۔منافقت

تعارف:
جب ہمارا ظاہر کا عمل اور باطن کی نیت ایک نہ ہو تو وہ منافقت کہلاتی ہے یعنی منافقت ظاہر اورباطن کے درمیان فرق یا ان کے ایک نہ ہونے کا نام ہے۔ منافق شخص کا ہر عمل نا خالص ہوتا ہے اسمیں صرف دکھاوا یا مطلب وابستہ ہوتا ہے اس طرح ظاہر و باطن میں فرق ہونا منافقت کہلاتا ہے ۔ دل کے احساس اور زبان سے ادا ہونے والے الفاظ میں فرق ہونا منافقت ہے ، اگر دیکھا جائے تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی منافقت جیسے عمل میں مبتلا رہتے ہیں ، جیسے کسی کا بھی حال احوال دریافت کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ خیریت دریافت کرنا ، حد سے زیادہ خلوص کا اظہار کرنا تا کہ اگلا یہ سمجھے کہ ہم اس کے بڑے خیر خواہ ہیں ۔
حدیث مبارکہ میں ہے۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہو گا ۔آقائے دو عالم نے منافقت کی مذمت کرتے ہوئے منافقوں کے مذموم عزائم کو ناکام کرنے کی خاطر صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد کو گرا دیا جائے چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ منافقت اس قدر برا اور غلط عمل ہے کہ ایک پور ی سورة المنافقون اسی موضوع پر ہے۔
ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا منافقوں کی نشانی ہے ۔درحقیقت منافقت سے مراد وہ عمل یا اظہار ہے جو حقیقت کے برعکس ہو۔منافقت اصل میں دورخی تصویر کا نام ہے جس کا ایک رخ ظاہری عمل کی صورت نظر آرہا ہوتا ہے جبکہ دوسرا رخ اندر چھپی نیت کا ہوتا ہے جس کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ ناپسندیدہ ترین شخص منافق ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھا گیا ہے یعنی منافق اللہ کی عدالت میں ایک غیر مسلم سے بھی زیادہ گناہ گار ہوتا ہے۔
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ:
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک ہوگی تو بھی اس میں ایک بات نفاق کی ضرور ہے ، تاوقتیکہ اس کو چھوڑ دے وہ چار باتیں یہ ہیں:
۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۔جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
۔جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔
۔جب لڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔
(صحیح بخاری و مسلم )
٭منافق غیرمخلص ، حقیقت سے ہٹ کر دکھاوا کرنے والا، باطن کی اصل حالت کو چھپا کر ظاہری طور پر اچھا بن کر دکھانا، کسی کی اچھائی یا بہتری کو مدنظر نہ رکھنا اور دل میں کھوٹ رکھنا،جبکہ ظاہری طور پر دوسرے شخص کو ایسا محسوس نہ کروانا منافقت ہے ۔ روزمرہ روٹین میں ہم بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں اور اپنے کسی بھی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عمل کر گزرتے ہیں ۔ اگر ہمیں اس کے نقصانات کا احساس ہو تو ہم منافقت سے گریز کریں گے۔



منافقت کے نقصانات:
منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہو گا۔ اس بات کا احساس ہو کہ منافق کا یہ انجام ہی سے سے بڑا نقصان ہے۔
عمل کرتے ہوئے منافق زبان سے اقرار اور دل سے ا نکار کرتا ہے۔ یہ بیما ری اندر کے خالص پن کو ختم کر تی چلی جاتی ہے۔
منافق وہ سب کہتا ہے جو اس کے دل میں نہیں ہوتا ، ظاہر اور باطن کے اس فرق سے اللہ کا احساس اندر بیدار نہیں ہوتا اور خود کواللہ سے دور کرلیتے ہیں ۔
۔ منافقت سے کئی اور برائیاں جنم لیتی ہیں جیسے جھوٹ ،وعدہ خلافی خیانت وغیرہ جو کہ آخرت میں تباہی کا باعث ہیں ۔
منافقت کرنے والا اپنے ایمان کو ختم کر لیتا ہے کیونکہ مومن منافقت نہیں کرتا۔
منافقت کرنے والا خود غرض ہو جاتا ہے ،لوگوں سے اپنے مطلب کے لیے اچھا برتاﺅ کرتا ہے ، اس کا عمل اللہ کی رضا نہیں ہوتا ایسے کر کے خود کو اللہ کی رضاسے دور کرلیتا ہے۔
منافقت سے حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ منہ پر تعریف ہوتی ہے مگر منافق اندر جلتا اور کڑھتا ہے کہ کسی کو کچھ کیوں ملا یوں اپنا عمل برباد کر لیتا ہے۔
منافقت کرنے والا لوگوں میں فتنہ فساد ڈالتا ہے ، جواللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔
منافقت کرنے والا دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے اس کا عمل خالص نہیں ہوتا ہے، بظاہر اچھا بنتا ہے جبکہ اندر سے عمل کھوکھلا ہوتا ہے اور یہی عمل کا کھوکھلا پن اسے اللہ سے بہت دور کرتا جاتا ہے۔
منافقت کرنے والے کے دل میں اللہ کے بندوں کا پیار نہیں ہوتا نفس کی مان کر وہ خود کو اللہ کے بندوں کو دھوکہ دیتا ہے جو کہ اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے۔
بظاہر کچھ اور دل میں کچھ اور ہونے کی وجہ سے شناخت تبدیل ہو جاتی ہے ۔مسلمان سے منافق کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔
منافقت کرنے والا لوگوں کوتو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اسی کے ساتھ اللہ کی صفات کا بھی منکر ہو رہا ہوتا ہے۔ لوگ دل کی بات نہیں جانتے مگر اللہ تو دلوں کا حال جاننے والا ہے، اس سے غافل ہوکر اللہ کے ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ اور جھوٹ سے دل سیاہ ہوتا ہے۔ دل کو منافقت کی وجہ سے گندہ کر کے اپنا نقصان کر لیتے ہیں ۔
دل اور زبان میں تضاد ہونے کی وجہ سے منافقت کرنے والے کی شخصیت میں دوغلا پن آجاتا ہے اور دوغلے شخص کو سب ناپسند کرتے ہیں ۔ اس پر کوئی یقین نہیں کرتا ، اس کے سچ کو بھی جھوٹ مانا جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔
۔ منافقت کرنے والا کا ضمیر مردہ ہوتا جاتا ہے ۔ وہ اپنے عمل کی سچائی کو جانتا ہے مگر پھر بھی باز نہیں آتا، ایک خلش سی رہ جاتی ہے جو کہ اندر ہی اندر کھاتی ہے۔




ذاتی تجربہ:
کسی کو کال کر کے ان کے شوہر کی وفات پر افسوس کر رہی ۔بہت زیادہ بڑھ بڑھ کر باتیں کیں ۔اظہار ہمدردی کیا مگر دل میں ایسا کوئی ہمدردی کا احسا س نہیں تھا جس کا اظہار کیا۔ جب بات کر کے فارغ ہوئی تو اپنی منافقت بھری گفتگو پر افسوس ہوا۔ جھوٹی ہمدردی جتلائی افسوس کیا اور اتنا کچھ کہا مگر دل میں ذرا بھی احساس نہ تھا۔ احساس ہو کہ میں نے اللہ کا بندہ سمجھ کر گفتگو نہیں کی بلکہ یہاں بھی ذات تھی کہ ایسے بات کروں کہ میری ہمدردیاں عیاں ہو جائیں۔یوں ظاہر اور باطن کا فرق کر کے خودکو اللہ کے قرب سے دور کر لیا۔



آج ایک سہیلی کے گھر گئی۔اس نے بتایا کہ اس نے ایک نئی ڈش بنائی ہے۔ اس وقت جیسے وہ بتا رہی تھی تو ایسا لگا کہ بہت اچھی ہو گی ۔ اس نے کچھ دیر بعد مجھے بھی وہ ڈش کھلائی۔مجھے جو توقع تھی کہ ڈش بڑی اچھی ہوگی تو ویسے نہ تھی۔ اندر احساس بدلنے لگااور سوچا کہ کتنی عجیب ڈش بنائی ہے ۔ ذائقہ بھی اچھانہیں ہے۔ ڈش کھالی تو سہیلی نے پوچھا کہ اھر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو اسے بتاﺅں تا کہ وہ اگلی دفعہ بناتے ہوئے وہ کمی بیشی پوری کر سکے۔اس کے بار بار پوچھنے کے باوجود بھی اس کے سامنے اس کی تعریف ہی کی کہ بہت اچھی بنائی ہے۔ تم نے محنت کی ہے۔ اس کےلئے تالیاں بھی بجائیں مگر اندر تعریف کرنے پر راضی نہ تھا صرف بظاہر تعریف کی ۔ اس طرح اللہ کی ایک بندی کے ساتھ منافقت کر کے اسے دھوکہ دیا۔



آفس میں کچھ دن پہلے ایک کولیگ کا سٹوڈنٹس کے ساتھ کچھ مسئلہ بنا ۔جب اس کولیگ نے اپنی بات مجھے بتائی تو میں نے تسلی دی اور کہا کہ اس میں اس کا قصور نہیں ہے۔ساتھ ہی اسے کہا کہ اس بات کے بارے میں میڈم سے بھی مشورہ کرلینا اس طرح تم پر الزام نہیں آئے گا ۔
اس کولیگ کی یہی بات ایک اور ٹیچرنے میرے ساتھ ڈسکس کی تو اس وقت میں نے یہ کہا کہ ہاں اس کی اپنی ہی غلطی ہے، خودایسے معاملات میں الجھ جاتی ہے جس سے کچھ نہ کچھ نقصان ہوتا ہے اور پھر مسئلہ بنتا ہے۔
اپنے عمل پر نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ میں کتنی منافقت کر رہی ہوں ۔ اس کولیگ کو تسلی دے دی، مگر آگے کسی اور کے ساتھ ڈسکس کرتے ہوئے اس کے خلاف بول رہی ہوں ،نا اسے صحیح مشورہ دیا اوروہی بات آگے کر کے منافقت بھی کی۔الٹا اس کے خلاف بات کر کے فساد ڈالنے کی کوشش کی۔ ظاہر اور باطن کا یہ فرق دکھا کراللہ کی ایک بندے کو دھوکہ دےااور اللہ کے نا پسندیدہ بندوں میں شامل ہوگئی۔



منافقت سے بچنے کے طریقے:
منافقت بد ترین خصلت ہے جس کو اللہ اور پیارے آقاﷺ نے ناپسند فرمایا ہے ۔ اور صرف اپنے نفس کے کہنے میں آکرہم ایسا ناپسندیدہ عمل کر کے خود کو اللہ کے قرب سے دور کرتے ہیں۔اس احساس سے منافقت سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
اندر یہ احساس ہو کہ منافقت جیسے فعل سے دنیا اور آخرت دونوں ہاتھ سے جا رہے ہیں نا صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی انجام برا ہو گا۔اور منافقت کرنے والا شخص دونوں جہانوں میں ذلیل و رسوا ہے ۔ یہ احساس منافقت سے بچا تا ہے۔
اندر یہ احساس ہو کہ اللہ میرے دل کے حال سے واقف ہے ۔ہم جو کچھ بھی کر رہے ہوں وہ جانتا ہے کہ ظاہراً کچھ اور اور باطن میں کچھ اور ہیں ۔ ایسے میں ہماری بچت کی راہ کیسے آسان ہو گی۔ اللہ سب جاننے والا ہے ، اس بات کا احساس بھی ہمیں منافقت سے بچاتا ہے۔
منافقت سے بچنے کےلئے اس کے نقصانات کاا حساس ہو کہ منافق کا درجہ اللہ کی نظر میں کیسا ہے؟ اور ان کے لئے کیا سزا ہے ؟نقصانات پر نظر بھی منافقت سے بچنے میں مدد گار ہے۔
۔ اللہ کی قربت کی راہ میں خالص ہونا ہی شرط ہے ۔ منافق کے ظاہر اور باطن میں فرق ہوتا ہے۔ اللہ کے قرب میں آگے بڑھنے کی چاہ کا جذبہ بھی ظاہرو باطن کے اس فرق کو ختم کرنے میں معاون ہے۔
اللہ کا سمیع و بصیر ہونے کا احساس ہمیں منافقت جیسے گناہ سے بچاتا ہے۔ ظاہراور باطن کے فرق کو اللہ کے اس احساس سے ختم کیا جاسکتا ہے کہ میں اس کی نظر میں ہوں ، اندر سے کچھ اور ہوں اور باہر سے جو کہہ رہی سب سن اور دیکھ رہا ہے۔
دوسروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا، پیار سے پیش آنا اور جہاں ضرورت پڑے مدد کرنا بھی مدد گارہوتا ہے کہ انہیں اللہ کے بندے کی حیثیت سے دیکھیں اور اچھے طریقے سے پیش آئیں ۔ اور اپنی نیت خالص رکھ کر عمل کرنا بھی منافقت سے بچنے کا باعث ہے۔
پیارے آقاﷺ سے محبت کے جذبے کو پروان چڑھا کر ہم ہر برائی سے دل صاف کر کے اور آقا ﷺ کی سنت پر سچے دل سے عمل کر کے منافقت سے بچ سکتے ہیں کیونکہ جس دل میں پیارے آقاﷺ کی سچی محبت ہو گی وہ کبھی منافقت نہیں کرے گا۔
یہ احساس رکھ کر کہ دنیا کے سامنے تو منافقت کا پردہ ڈال لیں گے مگر اللہ کے سامنے کیسے اپنی حقیقت چھپا سکتے ہیں ،لوگوں کو تو دھوکہ دے رہے ہیں کیا اللہ کو دھوکہ دے پائیں گے؟ جب کہ وہ ہماری رگ رگ سے واقف ہے، یہ احساس بھی منافقت سے بچاتا ہے۔
دنیا کے عارضی ہونے کے احساس کو پکڑ کر ہم اگر یہ سمجھ جائیں کہ عارضی ٹھکانہ ہے اور یہاں فائدے کےلئے منافقت کا سہارا تو لے لیں گے مگر آخرت میں تو کچھ کام نہ آئے گا۔ وہاں کیسے رب ذوالجلال کا سامنا کریں گے اس طرح ہمیں منافقت سے بچنے میں مدد ملے گی۔
اللہ پر توکل ، بھروسے اور ایمان کو مضبوط کر کے بچ سکتے ہیںکیونکہ جب ہمارا اللہ پر یقین مضبوط ہو گا تو ہم انجام سے ڈرے بغیر اور اپنا نفع نقصان سوچے بغیر حق سچ بیان کریں گے اور اس کا اجر اللہ پر چھوڑ دیں گے ۔
اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے اور جائزہ لیا جائے کہ میرا نفس اس برائی میں مبتلا تو نہیں ۔ اس طرح خود پر گہری نظر رکھ کر منافقت جیسی برائی سے بچا جاسکتا ہے۔



ذاتی تجربہ:
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ بہن کے ساتھ ایک معاملہ کی وجہ سے میرے اس کے ساتھ تعلق ٹھیک نہیںتھا ۔صرف اس کی غلطی نظر آرہی تھی۔ بظاہر اس کے ساتھ اچھا برتاﺅ تھا مگر اندر اس کےلئے دل میں منفی خیالات آرہے تھے ۔ وہ جب بھی ملتی میں دل کے میل کو نکالنے کی بجائے اس کے ساتھ ہنس کے بات کر لیتی اور اس کو احساس بھی نہ ہونے دیتی کہ میں اس کے لیئے دل میں کیا احساس لیئے پھر رہی ہوں۔ایک دو بار اس نے معاملہ کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر میں نے ٹال دیا۔
آج بھی اس سے ملاقات ہوئی تو دل میں اس کے لیئے گند تھا مگر بظاہر اس کے ساتھ اچھی طرح بات کر رہی تھی۔پھر احساس ہو ا کہ میں منافقت کر رہی ہوں اور اللہ تو سب دیکھ رہا ہے کہ میرے ظاہر اور باطن میں فرق ہے اور میں نے دل میں بات رکھی ہوئی ہے، جسے چھپانے کی کوشش کر تے ہوئے اچھی بن رہی ہوں ۔ اس بات پر الرٹ ہوکے شرمندہ ہوئی کہ خود پر نظر نہ رکھی اور غلطی کر رہی تھی۔ اور میرا ہر عمل اللہ کی نظر میں ہے وہ سب جانتا ہے۔ اب نظر اس سے ہٹی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسے سیٹ کیا اور خالص ہو کر بہن کے ساتھ اچھا برتاﺅکیا ، اس کے ساتھ پیار سے پیش آئی۔ اس طرح اللہ کے دل کا حال جاننے کی صفت کے یقین نے اپنی غلطی کا احسا س دلا یا اور منافقت جیسے گناہ سے بچنے میں مدد دی۔
ذاتی تجربہ:
آج کل ایک کولیگ سے باقی ٹیچرزکی نہیں بن رہی۔ کل وین میں بیٹھی تو سب ٹیچرز اس کے خلاف باتیں کر رہی تھیں اور میں ہاں میں ہاں ملا رہی تھی ۔ کہ ہاں ایسا ہی ہے ۔اس کا ایسا ہی رویہ ہے وغیرہ ۔ جب باقی ٹیچرز نہیں تھیں تو میری اسی کولیگ سے بات ہوئی اوروہ کہنے لگی کہ فلاں ٹیچر ایسے ہے اور فلاں ایسے ہے میں نے اس سے بات چیت بند کر دی ہے۔ اب وہاں میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دی۔ باقی ٹیچرز کا دل رکھنے کے لیئے میں ان کو ٹھیک کہتی رہی اور کولیگ کے سامنے بھی حق بات نہ کہی۔اپنی ذات کی حقیقت کھلی کہ میں تو منافقت کر رہی ہوں ۔ اور منافق کی سزا(ٹھکانہ جہنم) ہے۔ میں نے صرف اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ احساس ہی نہ ہوا کہ میرا یہ فعل اللہ دیکھ رہا ہے۔ شرمندگی ہوئی اپنے اس فعل پر معافی مانگی اور اللہ کی مدد سے آئندہ الرٹ رہ کر اس سے بچنے کا ارادہ کیا۔




منافقت سے بچنے کے فائدے:
دل سے جتنی منافقت ختم ہوتی جاتی ہے دلوںمیں سچائی پیدا ہوتی ہے، خالص پن آتا ہے۔
اللہ کی قربت میں قدم بڑھتا ہے اور اللہ کے بندوں کےلئے دل صاف ہوتا ہے۔
جب منافقت اور غلاظت اندر سے ختم ہوتی ہے اللہ کے ساتھ پیار کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
۔ منافقت کے ختم ہونے سے دل کی گھٹن ، نفرت کم ہوجا تی ہے۔
جس بندے کے ساتھ منافقت کرتے ہوں اسی بندے کے سامنے آجانے کا خوف رہتا ہے اور اندر سکون اور اطمینان نہیں رہتا ۔ جب منافقت سے بچتے ہیں تو اندر سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی وجہ سے جو انجام برا ہونا ہے اس سے بچ جاتے ہیں ۔
دل منافقت سے صاف رہے گا تو اندر مثبت احساس بیدارہوں گے۔ اس طرح دل صاف ہو گا تو عمل بھی مثبت ہو گا۔
منافقت سے بچنے کی کوشش ذات پر کام کروائے گی جس سے اندر پاور بڑھتی ہے۔
اللہ کے ناپسندیدہ عمل سے بچیں گے تو اللہ کی رضا خوشی پیار حاصل ہو گا۔
منافقت سے بچ کر دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔
منافقت سے بچ کر ہم سچائی کی بنیاد پر دوسروں سے تعلقات اچھے رکھ سکتے ہیں اور اللہ کا قرب پاسکتے ہیں ۔
منافقت خلوص کے منافی ہے اس سے رشتوں میں خالص پن نہیں رہتا ۔ اس سے بچ کر رشتوں میں خلوص اور پیار بڑھتا ہے۔
آپس کی ناچاقی پیدا نہیں ہوتی۔اور تعلقات مضبوط ہو جاتے ہیں ۔
منافقت سے بچنے سے ایمان کی سلامتی اور مضبوطی عطا ہوتی ہے۔
منافقت بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے اس سے بچنا بہت سی برائیوںسے بچاتاہے۔
منافقت سے بچ کر ہم حق پر رہتے ہیں۔ اندر باہر کی سچائی اور خالص پن حق کی راہ پر ہمیں آگے لے جاتا ہے۔
منافقت سے بچنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ دوسرے لوگوں کے دل میں ہمارے لئے پیار ، اعتبار اور عزت پیدا ہوتی ہے۔ سچائی میں بہت طاقت ہے جو دوسرے لوگ بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔

منافقت کے پیچھے بھی ذات ہی ہوتی ہے اس سے بچ کر ہم ذات کی دیوار کر گرا سکتے ہیں ۔




ذاتی تجربہ:
ہماری ایک رشتہ دار ہے جس سے اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اس نے اپنی نئی جاب ملنے کی خوشی میرے ساتھ شیئر کی اس کی بات سے دل میں بالکل خوش نہ ہوئی نہ کوئی دلچسپی محسوس ہوئی مگر ایسے ظاہر کیا کہ میں بہت خوش ہوئی ہوں ۔ اس معاملے میں بظاہر دلچسپی دکھائی اس سے کافی ساری باتیں پوچھیں کہ سب کیسے ہوا جبکہ دل میں بے زاری تھی ۔ساری بات صحیح سے سن بھی نہیں رہی تھی مگر اس کے سامنے بہترین رویے کا مظاہرہ کیا ہر لحاظ سے اپنا آپ بہترین دکھایا۔
آج بھی جب کال پر بات کے دوران منافقت کر کے اچھا رویہ اپنایا ہوا تھاتو اللہ نے احساس عطا کیا کہ کیوں ذات میں پھنس رہی ہوں ۔ اندر اتنا ظر ف نہیں ہے کہ اس کی خوشی میں خوش ہو سکوںتو بہتر ہے کہ جتنی خوشی محسوس کر رہی ہوں اتنی ہی ظاہر کروں ۔اب میں نے سچائی سے خوشی کااظہار کرنے کی کوشش کی۔پھر آہستہ آہستہ اس کے لیئے مثبت سوچنا شروع کیا ۔پیار کے احساس سے دل میں ابھرے تو اس کےلئے سچے دل سے خوشی چاہی اور دعا بھی دی۔اپنے گند پر شرمندگی کے احساس کے ساتھ معافی مانگی اور منافقت جیسے گناہ سے بچ کر سچائی کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ کر اللہ کے قرب کی راہ پر آگے بڑھی ۔




کالج میں اکثر پرنسپل کے سامنے منافقت سے کام لیتی تھی جیسے پرنسپل کے سامنے نمبر بنانے کےلئے ان کی بیٹی سے پیارجتاتی ہوں جب کہ دل سے اس پر پیار نہیں آیا ہوتاتھا۔ وہاں مقصد اپنے نمبر بنانا تھاکہ میرے بارے میں اچھا سوچیںاور ضرورت پڑنے پر میرا فائدہ بھی ہو ۔
پرنسپل کی بیٹی میری ہی کلاس میں پڑھتی ہے۔آج اس نے کام ٹھیک نہیں کیا تھا۔میں اسے سختی سے ڈانٹنے ہی لگی تھی کہ اتنے میں پرنسپل کو راﺅنڈ پر آتے دیکھا۔ ان کے کلاس میں داخل ہوتے ہی میں ان کی بیٹی کو بڑھ چڑھ کر پیار کرنے اور کام سمجھانے لگی۔جب وہ کلاس سے چلی گئیں توپھر احساس ہوا کہ میں اس معاملے میں سچائی سے نہیں پیش آتی۔ منافقت کی وجہ سے پیار ظاہرکرتی ہوں جبکہ اگر میںپرنسپل کی بیٹی کو پیار نہ بھی کروں تو انہوں نے کچھ نہیں کہنا۔ اب احساس ہوا تو آئندہ اس منافقت بھرے رویے سے بچنے کی کوشش کی۔کلاس میں اس کے ساتھ باقی بچوں جیسا ہی رویہ رکھا جس کی وجہ سے ذات پر کام ہوا اندر پاور ملی اور اللہ کے ناپسندیدہ عمل سے چھٹکارا ملا۔