص کے خلاف دل میں حسد پیدا ہو تو اس کےلئے دعا نہیں کی جاتی ، اس لیے مدد مانگ کر اس کےلئے دعا کی جائے کہ مالک اس کی نعمتوں میں اضافہ فرما۔
پیارے آقاﷺ کے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر حسد جیسی برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
اپنے دل میں وسعت پیدا کریں اور دوسروں کو جو عطا ہوا اس پر خوشی کا اظہار کریں کہ یہ تو اللہ سوہنے کی کرم نوازی ہے۔
اللہ کے ساتھ مضبوط رابطہ رکھ کر حسد جیسی برائی سے دور رہنے کی دعا مانگنی چاہئے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے "اللہ کی پناہ مانگتا ہوں حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے "سورة الفلق آیت نمبر 5۔سچے دل سے دعا مانگ کر ہم حسد سے بچ سکتے ہیں ۔
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا "کسی انسان کے دل میں ایمان اور حسد اکٹھے نہیں رہ سکتے "(صحیح بخاری شریف)
اس حدیث پاک سے احساس ملتا ہے کہ حسد کرنے والے کا دل ایمان سے خالی ہو جاتاہے ۔ اس لیے اگر ایمان بچانا ہے تو حسد جیسے گند کو چھوڑنا ہوگا۔



حسد سے بچنے کے فائدے:
ہم حسد جیسی برائی سے بچ کر مطمئن رہتے ہیں ، سکون اور خوشی کے ساتھ زندگی گزرتی ہے۔
حسد سے بچ کر دل سیٹ رہتا ہے تو آ پس میں خلوص اور پیار رہتا ہے جس کی وجہ سے سب کے ساتھ اچھے تعلقات رہتے ہیں۔
دل کو وسعت ملتی ہے جو حق کی راہ پر آگے بڑھنے کےلئے بے حد ضروری اور فائدہ مند ہے
۔ حسد سے بچنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ دل کے اندر گھٹن نہیں ہوتی ہے ۔
حسد سے بچ کر دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے سے اللہ کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
حسد پر کنٹرول کرنے سے اللہ کے بندوں کےلئے دل میں وسعت آتی ہے اور اللہ کا احساس بڑھتا ہے۔
حسد دل سے ختم ہوتا ہے تو اپنے دنیاوی رشتوں کے لیئے دل میں چڑ نہیں آتی ہے۔
حسد سے بچ کر ہم اپنی نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔
حسد سے بچنے کا فائدہ یہ ہے کہ اپنے سے نیچے والوں پر نظر رہتی ہے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔
حسد سے بچ کر دل کونیگیٹوٹی سے بچا سکتے ہیں ۔
حسدسے بچ کر احساس کمتری سے بچ سکتے ہیں۔
۔ حسد اکثر مظلومیت اورمایوسی میں لے جاتا ہے جو قربت کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، حسد سے بچ کر ان برائیوں پر قابو پا کر اپنا سفر تیز کر سکتے ہیں ۔
حسد کو کنٹرول کر کے دنیا کی محبت سے بچ سکتے ہیں ۔
حسد جیسی برائی پر قابو پا کر اپنے نیک عمل ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں کیونکہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔
جس نے حسد پر قابو پا لیا اس نے گویا اپنے اندر بیٹھے ایک شیطان پر قابو پا لیا ۔ حسد انسان کا اس وقت تک پیچھا کرتا رہتا ہے جب تک وہ اسے پلٹ کر مار نہ دے اور یہ ایک بار مارنے سے بھی نہیں مرتا ، اسے بار بار مارنا پڑتا ہے۔ اس کا علاج محنت، قناعت اور شکر میں رکھا گیا ہے۔


ذاتی تجربہ۱:
گھرکے ماحول میں شروع سے ہی ایسا سیٹ اپ تھا کہ فیملی میں مجھے بہت کم اہمیت حاصل تھی اور باقی کزنز جو میرے ساتھ کے تھے انہیں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی ۔ ان کےلئے خاص اور اچھی کھانے پینے کی چیزیں ہوتی تھیں۔ جب کوئی شرارت کرتا تو ڈانٹ مجھے پڑتی تھی کہ تم تو گھر کی بچی ہو وہ مہمان ہیں۔ ان کو زیادہ لاڈپیار ملتاتھا ۔ جس سے میرے اندر ان کے لئے حسد آتا کہ ان کےلئے سب کچھ بہت زبردست ہے۔ سب پیار ان کےلئے ہے۔مجھے تو کوئی ڈھنگ سے پیار بھی نہیں کرتا۔ ہر اہم موقعے پر ان کو ملنے والی اہمیت یا تحفے بھی مجھے ان سے حسد میں مبتلا کر دیتے تھے۔ مجھے ان سے چڑ بھی ہوتی اور اسی لئے کبھی ان سے اچھی دوستی بھی نہ ہو سکی۔
یہ حسد سال ہا سال دل میں رہا اور لگتاتھا کہ انہی کو سب ملا ہے مجھے نہیں ملا، نہ تو جہ نہ پیار۔ حسد کی وجہ سے یہ بھی سوچتی کہ یہ تو ایسے ہی کچھ نہ بھی کریں تو بھی ان سے پیار کیا جاتا ہے۔ یہ جب بھی آئیں سب سمیٹ کے لے جاتے ہیں۔ میں گھر کی بچی ہوں اس لیئے نہ تو کوئی اہمیت ہے نہ ہی کسی قسم کے تحائف ملتے ہیں۔ یہ حسد اندر بڑھتا رہا۔جب سلسلے سے منسلک ہوئی تو اندر کے احساسات بدلے اور یہ احساس ہو اکہ حسد کی آگ میں جل کر کیا نقصان کیا۔اپنا کوئی فائدہ نہ کیا، اتنا سب تو میرے پاس بھی تھا ۔ جو چاہا سب ملا ۔یہاں نظر ٹھیک نہ رکھی اور دوسروں کی خوشیوں کی وجہ سے خود کو حسد کی آگ میں جلایا۔ جو کچھ اللہ نے عطا کیا اس پر شکر کا دامن پکڑا تو نظریہ ٹھیک ہوا۔ اور کزنز سے جو حسد کرتی رہی اس سے آزادی پانے میں بھی مدد حاصل ہو ئی۔



ذاتی تجربہ۲:
میں نے شادی کا وقت قریب آنے کی وجہ سے سکول سے استعفیٰ دیا ہے۔اسکول میں میرے ساتھ ایک اور ٹیچر نے بھی استعفیٰ دیا ہے۔ کل وہ ٹیچر میرے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ سکول والے اس طرح آپ کو دو مہینے پہلے فری نہیں کریںگے۔ ساتھ ہی اپنا بتانے لگی کہ میرا تو ٹائم پورا ہونے ولا ہے۔ ڈیڑھ مہینے میں مجھے فری کر دیں گے۔ اس کی بات سنی کہ اسے اسکول والے جلدی فری کر رہے ہیں تو دل میں ایک دم حسد کی آگ جلتی ہوئی محسوس ہوئی کہ اسے پہلے فری کر رہے ہیں تو مجھے کیوں نہیں کریں گے۔ آخر ٹائم تو اس کا بھی پورا نہیں ہوا پھر کیوں اسے چھٹی مل رہی ہے ۔
اندر منفی سوچیں آنا شروع ہو گئیں اورایک کے بعد دوسری چلتی ہی جا رہی تھی تو اس وقت مجھے اندر کے احساس نے الرٹ کیا کہ یہ حسد ہے۔ اس کو اگر آسانی مل رہی ہے تو اس کا کیا کمال ہے یہ تو دینے والے کی مرضی ہے جو وہ اسے دے رہا ہے ۔اور میں بجائے آسانی کی دعا کرنے کے الٹے چکر میں پڑ رہی ہوں اور اس کو ملی آسانی پر دل جلا رہی ہوں ۔ حسد کی آگ میں جل کر خود کو اللہ کی قربت سے دور کر رہی ہوں اور اپنے سفر کا نقصان کر رہی ہوں۔
اپنے عمل پر دل شرمسار ہوئی اور اللہ سے مدد مانگتے ہوئے میڈم سے بات کی اور بالکل غیر متوقع طور پر میڈم نے کہا ٹھیک ہے جب بھی آپ جانا چاہیں تو بتائیے گا کہ یہ واقعی اہم وجہ ہے اس کےلئے آپ کو نہیں روکوں گی۔ اللہ نے آسانی کرا دی اور اپنے احساس عطا کر کے ساتھ حسد جیسے گند سے بچا لیا۔ غلطی کااحساس پیدا ہوتے ہی حسد دل سے مٹنے لگا۔




ذاتی تجربہ۳:
حسد ایسی بیماری ہے کہ جو ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں پھنساتی ہے کہ بعد میں خود پر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہماری یہ اوقات ہے کہ ذراسی بھی کسی کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔ میری اور کزن کی نوکری ایک ساتھ لگی ، میری جوائننگ دور کسی گاﺅں میں ہوئی جبکہ میری کزن کی اپنے گاﺅں اور گھر کے قریب ہی ایک اسکول میں ہوئی ۔ اس بات پر اس سے اتنا حسد آیا کہ اندر خراب ہو گیا تھا۔
دل میں آتا تھا کہ وہ کتنے مزے میں ہے۔صبح آرام سے اٹھتی ہے اور اسکول پہنچ جاتی ہے اور مجھے اتنا سفر کرنا پڑتا ہے۔ میری تعلیم بھی زیادہ ہے اور اس کی کم ہے تو اسے کیوں اتنی آسانی ہے وغیرہ وغیرہ ۔پھر احساس ہوا کہ میں تو حسد کا شکار ہو رہی ہوں۔ اور میری نظر میرے مقصدِ حیات سے ہٹ کر دنیا کے عارضی سیٹ اپ کی سہولیات میں پھنسی ہوئی ہے۔ مرے اندر حسد کی آگ بھڑک رہی ہے میں تو جل رہی ہوں کہ اللہ نے اس کو کیوں آسانی دی ہے اور مجھے کیوں محروم رکھا ہے ۔یہاں سراسر اس پر نظر تھی اور اپنی ملی ہوئی جاب پر شکر کا زرا بھی احساس نہیں تھا۔
پھر احساس ہوا کہ اللہ سوہنا تو میرے دل کے حال سے خوب واقف ہے میرا ایسے حسد کر نااسے نا پسند ہوگا۔ اب یہاں اس سے نظر ہٹا کر خود پر کی تو احساس ہوا کہ جو سیٹ اپ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ کزن کو ملے سیٹ اپ سے کئی گنا بہترین ہے۔ اللہ نے اس کے نصیب کا اس کو دیا اور مجھے میرے نصیب کا بہترین عطا کیا ہے۔ اللہ کی مدد سے ان تمام احساسات کو اندر مضبوط کرتے ہوئے میں نے حسد پر قابو پایا۔ اسی طرح شکر کے اور بھی پوائنٹ کھل کھل کر سامنے آنے لگے جس سے دل مطمئن و مشکور کر تا گیا کہ اللہ نے جو نعمتیں مجھے عطا کی ہیں وہ میرے حساب سے بہترین ہیں ۔اس کزن کے لیئے بھی دعا کی کہ اللہ اس کو یہ آسانیاں اوررزق نصیب کرے۔آمین