ریاکاری
ریاکاری کا مطلب دکھاوا کرنا ، فریب کرنا، ظاہرداری کرنا اور نفاق کرنا ہے یعنی کوئی بھی ایسا عمل جو اللہ کی رضا کے حصول کی بجائے لوگوں کی توجہ اور ستائش حاصل کرنے کےلئے کیا جائے ریاکاری کہلاتا ہے۔
بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ بندے کا ہر عمل اللہ کی رضا کےلئے خالص ہو لیکن جب کوئی عمل اس لئے کریں کہ یہ عمل کرنے سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنوں تو وہ عمل خالص نہیں ہوگا ریاکاری ہو گی۔ ریاکاری کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب اللہ کی رضا سے زیادہ لوگوں کی خوشی اور توجہ چاہنے کےلئے کوئی عمل کرتے ہیں ۔جب ذات کو مارنے کی بجائے ذات کی تسکین چاہنے کےلئے کوئی عمل کرتے ہیں ۔
ریاکار شخص اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور بے سکونی کا شکار رہتا ہے کیونکہ سکون تب ہی ملتا ہے جب ہمارا ہر عمل اللہ کی رضا کے لئے خالص ہو جبکہ ریاکاری کی وجہ سے کوئی عمل خالص نہیں رہتا ہماری روزمرہ زندگی میں ریاکاری زیادہ تر عبادات ، گفتگو میں ، اچھا لباس میں ، اپنی قابلیت دکھانے کےلئے ،صدقہ خیرات میں ، اپنے پاس کسی موجود اچھی چیز کی نمائش ، کھانے پینے وغیرہ میں آ جاتی ہے ۔اللہ کی رضا پانے کے علاوہ اس غرض سے عبادات کرنا یا یہ چاہنا کہ لوگ اس کی عبادات سے آگاہ ہوں ریاکاری ہے۔
اس کے علاوہ بھی ریاکاری کی بہت سی مثالیں ہیں جیسے کہ لوگوں سے اس لیے اچھے طریقے سے ملنا کہ لوگ کہیں کہ بہت اخلاق والا یا اپنی تعریف کروانا مقصد ہو۔ ایک اور ریاکاری کی مثال یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ایسے ڈھنگ اپنا لینا جو کہ حقیقت میں ہماری روٹین کا حصہ نہیں ہوتے۔



قرآنی آیات اور احادیث:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا اعلان کر کے صدقہ کرنے والے کی طرح ہے آہستہ قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے یہ حدیث حسن غریب ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن آہستہ پڑھنا زور سے پڑھنے سے افضل ہے کیوں کہ علماءکے نزدیک چھپا کر صدقہ دینا اعلان کر کے صدقہ دینے سے افضل ہے۔ نیز اہل علم کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ریاکاری و خود پسندی سے محفوظ رہے، کیوں کہ اعلانیہ اعمال کی بہ نسبت خفیہ اعمال میں ریا کا خوف نہیں ہوتا۔(ترمذی شریف)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے ( یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے ) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے ( جتنا کہ اس نے کیا ہے )۔(صحیح بخاری)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذاءدیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔( سورة البقرہ ،آیت 262)
بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے (سورة النسائ، 145)
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔(سورة توبہ آیت 67)
اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے آتشِ دوزخ کا وعدہ فرما رکھا ہے (وہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہ (آگ) انہیں کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ برقرار رہنے والا عذاب ہے۔(سورة توبہ آیت 68)
ہمارے ایسے عمل جن کو کرتے ہوئے نیت خالص اللہ کی رضا نہ ہو بلکہ دکھاوا مقصد ہو یا پھر ہم کوئی بھی کام کسی کی دیکھا دیکھی شروع کریں تو وہ بھی دکھاوا یا ریاکاری ہے۔
روزمرہ کے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود کو ہر ایک کے سامنے اچھا اچھا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ ہم اتنے اچھے ہوتی نہیں جتنا اچھا بننے کو کوشش وقت طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت اچھانہ ہونے کے باوجود خود کو بہت اچھا ظا ہر کرے میں ہم صرف دکھاوا کر رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے بھی دیکھا جاسکتاہے کہ فرائض کی ادائیگی اور دیگر عبادات ادا کرنا، حج و عمرہ اس وجہ سے بھی کیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود حج عمرہ بھی نہیں کی۔خود کو نیک پاک دکھانے کےلئے اور لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کی خاطر بھی یہ عمل کیا جاتا ہے جو کہ ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے ۔



ریاکاری کے نقصانات:
ریاکاری سے ہمارا عمل کھوکھلا ہو جاتا ہے کیونکہ عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے اور جب نیت دکھاوے کی ہوتوعمل کھوکھلا ہو جاتاہے۔
ریاکاری اللہ کو پسند نہیں ہم لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کےلئے خود کو اللہ کی نظروں میں گرا کر اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔
ریاکاری ہم اپنی ذات کی تسکین کےلئے کرتے ہیں کہ مجھے کوئی غلط نہ کہے ۔ صدقہ خیرات کرتے ہیں تو اس لیے کہ لوگ سخی کہیں اسطرح ریاکاری عمل کے خالص پن کو ختم کر دیتی ہے ہمارا عمل اللہ کی رضا کے حصول کے لیئے نہیں ہوتا۔
ہماری نظر وقتی اور عارضی واہ واہ پر ہوتی ہے جو دنیا داری میںپھنسا ہونے اور آخرت کو بھول جانے کی نشانیاں ہیں ، دنیا میں واہ واہ کی چاہ ہمیں اپنے اصل سے دور کر دیتی ہے۔
ہماری عبادت میں ریاکاری دل میں اللہ کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اللہ کے احساس سے غافل دل اللہ کی قربت میں کیسے آگے بڑھ سکتا ہے اس طرح ریاکاری ایسا عمل ہے جس سے ہم خسارے ہی خسارے میں ہیں۔
ریاکاری سے ہم اپنے ایمان کو کمزور بنالیتے ہیں ۔ہم اپنے عمل کا بدلہ یہیں لوگوں سے ہی چاہتے ہیں جبکہ عمل کا بدلہ تو اللہ سے ہی ملے گا۔ اس طرح ہم اللہ پر یقین میں کمی کر کے اپنا نقصان کرتے ہیں ۔
ریاکار اپنی نیکیوں کا دکھاوا اور نمودو نمائش کر کے اللہ کے قرب سے دور ہو جاتا ہے۔
ریاکار میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے جو اللہ کی آشنائی میں آگے بڑھنے نہیں دیتی۔
ریاکار نفس کے فریب میں مبتلا رہتا ہے ان کا نفس اس جھوٹے دکھاوے والے عمل کو اچھا کر کے دکھاتا ہے اور حق کی راہ سے دور کر دیتاہے۔
ریاکاری سے دل دنیاوی عزت اور چاہتوں میں ڈوبتا جاتا ہے جس کی وجہ سے دل دنیا کے جال میں پھنس کر رہ جاتاہے۔
دوسروں کے سامنے دکھاوا کرنا اور دنیا کے سامنے عزت بنانے کی چاہ میں ہم خود کو اللہ کی نظروں میں گرا لیتے ہیں ۔
ریاکاری میں دل بہت زیادہ دنیا کی فانی چیزوں میں پھنسا ہوتا ہے اور ان کے ذریعے اپنی عزت بنانے میں لگا ہوتا ہے ۔جس سے دل اللہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جو حقیقی عزت دینے والاہے۔
ریاکاری میں ظاہر کو بہت بڑھاکر پیش کرتے ہیں ۔ دکھاوا کرتے ہیں اور دکھاوا اللہ سے دور کرتا ہے۔
دل میں ریاکاری کی بدولت تکبر اور غرور پیدا ہوتا ہے اور اکڑ پیدا ہوتی ہے اور اس میں اپنا دنیا اور آخرت کا نقصان ہے۔
ریاکارکے کسی عمل کو بھی کوئی بھی سچا نہیں جانتا ، سب اس ریا کاری کی وجہ سے اس کو فریبی سمجھ کر اس سے دور ہو جاتے ہیں ۔
ریاکار سچے احساسات اور جذبے سے محروم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ دکھاوے کے پیچھے بھاگتا ہے۔
ریاکار انسان کے دل کی حالت ریاکاری کی وجہ سے گندی ہوتی ہے ۔
ریاکاری سے اندر عاجزی کے احساس ختم ہونے لگتے ہیں اور اندر ذات اٹھتی ہے تو انا کا گہرا وار ہوتا ہے اور جو کہ اللہ کی آشنائی سے دوری کا باعث ہے۔



ذاتی تجربہ :
جب حق کی آشنائی نہ تھی اور سلسلے سے منسلک نہ ہوئی تھی ، تب کبھی اپنے عمل کو غور سے دیکھ نہیں تھا کہ کیا کر رہی ہوں اور عمل میں کتنی سچائی ہے اور عمل کتنے خالص پن سے کر رہی ہوں۔پہلے فرائض کی ادائیگی کرتی تو اندر دکھاوے کا احساس ہوتا کہ سب نیک سمجھیں۔
جب آشنائی عطا ہوئی تو احساس ہوا کہ میں اکثر اس وقت نماز ادا کرتی ہوں جب کوئی نہ کوئی آس پاس موجود ہو۔ اسی طرح جب کبھی کوئی سامنے نہ ہوتا تو میں بعد میں کسی بہانے سے اپنی عبادت کا ذکر کرتی تا کہ اسے پتا چلے کہ میں تو ہر وقت اللہ کے ذکر میں ہی مشغول رہتی ہوں۔
فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اگر کوئی سامنے ہوتا تو اللہ کے سامنے پیش ہونے کے احساس کو بھلاکر اپنے آپ کو عبادت میں مگن دکھا کر ریاکاری کرتی کہ سب اچھا سمجھ کر تعریف کریں گے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ سب مجھے دیکھ رہے ہیں اپنے عمل میں کھوٹ شامل کرتی رہی ۔اپنے فرائض اور عبادت کو دکھاوے کی خاطر انجام دے کر عمل کا خالص پن ختم کر لیا۔ خود کو اللہ سے دور کر کے اپنا نقصان کرتی رہی ۔




ریاکاری سے بچنے کے طریقے:
۔ اللہ سے دل کا مضبوط رابطہ رکھ کر احساس، سوچ ، عمل میں خالص نیت سے چلیں تو ریاکاری جیسی برائی سے بچ سکتے ہیں ۔
دنیا وی واہ واہ اور جھوٹی شان کے لئے دوغلے پن سے بچیں یہ احساس ہو کہ یہاں سب فانی ہے ۔جس جھوٹی عزت کے لئے ریاکاری کر رہے ہوںاس کی کوئی حقیقت نہیں، عزت ، تو عزت والے رب سے جڑ کر ہی مل سکتی ہے اور عزت وہی ہے جو اللہ عطا کرے ۔ یہ احساس ریاکاری جیسی برائی سے بچنے میں مددگار ہے۔
خود گہری نظر رکھ کر اپنا محاسبہ کیا جائے جہاں ریاکاری آئے وہاں الرٹ رہ کر خود کو اس سے بچایاجائے۔
جزا اور سزا کا خیال رکھا جائے، جو بھی عمل کریں وہ خالص اللہ کی رضا کےلئے ہو نا کہ لوگوں کو دکھاوے کےلئے، اس طرح اندر یہ احساس ہو کہ ریاکاری کی وجہ سے عمل کی جزا سے محروم ہو جائیں گے ۔اس نقصان سے بچنے کے لیئے ریا کاری سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ کے دلوں کے حال اور نیت سے واقف ہونے کی صفت پر یقین ہو کہ وہ ظاہر و باطن میںکے فرق اور ہمارے ہر احساس سے باخبر ہے تو ہم ریاکاری جیسے عمل سے بچتے ہیں۔
پیارے آقاﷺ نے ریاکاری کو چھپا شرک قرار دیا ہے ۔ یہ احساس ہو کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے تو ریاکاری سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
دنیا کے عارضی ہونے کے احساس کو پکڑ کر ہم ریاکاری جیسے گناہ سے بچ سکتے ہیں ، کیونکہ یہاں کے عارضی فائدے حاصل کرنے کےلئے ریاکاری کرتے ہیں اگر کر بھی لیں تو جو کچھ بھی ہے وہ ختم ہو جانا ہے۔ اس عارضی اور ختم ہونے والی دنیا کے پیچھے دو غلا پن کرنے سے کچھ حاصل نہیں یہ احساس ریا کاری سے بچاتا ہے۔
خود کو ریاکاری کے نقصانات یا دکرواتے رہنا بھی اس سے بچنے میں مدد گار ہے ۔یہ اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے اور اس سے دوری کا باعث ہے، یہ احساس ہو تو ریاکاری سے بچے رہتے ہیں۔
خود کو ہمیشہ ایک حق کی راہی کے حیثیت سے دیکھنا کہ حق راہی ہمیشہ عمل کے خالص پن کی بنا پر ہی آگے بڑھتا ہے ، جتنااندر خالص اور سچا ہوگا اتنا ہی حق کی را ہ پر آگے بڑھیں گے ، یہ احسا س ریاکاری سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔






ریاکاری سے بچنے کے فائدے:
دل میں خلوص پیدا ہو گا اور اللہ کے ساتھ دل کے رابطے میں مضبوطی آئے گی ۔
عمل کا بہترین اجر دنیا و آخرت دونوں میں اللہ سے حا صل ہو گا ۔
مثبت احساس کے ساتھ کسی کےلئے کچھ کریں گے تو آپس میں پیار اور خلوص کی فضا پیدا ہوگی۔
دوسروں سے امیدیں وابستہ نہیں ہوں گی بلکہ ہر طرح کے عمل کے بعد صلے کی توقع اللہ سے ہی رکھیں گے ۔
حق کی راہ پر آگے بڑھنے کی طاقت ملے گی ۔
ریاکاری سے بچ کر ظاہرو باطن کا فرق مٹتا ہے جو ہمیں خالص ہونے میں مدد یتا ہے۔
اللہ پرایمان مضبوط ہوتا ہے اوردنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔
ریاکاری سے بچ کر دل صاف ہوتا ہے۔دل کو سچے احساس عطا ہوتے ہیں جس سے عمل میں بہتری آتی ہے۔
ریاکاری کا خاتمہ ہمارے لوگوں کے ساتھ معاملات کو بہتر کرتا ہے ۔زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
۰ریاکاری سے بچ کر ہم تکبر اور غرور سے بچ سکتے ہیں کیونکہ جب ہم اپنی چیزوں کا دکھاوا کرتے ہیں تو ہمارے اندر تکبر کا احساس ہوتا ہے۔
ریاکاری سے بچ کر دل میں عاجزی اور جھکاﺅ کا احساس آتا ہے۔



ذاتی تجربہ:
میں قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ تھوڑا سا ہی پڑھ کے تلاوت مکمل کرنے لگی لیکن اسی وقت احساس ہوا کہ سب پاس بیٹھے ہیں۔وہ کیا کہیں گے کتنی کم تلاوت کی ہے۔ یہی سوچ کرمزید پڑھنے لگ گئی ۔ اس وقت نہ تو دل میں قرآن پاک کی محبت کے احساسات تھے اور نہ ہی شوق سے پڑھ رہی تھی۔
پھر ایک دم احساس ہوا کہ میرا یہ عمل اصل میں تو اللہ کی خوشی اور رضا کے لیئے ہونا چاہیئے جبکہ میں لوگوں میں خود کو نیک ثابت کرنے کے لیئے ایسا کر رہی ہوں تو یہ ریا کاری ہے۔ اللہ تعالیٰ تو سب دیکھ رہاہے اور میری نیت سے بھی واقف ہے ۔اگر نیت ہی لوگوں پر اپنی نیکی کو ثابت کرنا ہے تو یہ عمل اللہ کے لیئے تو نہ رہا۔میںنے مزید نہ پڑھا۔ ریاکاری سے کئے جانے والے عمل کو اس وقت ترک کیا اور آئندہ کے لیئے ارادہ کیا کہ جب بھی پڑھوں گی اللہ کی رضا کے لیئے ہی پڑھوں گی۔ اللہ کی نظر میں ہونے کے احساس نے مدد دی اور میں ریا کاری کے اس گند سے بچ پائی۔