۔فضول خرچی۔
اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو ان کے مقصد اور فائدے کےلئے استعمال کرنے کی بجائے صرف اپنی خواہش اور لذت کے لیے استعمال کرنا فضول خرچی ہے۔دنیا کی لذتوں میں اور شان و شوکت کو ظاہر کرنے کےلئے اتنا خرچ کرنا کہ جس کی ہماری حیثیت نہ ہو فضول خرچی ہے ۔ اکثر بندہ نفس کے ہاتھوں ناچتا ہے اور اسی کی وجہ سے دکھاوے کےلئے لوگوں کے سامنے خرچ کرتا ہے۔
قرآنی آیات اور احادیث:
سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 26,27
اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو۔بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔(صحیح مسلم )
فضول خر چی سے مرا د اپنی ذات پر ضرورت سے بڑھ کر خرچ کرنا ہے ۔و ہ مال جو ضرورت نہیں بلکہ نفس کی تسکین کے لئے خرچ کیا جائے فضول خرچی ہے یعنی بلاضرورت کچھ ایسی چیزیں خریدنا جن کی اشد ضرورت نہ ہو یا جن کے خریدنے کا مقصد صرف شوق اور چاہت کو پورا کرنا ہو، فضول خرچی ہے ۔ فضول خرچی شیطانی فعل ہے کیونکہ اس سے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے اور اس عمل سے چاہتوں کی پرورش ہوتی ہے۔ اللہ کے ہاں اس کو اس لیے بھی نا پسند کیا گیا ہے کہ ہمارے جس مال پر غریبوں ،مسکینوں کا حق ہوتا ہے اس کو ہم فضول خرچی میں اڑا کر ان کی حق تلفی کرتے ہیں ۔پیارے آقائے دوجہاںﷺ نے بھی میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس سے تنگدستی نہیں ہوتی۔ ضرورت کو پورا کرنے سے منع نہیں کیا گیا مگر ضرورت اور چاہت میں فرق بتایا گیا ہے ۔ میانہ روی سے بڑھ کر ضروری چیزوں یا کاموں پر پیسہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے چاہے اس میں کسی کا نفع نقصان نہ ہو۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا فانی ہے اور ما ل آزمائش.... تب بھی دنیا کے کاموں اور رنگینیوں میں نفس یا دل کو خوش کرنے کےلئے پیسے خرچ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر شادی ، غمی، پیدائش ، تہوار پر چیزوں اور ضرورت کو دراز کر لیتے ہیں اور اسٹیٹس کے نام پر بلا ضرورت خرچ کرتے ہیں ۔
فضول خرچی ایک لعنت ہے جو انسان کو دینی و دنیاوی لحاظ سے تباہ کر دیتی ہے۔
امام جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں ، میانہ روی اللہ کو پسند ہے اور فضول خرچی ناگوار اگرچہ کھجور کی گٹھلی کے برابر ہی کیوں نہ ہو ۔
اس فانی دنیا میں ہم بہت سے فضول اخراجات کرتے ہیں جس کا ہمیں آگے کی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا کیونکہ اس فضول خرچی سے نہ تو امت کی بھلائی ہوتی ہے اور نہ ہی ہم اللہ کے کسی ضرورت مند بندے کے کام آرہے ہوتے ہیں جیسا کہ مہنگے کپڑے خریدنا، مہنگے جوتے خریدنا، اور ضرورت سے زیادہ خریدنا شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر کہیں پر بھی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا جس کا مقصد صرف ذات کی تسکین ہو فضول خرچی ہے۔




فضول خرچی کے نقصانات:
فضول خرچی سے دل میں دنیا کی محبت بھر جاتی ہے ، دل و دماغ پر دنیا سوار ہو جاتی ہے جو اللہ کے راستے سے دوری کا سبب ہے۔
اللہ نے میانہ روی کا حکم دیا ہے ۔ فضول خرچی کرنے والا اللہ کی بنائی ہوئی حدود کو توڑ کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔
فضول خرچی ذات کے جال میں پھنسا کر رکھ دیتی ہے ۔ جب ہم فضول خرچی کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں تو اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ذات کی تسکین اس میں سے نکلنے نہیں دیتی۔
فضول خرچی کرنے والا اپنے مال کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ نہیں کرتا دی گئی نعمتوں کا غلط استعمال کر کے اللہ کا ناپسندیدہ کام کرتے ہیں۔
یہ احساس نہیں رہتا کہ اللہ کی دی گئی نعمتوں کا حساب دینا ہے یوں بے جا خرچ کر کے آخرت خراب کرتے ہیں ۔
فضول خرچی کرنے والا مال دکھاوے کےلئے خرچ کررہا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو متاثر کرنا ہوتا ہے جس سے معاشرے میں غلط رسم و رواج پھلتے پھولتے ہیں اور لوگوں کو دنیا کی محبت کی طرف راغب کرنے کا باعث ہے۔
فضول خرچی کرنے والانفس کا غلام ہوتا ہے۔ اس کانفس اسے دنیا کی چاہتوں میں پھنسائے رکھتا ہے۔ ایک کے بعد ایک چاہت پوری کرنے کے لیئے فضول خرچی کر کے شیطان کو راضی کرتے ہیں۔
فضول خرچی کرنے والا مال لگا کر لوگوں سے اپنی تعریف اور واہ واہ کروانا چاہ رہا ہوتا ہے یہ بات اس کےلئے فخر کا باعث بنتی ہے ۔وہ اپنے مال پر تکبر کرتا ہے جو اسے اللہ کے قرب سے محروم کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے سے ہم اللہ کے عطا کردہ انعامات اور نعمتوں کی قدر نہ کرکے ناشکری کرتے ہیں ۔
فضول خرچ انسان جو کہ اس عادت کو اپنا چکا ہوتا ہے جب کبھی اپنی عادت کو پورا نہ کر پائے تو وہ مایوسی اور مظلومیت میں جاتا ہے ۔
فضول خرچی کرنے والے اللہ کے عطا کئے ہوئے مال کی قدر نہیں کرتے ۔فضول خرچی کر کے ناشکری کے بھی مرتکب ہوتے ہیں ۔
فضول خرچی میں اللہ کا احساس نہ رکھ کر شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کو خوش کرتے ہیں ۔
فضول خرچی کی وجہ سے وہ لوگ جو کسی نعمت سے محروم ہیں ان کی محرومی کا درد محسوس نہیں ہوتا اور نہ دوسروں کے ساتھ اپنے پاس موجود شے بانٹنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
فضول خرچی سے دولت کی تقسیم کا عمل اسلام کے مطابق نہیں ہوتا آرائش و زیبائش پر بے دریغ خرچ کرنا ، حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتا ہے
فضول خرچی کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے احساس برتری پیدا ہوتا ہے ۔ اپنے مال و دولت کے بے جا استعمال کا مقصد خود کو دوسروں سے بر تر ثابت کرنا ہوتا ہے۔
فضول خرچی کر کے لوگ اپنی عزت منصب کو بڑا دکھانا چاہتے ہیں جس کے سبب بہت سے لوگ مالدار سے قرض دار بن جاتے ہیں جو کہ پریشانی کا باعث ہے۔
فضول خرچی کی وجہ سے اپنے انجام اور موت کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کی مستقل ٹھکانہ سمجھنے لگتے ہیں۔

فضول خرچی نفس کا اسیر بنا دیتی ہے ۔ جس سے اندر عاجزی اور انکساری نہیں آتی۔ مزید سے مزید کی چاہ سر پر سوار رہتی ہے ۔ اس لیے اپنے زندگی کے مقصد سے نظر ہٹا کر اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں ۔


فضول خرچی سے بچنے کے طریقے:
آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کر ے ۔ یہ احساس ہو کہ اللہ اور اسکے حبیب کا حکم ہے تو فضول خرچی سے رک جائیںگے۔
فضول خرچی کر کے نا صرف ہم اپنے آپ کو نقصان میں ڈالتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس موجود وہ لوگ جن کے پاس کم وسائل ہوں ان کے اندر احساس کمتری کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ اور وہ اللہ سے شکوے شکایات کرتے ہیں ۔ اندر یہ پختہ یقین ہو کہ خود بھی اس برائی سے بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے تو فضول خرچی سے بچے رہیں گے۔
دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کی تگ و دو کرنے کی بجائے اپنے نفس پر قابو پایا جائے تو یہ بھی ہمیں اسراف سے بچاتا ہے۔
شکر گزاری کااحساس بھی ہمیں فضول خرچی سے بچاتا ہے، اس احساس میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر ہوتی ہے اور ہم اسراف سے بچ جاتے ہیں ۔
اپنے پاس جو ہے اس میں دوسروں کو دینے اور بانٹنے کا جذبہ بھی ہمیں فضول خرچ کرنے سے بچاتا ہے۔
یہ احساس رکھا جائے کہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور اسراف کرکے ہم شیطان کے راستے پر چل رہے ہوتے ہیں ۔
دنیا میں رہ کر یہاں کا ہی نہ سوچیں بلکہ یہ احساس بھی ہو کہ جو اللہ نے عطا کیا اس کا حساب بھی دینا ہے ، یہ سوچ فضول خرچی سے بچائے گی۔
نمودو نمائش سے بچیں اور دوسروں سے مقابلہ بازی میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے کی بجائے سادگی کو اپنائیں تو فضول خرچی سے بچے رہیں گے۔
اپنے اندر عاجزی لائیں اور احساس برتری میں نہ پڑیں اندر یہ ہو کہ سب اللہ کی عطا ہے میرا کوئی کمال نہیں ، اس لیے عاجزی میں جھک کر اللہ کے ساتھ دل کا مضبوط رابطہ رکھ کر اس برائی سے بچنے کی دعا کریں ۔
اپنے مال کو صرف اپنا نہ سمجھیں کہ جو مال ہمارے پاس ہے وہ ہمارا اپنا ہے کیونکہ ہمیں جو عطا کیا جاتا ہے اس میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے مگر ہم صرف اپنا مال جان کر بے دریغ خرچ کرتے ہیں ۔ یہ احساس رکھا جائے کہ جو کچھ اللہ نے عطا کیا ہے وہ صرف ہماری ملکیت نہیں اس میں دوسروں کا بھی حق ہے تو فضول خرچی کرنے سے بچے رہیں گے۔




ذاتی تجربہ:
میں اس موسم کے لیئے پہلے ہی کافی کپڑے لے چکی ہوں۔ آج ایک دوست نے کہا کہ فلاں برینڈ کی سیل لگی ہے پچاس فیصد ڈسکاﺅنٹ ہے اور بہت اچھے کپڑے ہیں ۔ میں بہت خوش ہوئی ۔ اور دل چاہا کہ فوراً سے پہلے شاپنگ کے لیئے پہنچ جاﺅں اس سے پہلے کہ اچھے کپڑے ختم ہو جائیں۔ دل مچل رہا تھا پیسے بھی پاس موجود تھے اور بس دل تھا کہ جلدی سے خرچ کر دوں جبکہ مجھے ضرورت بالکل نہ تھی اور موسم بھی ختم ہونے والا تھا۔ نفس پھنسا اور اکسا رہا تھا کہ اگلے سال کےلئے لے لو ایسی سیل پھر نہیں لگے گی۔ امی کو بھی ساتھ جانے کےلئے تیار کر لیا۔ پھر احساس ہوا کہ یہ فضول خرچی ہے۔میرے پاس ضرورت کے کافی کپڑے ہیں اور اس وقت جو کپڑے لوں گی وہ سب فضول خرچی کے زمرے میں ہی آئے گا۔
اپنا جائزہ لیاتو محسوس ہوا کہ اللہ کا احساس مِس کر گئی تھی ۔یہ نہیں سوچا تھا کہ اللہ کو یہ عمل پسند نہیں آئے گا۔یہ احساس بھی ہوا کہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور میں جانتے بوجھتے یہی کام کرنے جارہی ہوں ۔ یہ احساسات بیدار ہوئے اور اللہ نے پاور دی تومیں نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس طرح فضول خرچی سے بچ گئی۔



فضول خرچی سے بچنے کے فائدے:
اس سے بچ کر ہم شیطانی کی پیروی سے بچ سکتے ہیں۔
۔ رزق میں برکت ہوتی ہے۔
کسی کی محتاجی نہیں ہوتی۔
فضول خرچی سے بچ کر ہم نمودو نمائش سے بچ سکتے ہیں ۔
دوسروں کے دل میں لالچ پیدا نہیں ہوتا ۔
ہم اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے ہیں اور دل عاجزی اور شکر میں رہتا ہے۔
فضول خرچی سے بچ کر ہم اپنے ساتھ معاشرے میں بھی فساد پھیلانے سے بچ سکتے ہیں ۔
اللہ کا قرب پانے کا بہترین راستہ درمیانے طریقے سے خرچ کرنا اور میانہ روی اختیار کرناہے۔
فضول خرچی سے بچ کر دنیا کی چاہتوں میں پھنسنے اور لالچ سے بچ جاتے ہیں ۔
۔ فضول خرچی سے بچ کر ہم اللہ کی ناراضگی سے بچ جاتے ہیں۔
فضول خرچی سے بچ کر ہم ذات کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنیوالے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اب اور کیا نادانی ہو گی کہ جو ہمارا دشمن ہے اسے ہی ہم اپنا بھائی بنا لیں ۔ یہ احساس ہمیں فضول خرچی سے بچالیتا ہے۔
اللہ کے نیک بندے جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخل کرتے ہیں بلکہ خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اللہ کے نیک بندوں میں شمار ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم فضول خرچی نہ کریں ۔
اپنے مال کو صرف اپنا نہ سمجھیں کیونکہ جو ہمیں عطا کیا جاتا ہے اس میں دوسرے بہت سے لوگوں کا بھی حصہ ہوتا ہے اس لیئے ضرورت سے زیادہ مال کو اللہ کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کریں۔