تنگ دلی
تنگ دلی ہمارے ظرف کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ تنگ دل شخص چھوٹی چھوٹی باتوں جیسا کہ کسی کی معمولی مدد کرنے، مل بیٹھنے ، کھانے پینے، بانٹنے ، برتنے اور لین دین وغیرہ میں ناصرف دوسروں کے ساتھ معاملات میں بلکہ اپنی ذات کے حوالے سے بھی ایسے ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یوں اللہ کی دہ ہوئی نعمتوں سے خود بھی بہترین طریقے سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے۔
اپنی ذاتی چیز کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے میں عار محسوس کرنا تنگ دلی ہے۔ اگر جھجھک محسوس کرتے ہوئے بھی کچھ دوسرے کے ساتھ شیئر کر لیا تو بھی وہ تنگ دلی ہو گی۔ اللہ اور اسکی محبت کے احساس میں کمی تنگ دلی کا سبب بنتی ہے دل میں اللہ کا احساسِ آشنائی جتنا کم ہو گا اتنا ہی دل میں تنگی ہوگی۔ تنگ دلی کا شکار ہم تب ہوتے ہیں جب ہمار ا یقین اللہ پر کم ہوتا ہے کہ جس اللہ نے سب دیا ہے وہ بعد میں اور بھی دے سکتا ہے۔ تنگ دل شخص اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے ، دل کی راحت سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ جب ہم کسی کی جائز ضرورت یا خواہش پوری کرنے کےلئے اس کے ساتھ اپنی کوئی بھی چیز بانٹتے ہیں تو اس کا دل خوش ہو جاتا ہے اس کے دل سے پیار بھری دعائیں نکلتی ہیں جس سے ایک دوسرے کےلئے دلوں میں پیار بڑھتا ہے ۔ کسی کا دل خوش کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ اللہ اپنے بندے سے راضی ہو کر اس کے دل کو راحت و تسکین بخشتا ہے ۔دل کواللہ کی قربت محسوس ہوتی ہے جبکہ تنگ دل شخص اس احساس سے خود کو محروم کر لیتا ہے۔
اگر ہم روزانہ کے معاملات اور معمولات کا جائزہ لیں تو کئی مقامات پر تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔خاص طور پر جب ہمیں کہیں آرام سکون قربان کرنا پڑتا ہے ایسے میں کسی کو ایک گلاس پانی دینا بھی مشکل لگتا ہے ۔ کسی کو کھانا نہ دینا ، سلام کا جواب نہ دینا ، مسافر کو راستہ بتانے میں ، کوئی کھانے پینے کی چیز آپس میں بانٹنے میں، کسی کا کوئی کام کرنے میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ تنگ دلی کےلئے کسی معاملے کا بڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ہم روز مرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں جیسے کہ اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو بھی ہم کھلے دل سے اس کی تعریف نہیں کرتے، اگر کوئی استعمال کی چیز مانگے تو اگر چیز دے بھی رہے ہوں تو دل تنگ پڑتا ہے۔
اس کو ایسے بھی چیک کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے یا کچھ لوگوں کی تعریف تو کھلے دل سے کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔اس کے علاوہ اپنے ساتھ کسی دوسرے کی شراکت داری میں عار محسوس کرنا یا اس کا کسی معاملے میں ساتھ نہ دنیا بھی تنگ دلی کہلاتا ہے۔ ہم تنگ دلی کی وجہ سے کسی رشتے کو دل میں جگہ نہیں دے سکتے اور ہمارے اور اگلے کے درمیان نہ چاہتے ہوئے بھی دوری ہوگی۔
قرانی آیت:
فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے(سورة بنی اسرائیل، آیت ۰۰۱)
بخل و تنگ دلی کو محدود معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ یہ چیز دراصل فیاضی، فراخ دلی اور ایثارو قربانی کی ضد ہے اور مختلف معاملات میں مریضانہ طرزِ فکر اور غیر صحت مند طرز عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ رواداری اور وسعتِ نظر اور ایک دوسرے کے جذبات کی پاسداری کی صفات معاشرتی زندگی کی خوشگواری اور ہمواری کی ضمانت ہوتی ہیں۔معاشرتی زندگی تنگ دلی و بخل کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو آپس کے تعلقات بھی خراب ہوتے ہیں اس لیے اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے اور اس کے بر عکس اعلیٰ ظرفی اور فراخدلی کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ ان صفات کے بغیر اسلامی طرز معاشرت کی امتیازی شان اجاگر نہیں ہو سکتی۔


تنگ دلی کے نقصانات:
۔ تنگ دلی سے دل میںایک منفی احساس آجاتا ہے جس سے اللہ کی قربت سے دور ہوتے ہیں ۔
تنگ دلی سے دل میں پیار اور محبت کے جذبے اور احساسات کی جگہ سختی آجاتی ہے۔ دل جب سخت ہوتو کچھ اند ر جذب نہیں کرتا اس طرح حق کی راہ پر ہوتے ہوئے بھی رہنمائی نہیں لے پاتے اور نہ ہی آگے بڑھ پاتے ہیں۔
ہماری تنگ دلی کی وجہ سے ہمارے ساتھ رہنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے ۔ہم اللہ کے بندوں کے لیئے آسانی نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان کی بھلائی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
دل میں وسعت نہ ہونے سے دوسروں کو حق کا پیغام بھی نہیں دے پاتے جس سے اپنا نقصان کرتے ہیں ۔
ہماری تنگ دلی کی وجہ سے دوسرے ہم سے مدد طلب کرنے اس طرح دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے اور یوں ہم کسی کی مدد نہ کر کے اللہ کی قربت پانے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔
تنگ دلی سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور آپس میں پیار محبت کے احساس ختم ہونے لگتے ہیں ۔ دل میں اللہ کا احساس نہیں اتر پاتا جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے۔
تنگ دل اپنی ذات میں پھنسا ہوتا ہے اور اپنی ذات کی پوجا کر کے ذات اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔
تنگ دل ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے جس سے اندر انا اور تکبر کے احساس پروان چڑھتے ہیں جو اللہ کی قربت میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔
تنگ دل انسان لوگوں کو عام استعمال کی چیزیں بھی دل گندہ کر کے دیتا ہے یا تنگ دلی کی وجہ سے دینے سے گریز کرتا ہے جس سے اللہ کے بندوں سے پیار کم ہو جاتا ہے اور تعلقات اچھے نہیں رہتے ۔
۔ تنگ دل انسان صرف لین دین میں ہی نہیں اور معاملات میں بھی تنگ دل ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے کسی کی تعریف کرنے میں پیار دینے میں تنگ دلی دکھاتا ہے ۔ یوں اپنی ذات میں پھنس کر اللہ کے قرب سے محروم ہو جاتا ہے۔
تنگ دل انسان کا یقین کا لیول بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ لوگوں کو کوئی چیز دینے میں اسے کمی کا خدشہ رہتا ہے اور اسے یقین نہیں ہوتا کہ سب عطا کرنے والا اللہ ہے اس طرح تنگ دل شخص اپناایمان کمزور کر لیتا ہے۔
تنگ دلی منفی سوچ ہے جو حق کے سفر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے وسعتِ دل کے ساتھ اچھی سوچ، احساس کو دل میں جگہ ملتی ہے جو کہ تنگ دلی سے نصیب نہیں ہوتی۔
۔ تنگ دلی سے اندر حسد کا جذبہ پروان چڑھتا ہے کہ مجھے سے کوئی آگے نہ بڑھے ۔ تنگ دل شخص کسی کی خوشی اور کامیابی سے خوش نہیں ہوتا اور جلتا کڑھتا رہتا ہے۔
تنگ دل اللہ کی راہ میںخرچ کرنے سے عار محسوس کرتا ہے اور دولت سمیٹ کر رکھتا ہے اس طرح عارضی مال و دولت دنیا کی محبت کی وجہ سے اپنی آخرت بربادکرتا ہے۔
تنگ دل نہ خود کھاتا ہے نہ کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے سائلوں کو خالی ہاتھ رخصت کر کے وہ اللہ کے بندوں کے کام نہیں آتا ، مدد نہیں کرتا اور اللہ کے بندوں کے کام آکر اللہ کی محبت بھری نظر پانے سے محروم ہو جاتا ہے۔
تنگ دلی سے انسان کے اندر خود غرضی بڑھتی ہے۔ اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں کرتا نہ احساس ہوتا ہے اس طرح تنگ دلی محبت کے جذبات پروان چڑھانے سے روکتی ہے۔
تنگ دل اللہ کی محبت کو زیادہ محسوس نہیں کر پاتا اور قربت کے سفر میں پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات بہت عظیم اور بڑی ہے ۔جہاں دل میں نرمی اور وسعت ہوگی وہاں ہی وہ سماتا ہے
تنگ دل انسان ذات کو چاہتا ہے اور ذات اللہ کے احکامات کے منافی کام کراتی ہے ۔ یوں تنگ دلی کا شکار ہو ا شخص اللہ کے احکامات کو فراموش کر کے اپنا نقصان کرتا چلا جاتا ہے۔


ذاتی تجربہ:
اکثر جب کوئی مجھے سے کپڑے یا جوتے مانگتا ہے تو دل میں تنگی آتی ہے کہ نہیں دوں گی ۔اگر دیں توخراب نہ ہو جائیں اس بات کی وجہ سے زیاد ہ تر ٹال دیتی ہوں اور برا ؓبھی لگتا ہے ۔آج کالج میں ایک فنکشن تھا۔ میری دوست نے مجھ سے میرا ایک سوٹ مانگا کہ وہ فنکشن پر پہن لے گی۔میرا وہ سوٹ پرانا بھی تھا اور مجھے وہ آج پہننا بھی نہیں تھا اس کے باوجود جب اس نے مانگا تو مجھے بے حد ناگوار گذرا۔میں نے اس کو بہانے سے ٹال دیا اور جب انکار کیا تو وہ اپنا سا نہ لے کر رہ گئی۔جب وہ چلی گئی تو احساس ہوا کہ میں عام استعمال کی چیزیں اللہ کے بندوں کو دیتے ہوئے دل تنگ کر لیتی ہوں ۔ذات مجھے پھنساتی ہے اور اللہ کی پسند کے مطابق عمل سے روکتی ہے۔آج بھی میں اس کی مان کر اللہ کی قربت سے دور ہوئی اور اپنا نقصان کر لی۔


۔ سردی کا موسم ہے اور اکثر ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوئی رہتی ہے۔رات ہماری ایک پڑوسن سلنڈر مانگنے آئی تو دل میں تنگی آئی کہ یہ سلنڈر لینے میری طرف کیوں آئی ہے سلنڈر سارا ختم نہ کر دیں اگر ایسا ہوا تو صبح مجھے ناشتہ بنانے میں مسئلہ ہو گا۔دل تنگ ہوا اور اندر ایسے ہی خیالات آنے لگے۔ اس وقت دل کی تنگی سے الرٹ ہوئی کہ اتنی سی بات پر دل کیوں تنگ کر رہی ہوں۔انہیں سلنڈر دیا تو یہ احساس اندر تھا کہ اللہ نے اپنا بندہ مجھ تک بھیجا اور اس کی ضرورت مجھ سے وابستہ کی اور اس کی ضرورت پوری نہ کر کے میں اسے ناراض کر دوں گی۔اللہ کے بندوں کے کام نہ آکر اللہ کو ناراض کر نے کے نقصان کا احساس ہوا تو یہ سٹیپ لے سکی۔


تنگ دلی سے بچنے کے طریقے:
تنگ دل میں اللہ اور اس کا پیار نہیں سما سکتا۔ تنگ دلی دکھا کر اللہ کی قربت کی بجائے اس سے دوری ہوں گے، یہ احساس تنگ دلی سے بچنے میں مدد گار ہے ۔
جس کےلئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کے ساتھ اللہ سے مدد مانگ کر اچھا پیش آنا۔ اللہ سے مدد مانگ کر پاور محسوس ہوتی ہے اور دل میں وسعت آنے لگتی ہے۔
۔ یہ احساس کہ جس دل میں اللہ کے ایک بندے کےلئے اتنی تنگی ہے وہ دل کیسے اللہ کا گھر بن پائے گا، یہ احساس رکھ کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
اس بات کا احساس کہ دل میں تنگی لانا اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے ۔ اس طرح اللہ کی ناراضگی کے احساس سے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں
تنگ دلی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس کے لئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کےلئے دعا کی جائے، اس کی بہتری اور کامیابی کےلئے دعا کرنے سے بھی اندر وسعت آتی ہے۔
اس بات کا احساس اور یقین کہ کوئی جو بھی کرے اگر ہم نے اسے کھلے دل سے پیار دیا یا اسکی مدد کی تو ہمارا ایسا کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور وہ خوش ہو گا۔ یہ احساس بھی تنگ دلی سے بچاتا ہے۔
۔ راضی با رضا رہنے کی کوشش کرنا ، اللہ کی رضا پانے کےلئے اس کے بندوں کے کام آنا ، مدد کرنا ، خدمت کرنا دل میں وسعت لائے گا اور تنگ دلی سے بچے رہےں گے۔
کھلے دل سے ، بے لوث ہو کر اگلے کو پیار دینا اور کام آنا ، مدد کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور اس کی قربت میں آگے بڑھیں گے اس احساس سے بھی دل کی تنگی سے بچ جاتے ۔
اللہ پر یقین کو بڑھا کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے دل میں تنگی اس لیے آتی ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ہمیں عطا کی گئی نعمتوں میں کمی آجائے گی یہ یقین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس بات کا احساس پیدا کرنا کہ سب اللہ کی عطا کی گئی نعمتیں ہیں جس نے آج عطا کیا ہے ، وہ کل بھی عطا کرے گا پھر انہیںبانٹتے ہوئے کیوں تنگ دلی دکھائیں۔ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کے ساتھ شیئر کریں تو وہ خوش ہو کر اور بھی عطا کرے گا۔
پیارے آقاﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھ کر ہم تنگ دلی سے بچ سکتے ہیں ۔ پیارے آقا ﷺ جیسا فراخ دل نہ کوئی تھا اور نہ ہی ہوگا آپ ہمارے لیے مثال ہیں ۔ اس لیے آقاﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
دل دنیا کی خواہشات سے آزاد کر کے تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا کی چاہتیں دل کو تنگ کردیتی ہیں جبکہ اللہ کی محبت دل میں بس کر اس میں وسعت پیدا کرتی ہے۔
عاجزی اور شکر گزاری کے احساس دل میں رکھ کر بھی تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔
تنگ دلی دوسروں کے ساتھ معاملات کے علاوہ ذات میں بھی آتی ہے جس سے ہم خود بہترین طریقے سے اللہ کی نعمتوں سے لطف نہیں اٹھا سکتے یہ احسا س ہو کہ یہ سب جو مجھے عطا ہے وہ اللہ کی دین ہے میرا کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے تمام نعمتوں کو اچھے طریقے اور خوشی سے استعمال کرنا دل کی تنگی دور کر کے وسعت لاتا ہے۔
معاملات میں مل بیٹھنا ، لین دین، کھانا پینا ان تمام کو وسعت دل سے استعمال کرنا ہے اور اللہ کا شکر گزار ہونا ہے۔ شکر گزاری میں رہنے سے دل کو وسعت ملتی ہے۔اور تنگ دلی دور ہوتی ہے۔


ذاتی تجر بہ:
۔ میں نے کچھ دن پہلے جوتے لیے تھے، مجھے بہت پسند تھے وہ میں نے ایک بار استعمال کے بعد سنبھال کر رکھ لیے ۔ ہمیں خاندان میں کسی تقریب پر جانا تھا تو بہن نے کہا کہ وہ جوتے مجھے دے دو، میرے کپڑوں کے ساتھ میچ ہیں۔اس پر میرے دل میں تنگی آئی کہ میرے نئے جوتے ہیں اور اتنے پسندیدہ ہیں ، میںنہیں دیتی بہن کو منع کر دیتی ہو ں کہ کوئی اور پہن لے ۔ کوئی اتنے غور سے میچنگ نہیں دیکھے گا۔ فوراََ احساس ہوا کہ میں صرف جوتوں کے لئے اتنا دل تنگ کر رہی ہوں ۔ پاﺅں میں ہی پہننے ہیں نا اتنی سی اوقات ہے ۔ اور دل ایسے تنگ کر رہی ہوں کہ بہن کو نہیں ضرورت کے باوجود اسے نہیں دے رہی ہوں۔ اندر اتنی سی شے کی چاہت رکھی ہوئی ہے۔ احساس ہوا کہ ایک ذرا سے استعمال کی چیز اللہ کے بندوںکے ساتھ نہیں بانٹ رہی۔ شرمندگی ہوئی اور بہن کو اسی وقت جوتے پہننے کو دے دیے۔ اور اللہ سے معافی مانگی اور اسی کی توفیق سے دل کی تنگی سے بچ پائی۔


ذاتی تجر بہ:
بھائی سے کچھ سوٹ منگوائے تھے ۔ سوٹ کم قیمت پر مل گئے۔ اس میں سے دو سوٹ میرے تھے اوردو باجی کے تھے۔ ان کپڑوں میں ایک سوٹ ایسا تھاجوکہ ہم دونوں کو پسند آگیا ۔ جب باجی نے کہا کہ وہ یہ سوٹ رکھنا چاہتی ہیں تو میرا دل تنگ پڑنے لگا کہ یہ سوٹ ا نہیں نہیں دینا ۔ یہ تو مجھے پسند ہے میں نے ایسے بھی کہہ دیا کہ اورکوئی بھی لے لیں، میں نے تو یہ رکھنا ہے ۔ کہنے کے بعد اندر احساس ہوا کہ یہ وقتی اور عارضی چاہت ہے۔ ایک سوٹ کےلئے دل تنگ کر رہی ہوں جبکہ اس وقت اللہ نے موقع دیا ہے کہ اس بندے کا دل نہ توڑکر اللہ کی قربت میں آگے بڑھ سکوں ۔اپنی چاہت پوری کرکے میں یہ موقع گنوا رہی ہوں ۔ اللہ کی قربت کے سامنے تو یہ شے کچھ بھی نہیں ۔
جب یہ احساس ہوا تو پاور ملی اور باجی کو وہ سوٹ دے دیا اور انہیں کہا میں کوئی اور رکھ لیتی ہوں ۔ اسطرح اللہ کی قربت میں آگے بڑھنے کی چاہ میں تنگ دلی سے بچ گئی۔
تنگ دلی سے بچنے کے فائدے:
تنگدلی سے بچ کر دل میں وسعت آئے گی اور جب دل میں وسعت آئے گی تو اتنا ہی اللہ کاا حساس عطا ہوگا ۔اللہ کے ساتھ دل کارابطہ مضبوط اور گہرا ہو گا ۔
تنگدلی سے بچ کر دوسروں کے لئے اندر پیار اور مثبت احساس پیدا ہوگا جس سے آپس میں تعلق اچھا رہے گا۔
تنگدلی سے بچ کر دوسروں کےلئے بھلائی اور خیر خواہی کا احساس بڑھے گا۔
تنگد لی سے بچیں گے تو اللہ اور پیارے آقا ﷺ کا قرب حاصل ہوگا ۔
تنگدلی سے بچیں گے تو لالچ اور دنیا کی محبت سے نکلنا آسان ہو جائے گا۔
تنگدلی سے بچنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ سکون ، اطمینان خوشی یہ سب اس دنیا میں بھی حاصل ہو گااور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہوگی۔
تنگدلی سے بچ کر اللہ تعالی اور پیارے آقاﷺ کی پسند کے مطابق دل کی حالت ہوگی ان کا پیار اور خوشی حاصل ہوگی۔
۔ تنگدلی سے بچ کر وسعت پیدا ہوتی ہے اور دل کشادہ ہوتا ہے تواللہ خوش ہوتا ہے اور اس کی محبت اس دل میں گھر کر جاتی ہے۔
تنگدلی سے بچتے ہیں تو دوسروں کو دینا سیکھتے ہیں چاہتوں کو چھوڑتے ہیں جس سے اللہ کی محبت دل میں باقی رہتی ہے دنیا کی محبت دل سے ختم ہوتی ہے۔
۰ تنگدلی سے بچ کر دل سے دنیا کے عارضی مال کی محبت کم ہوتی ہے۔
تنگدلی سے بچتے ہیں تو دل میں اللہ پر توکل کا احساس بڑھتا ہے کہ سب اختیار اس کا ہے وہی عطا کرنے والا ہے اور دل میں سخاوت آئے گی۔
تنگدلی سے بچتے ہیں تو دل شکر میں رہتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ میرا کمال نہیں بس اللہ کی عطا ہے۔
۔ تنگدلی سے دور جا کر ہم اللہ کے بندوں کے قریب ہوتے ہیں ان کا پیار دل میںبڑھتا ہے۔
تنگدلی سے بچ کر ہم اپنی ذات کی قید سے بچ جاتے ہیں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی اہمیت دیتے ہیں ۔
۔

تنگدلی سے ایمان کمزور ہوتا ہے اور اس سے بچنا ایمان کو مضبوط بناتا ہے۔
1 ذاتی تجربہ:
ناشتے کےلئے جب چائے بنتی ہے ، میں چائے بنا کر چولھے پر رکھ آتی ہوں کام والی کپ میں ڈال کر لاتی ہے ۔ ہم سب عام استعمال کی پیالیوں میں چائے پیتے ہیں اور کام والی بڑے کپ میں پیتی ہے۔ اس بات سے اکثر دل میں تنگی آتی تھی کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔ ہم مالک ہو کر عام سائز کے کپ میں چائے پیتے ہیں اور وہ بڑے کپ میں پیتی ہے۔ آج جب وہ چائے ڈال کر لائی تو ہماری پیالیوں میں چائے کم تھی ۔ دل میںبڑی تنگی آئی کہ اس نے اپنا مگ بھر لیا ہوگا ، اسی لیے ہمارے لیے تھوڑی چائے لائی ہے۔دل میں چڑ آئی اور سوچا کہ کام والی جس مگ میں چائے پیتی ہے اسے غائب کر دوںتو یہ بھی چھوٹے کپ میں پیئے گی ۔ اور ماما کو بھی کہہ دوں گی کہ اس کی یہ عادت ختم کریں ۔
ابھی ایسا کرنے کے ارادے سے کچن میں جانے ہی لگی تھی کہ مالک نے احساس عطا کیا کہ وہ تو اپنی قسمت کا ہی رزق لیتی ہے ۔جو رزق ہماری قسمت میں ہے وہ نہیں لے سکتی اور ہم اس کا حصہ نہیں سکتے ۔وہ جتنا بھی لیتی ہے اپنے حصے کا لیتی ہے۔یوں مالک کے کرم سے دل سے تنگی کا احساس نکلا اور دوسروں کو کھلے دل سے دینا سیکھا۔ دل میں وسعت لا کر اللہ کے قرب کی راہ میں آگے بڑھی۔

2
میرے سوٹ میں سے کچھ کپڑا بچا تو میر ی ساس امی نے میری نند کی قمیض بنالی ۔ آج میں نے وہی سوٹ پہنا تو میری نند نے بھی وہی شرٹ پہن لی۔ اب یہ دیکھا تو دل میں آیا کہ یہ کیا بات ہوئی میں نے اتنا مہنگا سوٹ لیا ہوا اور یہ مفت کی قمیض میرے جیسی پہنے ہوئے ہے۔میں اسے کہنے لگی کہ ہوسکے تو یہ شرٹ اس دن نہ پہنا کرے جس دن میں یہ سوٹ پہنوں۔کہتے کہتے محسوس ہوا کہ یہ تو میرے دل کی تنگی ہے اور میں یہ احساس رکھ کر دنیا اور اس میں موجود چیزوں کی محبت میں پڑ رہی ہوں ۔ کچھ روپوں کے سوٹ کے پیچھے دل خراب کر رہی ہوں ۔ یہ احسا س ہوتے ہی اس چاہت پر قابو پایا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کی چیز کی محبت بھی دل سے کم ہوئی۔ دل میں وسعت پیدا کی کہ کیا فرق پڑتا ہے کہ میرے جیسے کپڑے کوئی اور پہنے۔ اللہ کے بندے کے لئے دل میں پیار آیا کہ اللہ کے سب بندے ایک جیسے ہیں ۔ میں کچھ بھی نہیں اور دل میں عاجزی کا احساس لائی اور ا سے کچھ بھی نہ کہا بلکہ اس کی تعریف کہ کہ وہ اس سوٹ میں بہت اچھی لگ رہی ہے۔ اللہ کی مدد سے تنگ دلی جیسے گند سے بچ پائی۔