ضد
ضد در حقیقت مرضی کو فوقیت دینا ہے اور جہاں چاہت یامرضی قربان ہو رہی ہو اس کی خاطر اڑجانے کا نام ضد ہے۔ ضدکرتے وقت نہ تو ہمیں اچھے برے کا فرق یاد رہتا ہے اور نہ ہی ہم اس وقت اللہ کی مرضی کو فوقیت دینا اہم سمجھتے ہیں ۔ ہمیں ہماری انا اور ذات اس وقت ضد کر کے وہ حاصل کرنے کی طرف راغب کرتی ہے جس کے انجام سے ہم خود بھی بے خبر ہوتے ہیں ۔ ضد کی کیفیت میں انسان اپنی چاہت کو پورا کرنے کی خاطر اپنے زورِ بازو کو آزماتا ہے۔
ہماری کسی بھی طرح کی ضد در اصل ہماری انا کا اظہار ہے ۔ اپنی کسی چاہت کو پتھر پر لکیر سمجھنا یا کسی بھی معاملے میں اپنے موقف پر اڑجانا ہم اپنی شان سمجھتے ہیں ۔ ہمیں نہ تو اس وقت اللہ کے بندوں کو ہماری اس ضد کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف یا نقصان کا احسا س ہوتا ہے اور نہ ہی ہم یہ محسوس کرتے ہیںکہ اس ضد کی وجہ سے اللہ اور ہمارے تعلق پر کیا فرق پڑتا ہے۔
ضد حسنِ اخلاق اور برداشت کے منافی ہے۔ ضد ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے چاہے اچھی ہو یا بری کیونکہ اچھا ئی بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے انجام پانے میں اللہ کا حکم نہ ہو ۔ لہذا اچھا کام میںکرنے کے لیئے بھی کوشش ضرور کرنی چاہیے مگر اس کو اپنی ضد یا انا کا مسئلہ نہ بنا لیں۔
کسی بھی معاملے میں اپنی مرضی کو پورا کرنے کےلئے کسی بھی حال میں ڈٹے رہنایا انا میں آ کر اپنی ہی منوانا ، اپنی چاہت ہی پورا کرنا ضد ہے۔ ضد بھی ایک طرح سے بیماری ہے اور اندر ذات کا گند ہے جس میں بندہ اپنے جائز یا ناجائزمعاملے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرتا ہے اس کا اندر اس کےلئے ڈٹ جاتا ہے۔ضد انسان میں سختی پیدا کرتی ہے ۔ ضد کرنے والا اپنی من مانی کرنا چاہ رہا ہوتا ہے۔ اس لمحے وہ اللہ کی رضا کو نظر انداز کردیتا ہے جو اس کےلئے اللہ کی قربت میں دوری کا باعث بنتی ہے۔ ضد میں انسان بے صبرا ہوجاتا ہے اور جلد بازی کرنے لگتا ہے اور اپنی خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے۔
دنیا وی معاملات کے ساتھ ساتھ جب ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں تو اپنی چاہتوں سے مجبور ہو کر ہم دعا کی بجائے ضد کرنے لگ جاتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ اللہ ابھی ہماری دعا قبول کرے حالانکہ اللہ ہماری بہتری چاہتا ہے اسے معلوم ہے کہ ہمارے لئے کس وقت میں کیا بہترین ہے۔
دیکھا جائے تو کسی بھی بات پر اٹک جانا ،کسی کی نہ سننا خود کو صحیح سمجھنا ہی ضد ہے ۔ ضد میں انسان نفع نقصان دیکھے بنا کسی بات پر اڑجاتا ہے۔ اصل میں ہماری ذات کا ہی کوئی نہ کوئی پہلو ہوتا ہے جو ہمیں کسی بھی فیصلے یا سوچ پر اٹکائے رکھتا ہے، کسی بھی معاملے میں ہم اپنی مرضی کرتے ہیں کسی کی سننے کےلئے تیار نہیں ہوتے تو یہ ہماری ضد ہوتی ہے جوکہ ہمیں نقصان دیتی ہے۔
کسی کے ساتھ کوئی سمجھوتا کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے اور ہمارا یہ عمل ہم سے غلط قدم اٹھواتا ہے، جس سے لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ باطل کا وار ہوتا ہے جس میں ہم پھنس جاتے ہیںاور بہت سے معاملات میں ہماری وہ ضد ہماری زندگی کا پچھتا وا بن جاتی ہے ۔
ضد کسی بھی بات پر اصرار کے ساتھ ڈٹے رہنے کا نام ہے ، ضد اکثر ہم اپنی مرضی اور نفس کے سامنے بے بس ہو کر پوری کرتے ہیں ۔نفس انسان کو طرح طرح سے اپنی مرضیوں میں پھنساتا ہے ۔ اور یہی پھنسنا ہمیں اللہ کے ناپسندیدہ عمل اور شیطان کی پیروی پر اکساتا ہے۔ شیطان بھی ضدی ، ڈھیٹ اور اپنی مر ضی پر اڑ جانے والا ہے اور وہ انسان کو بھی بہکاتا اور ضد پر مجبور کر کے اپنی اطاعت کرواتا ہے۔



ضد کے نقصانات :
ضد سے ذات کو بڑھاوا ملتا ہے اور اپنا آپ منوانے کی دھن میں ذات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔
ضد کرنے سے ہمیں معاملات میںبھی نقصان ہوتا ہے ۔ اپنی انا کی وجہ سے ضد کا شکار ہو کر لوگوں کے ساتھ چھوٹے بڑے معاملات میں نرمی اور لچک نہیں دکھا پاتے۔
ضد کرنے والا انسان اللہ کے فیصلے کو نہیں مانتا اپنی بات پر اڑا رہتا ہے جس کا انجام برا نکلتا ہے۔
ضد کرنے والا اپنی چاہت کے پیچھے بھاگتا ہے ،ہر چاہت ضد کرنے والوں کو اپنے نفس کا غلام بنا کر اللہ کے اطاعت سے دور کرتی ہے۔
ضد کرنے والا اپنی مرضی پر چلتا ہے رضائے الٰہی کا حصول اس کا مقصد نہیں ہوتا ۔ اس لیے ضد پوری نہ ہونے پر اس کے اندر غصہ اور سرکشی بڑھ جاتی ہے جو گناہ میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
ضد میں آکر بعض اوقات انسان غلط فیصلے کرتا ہے جس کاپچھتاوا عمر بھر ہوتا ہے۔
ضد انسان کو جھکنے نہیں دیتی اور دل میں سختی پیدا کرتی ہے ۔ایسی اکڑ اور ہٹ دھرمی اللہ کو بالکل پسند نہیں ۔
ضد میں آکر انسان خود کو ہمیشہ ٹھیک سمجھتا ہے اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی غلطی کو دیکھ نہیں پاتا ۔ ضد میں اپنی غلطی تسلیم بھی نہیں کرتا یہ بات اللہ کے قرب سے دور کرتی ہے۔
ضد میں آکے انسان جان بوجھ کر صحیح بات کو نہیں مانتا صرف اپنی ضد کی وجہ سے تباہی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
ضد سے فتنہ فساد پھیلتا ہے گھروں میں لڑائیاں ہونے لگتی ہیں۔
۔ ضد انا کی علامت ہے اور اللہ اور بندے کے درمیان ان کی دیوار کو اور مضبوط بنا کر اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں ۔
ضد شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ اس طرح شیطان کی راہ پر چل کر اپنے مالک کی نافرمانی کر کے دنیا اور آخرت کا نقصان کر لیتے ہیں ۔
ضد کرکے ہم اللہ کے کئے گئے فیصلوں کو نہیں مانتے جو ایمان کی کمزوری ہے۔
۔ ضد اپنی من مانی کرنا ہے جس سے ہم نفس کی پیروی کر کے آگے بڑھتے ہیں اپنی خواہش کے پیچھے دوڑتے ہیں ۔
ضد سے ناصرف اپنے دل کی حالت خراب کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے چڑچڑا پن اور غصہ دلاتے ہیں ۔
ضد کرنے والا حق سننے اور پہچاننے سے محروم رہ جاتا ہے۔
ضد کرنے والے میں صبر اور شکر کا احساس کم ہونے لگتا ہے۔انا پرستی میں اندھا ہو جاتا ہے ۔ ذات کی پیروی کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔ اصل مقصد سے دور ہو جاتا ہے۔


1
ذاتی تجربہ:
آج امی کے ساتھ بیکری پر گئی ، امی نے کہا کہ میں گاڑی سے اتر کر چیزیں لے آﺅں ۔ میں نے امی سے کہا کہ میں نہیں اتروں گی اور نہ بیکری کے اندر جاﺅں گی کیونکہ میرے کپڑے صاف نہیں ہیں اور مجھے اس حالت میں کسی کے سامنے جانا بالکل پسند نہیں ہے ۔ امی نے مجھے پھر کہا کہ کوئی بات نہیںچلی جاﺅ مگر میں نے ضد لگا لی کہ میں نہیں جاﺅں گی۔ آپ اتریں گی اور بیکری سے چیزیں لائیں گی ۔
اس وقت اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ میں اڑ رہی ہوں اور یہ تو ضد ہے جس پر میرا نفس اکسا رہا ہے اور میں کہہ رہی ہوں کہ میں نہیں اتروں گی۔ اپنی بات پر اڑ کر اند رسختی آگئی حالانکہ ضد سے بچ کر سختی سے بچ سکتی تھی اور رویے میں نرمی لاسکتی تھی لیکن اللہ کی حکم عدولی کی اور اپنی ضد پر ڈٹ کر اپنا نقصان کیا۔


ضد سے بچنے کے طریقے:
ضد سے بچنے کےلئے اپنی مرضی اور اپنی چاہ کو اللہ کی پسند کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ اللہ کی رضا اور پسند کو ترجیح دیں توکسی بھی معاملے میں ضد لگانے سے بچ سکتے ہیں ۔
ضد وہاں ہوتی ہے جہاں دل میں سختی موجود ہو جو کہ انا کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ انا کو مارنے سے ضد ٹوٹتی ہے اس لیے جہاں انا سر اٹھائے اسے مارنے کی کوشش کی جائے تاکہ ضد سے بچا جا سکے۔
اپنے عمل کے اللہ کی نظر میں ہونے کا احساس رکھیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ، میرا ضد پر اڑے رہنا بھی بخوبی اس کی نظر میں ہے۔ یہ احسا س ضد سے پیچھے ہٹنے میں مدد دے گا ۔
ضد اللہ سے دور ہونے کا باعث ہوتی ہے اس طرح اللہ کی قربت سے دور ہونے کا احساس دل کو ڈر لگاتا ہے اور اندر موجود ضد سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ احساس کہ جب ضد پوری کر بھی لی تو کوئی چاہت و وقتی طور پر حاصل کریں گے جس پر ضد کی ہے، جبکہ اپنے ہر معاملے میں اللہ کی طرف سے بہترین ہونے کا احساس ضد سے بچنے میں مددگار ہے کیونکہ اللہ بڑا بہترین کرنے والا ہے۔
اپنی چاہت اور مرضی پر ضد لگانے کی بجائے یہ احساس رکھا جائے کہ اللہ ستر ماﺅں سے زیادہ پیار کرنے والاہے۔اس کے پیار پر یقین کہ وہ جو بھی عطا کرے گا ہماری مرضی سے بہتر ہوگا تو ایسے احساس سے ہم ضد کرنے سے بچ سکتے ہیں ۔
جب اندر کسی بات پر ضد آنے لگے تو دعا کی پاور سے مدد لی جائے کہ مالک مجھے اس برائی سے بچنے کی طاقت عطا کردے ، ہمت دے اور مدد فرما۔ دعا میں اللہ کے آگے جھکنا بھی ضد سے بچاتا ہے۔
اندر ضد پر اڑا ہوتو الرٹ ہو کر اس سے بچنے کی کوشش کی جائے کہ میرا ایسا کرنا میرے مالک کو پسند نہیں آرہا ہوگا ایسا احساس آتے ہی اپنے عمل کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ضد ذات کی وجہ سے آتی ہے اور انا کا ایک رخ ہے ۔ اس لیے اس سے بچنے کےلئے اندر عاجزی لائی جائے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، بہتر ہو رہا ہے اور میں اپنی انا کی وجہ سے ضد لگا کر مرضی پوری کرنے کی کوشش نہ کروں، یہ احساس ضد سے بچاتا ہے۔
ضد کرنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے ، گھر والے، آس پاس کے لوگ بھی تنگ آجاتے ہیں ۔ جس سے ماحول اور حالات و معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اس طرح نہ اللہ خوش ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے بندے ،اللہ کی ناراضگی کا احساس رکھ کر ضد لگانے سے گریز کیا جاسکتا ہے۔
اللہ کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے ذات پر کام کرتے ہوئے ہمیں اپنی مرضی اور من مانی سے بچنا ہوتا ہے ۔ اپنی مرضی کو اللہ کے تابع کرنا ہوتا ہے۔ اگر ضد لگا کر بیٹھ جائیں تو یہ تو ذات پر کام نہیں بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے روگردانی ہے۔ایسے احساس کی مدد سے ضد سے بچ سکتے ہیں ۔
۔ ضد انتہائی نقصان دہ اور ناپسندیدہ عمل ہے اگرسکون کی تمنا ہے تو ضد، غصہ اور خواہش کی پرستش نکال دو اگر حقیقی سکون چاہتے ہو تو اللہ کی مدد سے اس عادت سے خود کو بچا لو، یہ احساس رکھ کر ضد سے بچنے کی کوشش کریں ۔


1
ذاتی تجربہ:
آج ہمارے گھر کچھ مہمانوں نے آنا تھا۔ امی کھانے کے بارے پوچھنے لگیں کہ کھانے میں کیا بنائیں گے ۔ میں نے بتایا کہ سبزی پکا لیں گے لیکن ا می کہنے لگیں کہ کڑاہی گوشت بنانا ہے جبکہ میں نے کہا کہ نہیں ہم قیمہ مٹر بنائیں گے ، یہاں میرے رویے میں کوئی لچک نہیں تھی۔اور ایک ہی بات کیے جارہی تھی کہ بس جومیں کہہ رہی ہوں وہ ہی پکے گا۔
تب ہی احساس ہوا کہ اس معاملے میں ضد کر رہی ہوں اپنی بات پر اڑی ہوئی ہوں ۔ جس سے منع کیا گیا ہے یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے جبکہ اللہ نے جتنی آشنائی دی ہے اس کے مطابق عمل نہیں کر رہی کہ امی کی بات مان کراللہ کے ایک بندے کےلئے آسائی کا باعث بنوں۔ احساس ندامت ہوا کہ کیا کر رہی ہوں ۔ اللہ سے مدد مانگ کر ضد چھوڑنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے پاور ملی تو اپنی ضد چھوڑ کر امی سے کہا جیسے آپ کا دل کر رہا ہے ویسے ہی کر لیں گے میں تو صرف مشورہ دے رہی ہوں ۔
اس طرح اللہ کے احساسِ آشنائی اور اس کی عطا ہوئی مدد سے ضد جیسی برائی سے بچ گئی۔

آج میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی سردی کی وجہ سے بخار اور جسم میں درد تھا ۔گھر میں سب نے کہا دوائی لے آﺅلیکن میں ضد پر اڑی رہی کہ دوائی کی ضرورت نہیں ہے خود ہی ٹھیک ہو جاﺅں گی۔ سب بار بار کہتے رہے اور میں ہر بار اپنی بات پر اڑی رہی اور کہتی رہی کہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا ، ہمت نہیں ہے، بعد میں لے لوں گی اس طرح اپنی ضد پر قائم رہی۔
کچھ دیر کے بعد احسا س ہوا کہ اب یہاں ذات کی بات مان کر اپنی مرضی منوانے کی کوشش کر رہی ہوں ۔ میری یہ ضد تو اللہ کی نظر میں ہے کہ کیسے میں ضد کر کے دوسروں کو تنگ کر رہی ہوں حالانکہ وہ میرا بھلا سوچ رہے ہیں اور میں ان کی بات کو اپنی ضد کی وجہ سے اہمیت نہیں دے رہی ۔ شرمندگی ہوئی ۔ اپنی ضد کو ختم کیا اور جا کر دوائی لے آئی۔اس طرح اللہ کی نظرمیں ہونے کے احسا س کی مدد سے ضد پر اڑے رہنے اور اس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو پریشان کرنے سے بچ گئی۔




ضد سے بچنے کے فائدے :
ضد سے بچ کر ہم اپنی انا کو مار سکتے ہیں ۔ انا ہمارے اندر اکڑ پیدا کرتی ہے اور سفر میں نقصان کا سببب بنتی ہے ۔
ضد سے بچنا ہمارے اندر جھکاﺅ پیدا کرتا ہے ، اندر لچک پیدا ہوتی ہے اور ہم ہر سیٹ اپ میں با آسانی سیٹ ہو جاتے ہیں ۔
اس سے بچ کر ہم اللہ کی رضا میں راضی ہو سکتے ہیں اس کی بندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ہم ضد کو چھوڑ کر اللہ کے دیے ہوئے سیٹ اپ کو قبول کر رہے ہوتے ہیں ۔
اللہ سوہنے اور اپنے درمیان جو ذات کی دیواریں ہم نے بنائی ہوتی ہیں ضد ختم کر کے ہم ان دیواروں کو توڑ کر اللہ سے قریب ہوتے ہیں ۔
ضد ختم کرنا ہمار ے اندر نرمی پیدا کرتا ہے ، سختی کو ختم کرتا ہے۔ لہجے اور طبیعت میں نرمی اور پیار آتا ہے تو دل کی حالت بھی پسندیدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
لوگ ضدی انسان کو پسند نہیں کرتے اور ضد کو ختم کر کے ہم اللہ کے پیارے بندوں کےلئے بھی آسانی کا باعث بنتے ہیں اور سب کی نظروں میں عزت دار بھی بنتے ہیں ۔
ضد سے بچ کر انسان اپنے اندر عاجزی لا سکتا ہے۔
ضد سے بچنے کی وجہ سے دوسروں کی بجائے اپنی غلطیوں پر نظر رہتی ہے ۔
ضد سے بچ کر گھر اور رشتوں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا ۔
ضد سے بچ کر دوسروں کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
اللہ پاک کے قادر ہونے پر یقین بڑھتا ہے اندر صبر ،شکر پیدا ہوتا ہے۔
ضد سے بچیں تو دل کی تنگی سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔
ضد سے بچیں تو اللہ کی اطاعت کا احساس ملتا ہے اور دوسروں کی بہتری اور بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دوسروں کےلئے آسانیوں کا وسیلہ بنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خوشی اور رضا حاصل ہوتی ہے۔
اندر لچک پیدا ہوتی ہے اور معاملات کو اچھے طریقے سے نبھا سکتے ہیں ۔
ضد سے بچ کر ذات کی نفی کرتے ہیں تو اللہ کی رضا اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔

1
ذاتی تجربہ:
امی کسی کا م سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں انہیں کل واپس آنا تھا ۔آج پتا چلا کہ ابھی واپس نہیں آرہی ہیں ۔ مجھے بہت برا لگا کیونکہ میرا دل تھا کہ آ ج ہی واپس آ جائیںمگر میرے اتنا کہنے کے باوجود انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ آج امی سے دو تین بار کال پر بات ہوئی ، ہر بار یہی ایک بات ، یہی ضد تھی کہ واپس آجائیں۔ اس ضد کی وجہ سے دل کی حالت سخت خراب کی خود اچھی خاصی ڈاﺅن ہوئی اور امی کو بھی پریشان کیا ۔
پھر احساس ہوا کہ یہ تو ضد لگائی ہوئی ہے اس وجہ سے خود بھی بے سکون ہوں اور باقیوں کو بھی پریشان کر رہی ہوں ۔ ضد کر کے اپنی انا کو تسکین پہنچا رہی ہوں اور اپنی ”میں“میں پھنس رہی ہوں ۔ اس احساس نے الرٹ کیا۔ اللہ سے مدد مانگی تو آہستہ آہستہ دل کی حالت سیٹ ہوئی ۔ یہ احساس کہ اپنی ضد پوری کرنا انا کو بڑھاوا دینا ہے ،یہ اللہ اور پیارے آقاکا انتہا ئی ناپسندیدہ عمل ہے اس احساس نے ضد سے نکالا اپنی مرضی چھوڑی ۔اپنی ”میں“سے نکلی تو اللہ کی خوشی کے لیئے اپنی ضد کو چھوڑا۔ امی سے کہا کہ جب بھی کام مکمل ہو تبھی واپس آئیں۔اس طرح وہ بھی خوش ہوئیں اور اپنا اندر بھی پرسکون ہوا۔

2
میری بی۔ اے کی پڑھائی مکمل ہوئی تو پورا سال کالج میں داخلہ نہیں لیا ۔یہی ضد لگائے رکھی کہ فلاں فلاں یونیورسٹی میں ہی داخلہ لینا ہے ، جس سے میں خود بھی پریشان ہوئی اور گھر والے بھی پریشان رہے۔ اس وقت آشنائی نہیں تھی ، من مانی کرنا، ضد کا باعث بنا، اور اس وجہ سے اپنے گھر اور رشتوں میں تعلقات پر اثر پڑ رہاتھا۔
جب سلسلے سے منسلک ہوئی تو اللہ کی آشنائی ملی۔ اپنی ضد کا احسا س ہوااور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا احساس ہوا۔ اب اس معاملے میں ضد کرنا چھوڑا۔ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے عمل کیا۔ اس طرح ضد سے بچ کر ذات کی نفی کی ۔اللہ کی پسند کے مطابق عمل کی کوشش کی توگھر والوں سے تعلقات میں بہتری آئی اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہوئی۔