۔فحش گوئی۔
فحش گوئی قابل شرم ، بے ہودہ اور بے حیائی کی بات کو کہتے ہیں ۔ جب ہم کسی کے سامنے گھٹیا الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ہم اس شخص کے گھٹیا پن کا اظہار نہیں کررہے ہوتے بلکہ ہماری زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اپنے اندر چھپے گھٹیا پن کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں اور ایسی بات چیت فحش گوئی کہلاتی ہے ۔ اخلاق سے گری ہوئی بات چیت جس میں انسان زبان کا استعمال بے ہودہ اور انتہائی فضول باتوں میں کرتا ہے ، گالی گلوچ اور فحش باتیں روٹین کی بات چیت کا حصہ بن جاتی ہیں، فحش گوئی ہے ۔ ایسا ہوتا ہے کہ غصے میں انسان پہلے اخلاق اور شرافت کی حد پار کر کے اپنی عزت گنوانے کی طرف جب خود بڑھتا ہے تو پہلا قدم وہ فحش گوئی سے ہی لیتا ہے کیونکہ سب سے پہلا وار باطل زبان پر گالی گلوچ کی صورت میں کرتا ہے ۔ہم جب تک بڑی بڑی گالیاں نہ دے لیں تب تک نفس اندر پھڑ پھڑاتا رہتا ہے۔ عام روٹین میں بے تکلفی کا ایک لیول یہ سمجھاجاتا ہے کہ جب تک گفتگو میں گھٹیا پن یا فضول باتیں شامل نہ ہوں مزہ نہیں آتا، یہ سب باطل کا وار ہے وہ نہیں چاہتا کہ ہماری زبان پاک صاف ہو اور اس سے اللہ کا ذکر ہو یا حق بات نکلے ۔نفس انسان کو ایسی باتوں میں الجھائے
رکھتا ہے۔


قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ:
قرآن کریم اور حدیث میں فحش گوئی کی اکثر مقامات پر مذمت کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی ) نفاق ہی ہے ، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب ( کسی سے ) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔(صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو نہیں تھے ، نہ آپ لعنت ملامت کرنے والے تھے اور نہ گالی دیتے تھے ، آپ کو بہت غصہ آتا تو صرف اتنا کہہ دیتے ، اسے کیا ہو گیا ہے ، اس کی پیشانی پہ خاک لگے ۔(صحیح بخاری)
ثابت ہوا کہ زبان کے غلط استعمال کو فحش گوئی کہتے ہیں فحش گوئی کا مطلب ایسی باتیں کرنا یا ایسے الفاظ بولنا جن کا نہ کوئی مقصد ہ نہ کوئی فائدہ بلکہ وہ صرف وقتی طور پر نفس کی تسکین کےلئے ہوں۔ فحش گوئی کو گفتگو میں تیسرے درجے پر رکھا گیا ہے اس کا مقصد صرف زبان کی لذت ہوتی ہے اور فحش گوئی کرنے والے کے اندر کے احساس کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کے معمول میں گفتگو کے دوران اکثر ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو خواہ گالی گلوچ کی صورت ہوں یا ایسے الفاظ جو ہم دورانِ گفتگو عادتاً یا جان بوجھ کر ذاتی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اکثر ہم خود کو نمایاں کرنے کے لئے بھی ایسے الفاظ کا استعمال کر جاتے ہیں جوہماری شخصیت کا حصہ نہیں ہوتے۔ دورانِ گفتگو کسی کی برائی بیان کریں تو درحقیقت وہ کسی کی برائی نہیں وہ ہمارے اندر کا گھٹیا پن ہوتا ہے ایسا گھٹیا پن جس سے کسی کی عزتِ نفس محفوظ نہ ہو فحش گوئی میں آتا ہے۔

حضرت امام غزالی ؒ کی کتاب کیمیائے سعادت میں ہے۔
حضرت ابراہیم بن میسرہ ؒ کہتے ہیں کہ فحش گو قیامت کے دن کتے کی صورت میں ہو گا۔


فحش گوئی کے نقصانات:
ایمان کا خاص جزو حیا ہے، اور فحش گوئی جیسا عمل کر کے ہم اپنا ایمان کمزور کرلیتے ہیں ۔
فحش گوئی کر کے ہم نفس کی غلامی میں حد سے آگے گزر جاتے ہیں حد سے گزرنے والے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔
فحش گوئی سے معاشرے میں برائی پھیلتی ہے یوں اللہ کے بندوں کا دل بھی دکھا تے ہیں۔
فحش بول بولنے سے انسان شیطان کو خوش کرتا ہے ، شیطان یہی چاہتا ہے کہ انسان عمر بھر نفس کی غلامی کرے اور ہم اس کی غلامی کر کے خود کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
فحش گوئی سے ہم اپنے اخلاق کو متا ثر کرلیتے ہیں ، اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں جو بڑا نقصان ہے۔
فحش گوئی کرنے والے کے خیالات اور سوچو ں میں فحاشی ہوتی ہے اور اس طرح کی سوچیں اللہ سے دور کرتی ہیں ۔
فحش گوئی اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے اس کو کرنے والا اللہ کے ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو کر اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔
فحش گوئی ایک غیر اخلاقی عمل ہے جس سے انسان ، بندوں اور اللہ کی نظر میں اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے ۔
فحش گوئی زبان اور روح کو گندا کرتی ہے اور ہمارے اندر بے حیائی پیدا کرتی ہے جو اللہ کے نزدیک بہت برا عمل ہے۔
فحش گوئی زبان کا غلط استعمال ہے جو اللہ کی طرف سے دی گئی نعمت ہے اور امانت بھی ۔زبان کا غلط استعمال کر کے امانت میں خیانت کرتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔
فحش گوئی سے دل نرمی اور پیار کے احساسات سے خالی ہوتا جاتاہے ۔
زبان کا صحیح استعمال کر کے اور فائدہ مند گفتگو کر کے جہاں اللہ کی پسند اور خوشی پاسکتے ہیں وہاں فحش گوئی کر کے حق کی راہ سے پیچھے قدم ہٹا لیتے ہیں ۔



ذاتی تجربہ:
کالج ، یونیورسٹی میں دوستوں کےساتھ بات چیت کرتے ہوئے فحش گوئی کرتاتھا۔ زیادہ تر میری گفتگو کا لازمی حصہ فحش لطیفے ہوتے تھے ۔ ان کو سناتے ہوئے فخر محسوس ہوتا تھا۔ اسے بے تکلفی سمجھا ہوا تھا۔ جب بھی کوئی لطیفہ آتا تو دلچسپی سے سناتا اور سنتا ، اس عمل کو کبھی بھی فحش نہیں سمجھتا تھا ۔ اور نہ احساس تھا کہ باطل کے کہے میں آکر کس قدر غلط عمل کر رہا ہوں ۔آج بھی سب فری پیریڈ میں مل کر گپ شپ لگا رہے تھے۔میں نے اپنے مخصوص انداز میں بات شروع کی اور باتوں کے درمیان ایک دوست کو نشانے پر رکھ کر ایک گندی گالی اسے دے کر اس کے بارے میں بات کی ۔اس وقت یہ احساس تک نہ تھا کہ اللہ سن رہا ہے اور اللہ کو اپنے بندے کے ساتھ اس طرح بات کرنا پسند نہیں آئے گا۔ اپنے اس عمل سے اپنی زبان کو گندہ کر کے اللہ کا انتہائی ناپسندیدہ عمل کیا اور اپنا نقصان کر بیٹھا۔


فحش گوئی سے بچنے کے طریقے:
فحش گوئی سے بچنے کے لئے دل میں اللہ کے سمیع کے احساس کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اپنی زبان سے ہر ہر لفظ ادا کرتے ہوئے احسا س ہو کہ میرا اللہ مجھے سن رہا ہے۔ یہ احساس جتنابڑھے گا اتنا ہی فحش گوئی کی عمل میں کمی آئے گی۔
فحش گوئی سے بچنے کےلئے یہ احساس رکھا جائے کہ میں تو پیارے آقاﷺ کا امتی ہوں ان ﷺ کی پیروی کرنے کی کوشش میں ہوں ۔ ایسا ناپسندیدہ عمل کر کے میں اپنی نسبت سے دور ہو رہا ہوں اندر یہ احساس دل میں ندامت پیدا کرے گا اور زبان کو اس گند سے بچنے میں مدد دے گا۔
فحش گوئی اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔یہ عمل اس کے حکم کے خلاف ہے جو اس سے دور کر رہا ہے۔ یہ احساس ہمیںفحش گوئی سے بچنے میں مدد دے گا۔
۔ جہاں فحش بات کرنے کا احساس ہووہاں خاموش رہنے کاسٹیپ لے کر اس برائی سے بچ سکتے ہیں جتنا اس پر عمل کریں گے اتناہی محتاط ہو کر زبان سے لفظ ادا کریں گے

اندر یہ احسا س ہو کہ فحش گوئی سے خود کو روکنے کی کوشش اس لئے کرنی ہے کہ ایسا کرنے سے میرا اخلاق بہتر ہو گا جس کو لوگ پسند کریں گے اور یہی حسن اخلاق آگے اللہ کا پیغام بہترین طرح سے انجام دینے میں مدد دے گا۔
اپنے اندر ٹھہراﺅ لانے کی کوشش کرنا کہ کچھ بھی دیکھ یا سن کر فوراً سے رد عمل ظاہر کر کے فحش گوئی جیسا عمل نہیں کرنا۔ اندر ٹھہراﺅ ہو گا تو ہم سوچ سمجھ کر بات کریں گے جو اس وقت کے حساب سے مناسب لگے۔
اپنی ہر بات اور سوچ پر ہر لمحہ نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو جانچتے رہنا کہ کیا میری یہ سوچ یاعمل اللہ کو پسند آرہا ہو گا؟ ایسے احساس سے بھی فحش گوئی جیسے گناہ سے بچ سکتے ہیں ۔
کم بولنا بھی ایک ٹِپ ہو سکتی ہے اور بامقصد بات کرنا بھی اس کوشش میں مدد گار ہوتا ہے۔
اس بات کا احساس کہ جتنا فحش گوئی سے خود کو روکنے کی کوشش کریں گے اور اپنے الفاظ میں نرمی لائیں گے اتنا مالک کی مسکراہٹ اور خوشی پائیں گے اس چاہ میں خود کو فحش گوئی سے روک سکتے ہیں ۔
ایک حق کا راہی اپنی بات سو چ سمجھ کر مالک کی رضا کے مطابق کرنا ہے اور یہ خیال رکھتا ہے کہ میری اس بات میں کتنا حق ہے۔ بے مقصد بات سے گریز کرتا ہے۔
پیارے آقا ﷺ کے فرمان کو ذہن نشین کر لیں آقاﷺ نے فرمایا: دوزخ میں بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کے منہ سے نجاست بہتی ہو گی اور اس کی بو کے سبب سے سب دوزخی فریاد کریں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں تو انہیں بتایا جائے گا یہ فحش گو ہیں ۔
نسبت کا احساس رکھنا کہ کن پیاری ہستیوں سے ہماری نسبت جڑی ہے ، کیسے ہر گند کے باوجود بھی انہوں نے سنبھال رکھا ہے اگر وہاں سے بھی ٹھکرا دیئے گئے تو کہیں ٹھکانہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اپنی نسبت کا احساس رکھ کر خود کو فحش گوئی جیسے گند سے بچا ناہو گا۔
یہ بھی احساس رکھنا کہ ہم کس منزل کے حصول کے خواہش مند ہیں ۔ اللہ کی قربت میںآگے بڑھنے کےلئے اندر سے خالص ہو کر فحش گوئی کی منفی عادت کو ختم کرنا ہو گا۔
حدیث پاک میں ہے کہ بے شک فحش گوئی اور بد اخلاقی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں (مسند احمد)
اس حدیث پاک کو یاد رکھا جائے کہ فحش گوئی انسان کا دین سے تعلق خطرے میں ڈال دیتی ہے تو اس برائی سے بچنے کی کوشش کریں گے ۔
باطل کے وار کو سمجھیں اور اسے اپنا کھلا دشمن جانیں۔وہ زبان کا منفی استعمال کرا کے ذات کی تسکین کرواتا ہے اور جتنا ذات میں پھنستے ہیں اتنا ہی ہم منزل سے دور ہوتے ہیں۔یہ احساس رکھ کر ہم فحش گوئی سے بچ سکتے ہیں




۔
ذاتی تجربہ:
آج ہم سب دوست فارغ وقت میں گروپ چیٹ کر رہے تھے۔ ایک نہ مذاق میں کوئی بے ہودہ بات کی تو میں بھی حسب عادت اس بات کے جواب میں کوئی بے ہودہ اور فضول بات لکھ کر اسے جواب دینے لگا۔ سوچا کیا ایسا لکھوں کہ جواب بھی ٹکر کا ہو اور وب انجوائے بھی کریں۔ ابھی جواب لکھنے ہی لگا تھا کہ احساس ہوا کہ یہ کیسی عادت اپنا رکھی ہے کہ دانستہ طور پر ایسی فحش باتیں کرتا ہوں اور پھر جب سب اس پر ہنستے ہیں تو تسکین محسوس کرتا ہوں ۔ آج بہت ہی شرمندہ ہوا کہ فحش گوئی میں کیسا فخر!اس پر تو مجھے نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگنی چاہیئے۔اسی احساس میں میں نے جواب میں فحش بات کہنے سے خود کو روک لیا۔اللہ سے معافی مانگی کہ وہ تو ہرلمحہ سن رہا ہوتا ہے اور میں ہی اس احساس سے غافل تھا۔آج ارادہ کیا کہ آئندہ بھی فحش گوئی سے پرہیز کروں گا۔





فحش گوئی سے بچنے کے فائدے:
ہمارے منہ سے نکلے الفاظ ہماری عزت کا باعث ہیں ۔ اس طرح فحش گوئی سے بچ کر ہم اپنی عزت بچا رہے ہوتے ہیں ۔
فحش گوئی سے بچ کر مثبت ماحول پیدا ہوتا ہے ۔ اس سے سوچ اور عمل بھی مثبت رہے گا جس سے اردگرد کے لوگوں پر اچھا تاثر قائم ہوتا ہے۔
فحش بول کر ہم اپنا اندر گندا کرتے ہیں اور منفی سوچوں میں پھنس کر اپنی پاور ختم کر لیتے ہیں ، اگر اس برے عمل سے بچیں گے تو اپنی پاور بچائیں گے جس کی وجہ سے ثابت قدمی سے آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔
اس برے عمل سے بچ کر ہم نہ صرف خود بچتے ہیں بلکہ دوسروں کو اس برے عمل سے نکالنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔
فحش گوئی سے پیدا ہونے والی مزید برائیوں میں پھنسنے کے نقصانات سے بچے رہیںگے۔
برے عمل سے بچے رہیں گے تو اللہ کی قربت میں بھی اچھا مقام نصیب ہو گا اور معاشرے میں بھی ایک اچھی نظر سے دیکھا جائے گا۔ شرمندگی سے بچیں گے۔
فحش گوئی کر کے اپنے دل کے علاوہ دوسروں کا دل بھی گندہ کرتے ہیں ، اگر اس برائی سے بچیں گے تو دوسروں کا گناہ اپنے سر لینے سے بچ جائیں گے۔
دل اور زبان کا آپس میں تعلق ہے ایک ٹھیک رہے تو دوسرے پر بھی قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ جب زبان سے گند نکلنے کو قابو میں رکھیں گے تو دل بھی صاف رہے گا۔
فحش گوئی سے بچیں تواس برائی سے پیدا ہونے والی گندگی سے ہمارا دل صاف رہتا ہے ۔
ہم اس احساس سے فحش گوئی سے رکتے ہیں کہ اللہ سمیع ہے ہماری بات سن رہا ہے ۔ اس طرح اس برائی سے بچنے کی کوشش سے دل میں اللہ کی صفات پر یقین پختہ ہوتا ہے ۔
فحش گوئی کے گند سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ کی پسند یدہ عمل کواپناتے ہیں اور اللہ کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
جب ہم فحش گوئی سے ملنے والی تسکین کو ختم کرتے ہیں تو ذات کی نفی ہوتی ہے ۔
بولنے سے انسان کے کردار کا پتہ چلتا ہے، فحش گوئی کی بجائے اللہ کی بات کر کے ہم اللہ کا قرب پاسکتے ہیں ۔