شکوہ
جب ہم اللہ کے کسی فیصلے ، اس کی مرضی و منشاءپر دل سے راضی نہیں ہوتے اور اس پر ہمارے احساس یا سوچ میں کوئی اعتراض اٹھتا یا ہمارے کسی عمل سے اس ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے تو اسے شکوہ کہتے ہیں ۔اللہ کے بندے وہی ہیں جو بنا کسی شکوے کے کسی بھی طرح کے حالات و واقعات اور معاملات کو اللہ کی مرضی سمجھ کر بلا چوں چرا قبول کر لیتے ہیں ۔ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ شکوے میں چلے جاتے ہیں ۔
شکوہ جائز اور ناجائز دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہے کیونکہ شکوہ جائز صورت میں بھی معاملے کو کسی بہتری کی طرف نہیں لے کے جاتا ۔ دل میں بہت سے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیںاور ہم جانتے ہوئے بھی معاملے کو حل نہیں کرپاتے ۔ یوں اللہ کے بندے کےلئے دل میں جگہ پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب ہم کوئی دعا کرتے ہیں یا کوئی ایسا عمل کرتے ہیں جس کا نتیجہ اچھا ہونا چاہیے مگر وہاں ہمیں ویسا نتیجہ نہ ملے تو ہم اللہ سے شکوے کی حالت میں چلے جاتے ہیں کیونکہ یہاں ہمارا ایمان کمزور ہوتا ہے ۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم یقین نہیں کر رہے ہوتے کہ ہر کام میں اللہ کی بہتری ہوتی ہے۔ شکوے سے ہم اللہ کی قربت سے محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ شکوہ کر کے ہم دل سے اللہ کی رضا میں راضی نہیں ہوتے۔
شکوہ اور ناشکر ی کااظہار ہمارے اندر کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ہم یقین کو مضبوط بنا کر شکوہ سے نکل سکتے ہیں ۔ در اصل شکوہ اپنے حالات سے ناخوش ہونا ہے یعنی اپنے حالات پر شکایت ہونا ہی شکوہ کرنا ہے۔ شیطان کسی بھی حالت میں انسان کو اللہ کا شکر گزار بندہ نہیں بننے دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شکر اللہ کو پسند ہے تو وہ انسان کے دل میں ایسے ایسے خیالات و وہم ڈالتا ہے کہ انسان کبھی بھی اپنے حالات پر خوش نہیں رہ سکتا اور ہم دیے گئے سیٹ اپ سے متعلق شکوے میں رہتے ہیں ۔
حالات اور معاملات میں انسان کا ناخوش ہونا اور یہ کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟اسے ہر وقت شکوہ میں ہی مبتلا رکھتا ہے۔شکوہ حق کے راہی کےلئے زہر کا کام کرتا ہے ، ناشکری میں مبتلا کر تا ہے ،توکل الی اللہ سے دور کرتا ہے جبکہ حق کے راہی کےلئے مالک کی قربت پانے کےلئے اللہ پر توکل بے حد ضروری ہے۔ اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے شکوہ کا شکار ہو کر ہم ان پر شکر کرنا بھی مس کر جاتے ہیں۔ نشیب و فراز، عروج و زوال زندگی کا حصہ ہیں ایسے میں جب بھی ہم سے اللہ کی عطا کردہ کوئی نعمت چھین لی جائے تو وہ صرف اور صرف ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یا ہمیں کسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن ہم کیوں کے سمجھتے نہیں اس لیئے ہم شکوے کر نے لگتے ہیں ۔
شکوہ شکایت کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے ،بیماری، کاروبار میں نقصان ، رشتے ناطے خراب ہونا ، تعلقات میں کمی آناوغیرہ وغیرہ۔شکوہ ، ناشکری ، یقین کی کمی، فانی دنیا میں کی چاہتون میں مبتلا ہو نے اوراس کی رنگینیوں میں کھو جانے کی وجہ سے آتا ہے۔ ہم شکوے میں تب بھی جاتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق تھا او ر ہمیں کیوں نہ دیا گیا۔اللہ کے ہر فیصلے کے بہترین ہونے کے یقین پر کی مضبوطی ہمیں شکوے سے آزاد کرتی اور حق کی راہ پر ہمارے قدم آگے بڑھاتی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عید کے دن نماز کے لئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ خطبے سے پہلے پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹیک لگائے کھڑے ہوگئے، اللہ پر تقوی کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی پھر عورتوں کے پاس جا کر ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے درمیان سے ایک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر عرض کیا کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ فرمایا : کیونکہ تم شکوہ زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری۔(صحیح مسلم


شکوہ کر نے کے نقصانات :
شکوہ کرنے سے دل میں اللہ کا احساس کم ہوتا ہے ۔ اللہ کی ذات عطا کرنے والی ہے اور بہترین عطا کرنے والی ہے اس احساس سے جب دل خالی ہو تو دل میں شکوہ آتا ہے اور اللہ سے دور ہو جاتے ہیں ۔
شکوہ کرنے سے دل میں شکر کا احساس کم ہوتا ہے دل میں ناشکر ی آتی ہے۔ا س طرح نظر عطاﺅں سے ہٹ کر کمیو ں پر جاتی ہے۔ اللہ نے جو کچھ عطا کیا ہے ان پر شکر کے احساس سے دل خالی ہوتا ہے۔
اللہ نے جو حق کی راہ عطا کی اس پرآگے بڑھتے ہوئے دل میں کسی حوالے سے شکوہ آتا ہے تو عاجزی سے دو ر ہوتے ہیں ۔
جب کسی معاملے میں اپنی مرضی چاہ رہے ہوتے ہیں اور وہ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو تو شکوہ کرتے ہیں جبکہ اللہ نے جو عطا کیا وہ بہترین ہے مگر ہم اپنی چاہتوں میں پھنس کر شکوہ میں جاتے ہیں ۔
شکوہ کرنے سے دل گنداہوتا ہے ۔ دل میں مایوسی آتی ہے ۔ مایوسی ہمیں اللہ کی رحمت سے محروم کرتی ہے۔
۔ شکوہ کرنے سے ہم راضی با رضا نہیں رہتے اور اللہ کے قریب جانے کی بجائے اس سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
شکوہ کرنے سے اللہ سے دل کا مضبوط رابطہ نہیں رکھ پاتے اور جو اللہ سے تعلق کمزور کرلیتے ہیں۔
شکوہ کرنے سے دل میں اللہ کا یقین ختم ہو جاتا ہے جبکہ یقین ہی قربت کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اس طرح ہم خود اپنے اور اللہ کے درمیان فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں ۔
شکوہ کرنے سے اللہ کی صفات سے نظر ہٹ جاتی ہے کہ اللہ بہترین کرنے والا ہے ہم سے پیار کرنے والا ہے اس طرح دل احساس سے خالی ہوجاتا ہے۔
شکوے سے دل میں منفی سوچیں اور احساس جنم لیتے ہیں انسان کچھ بھی مثبت نہیں سوچ پاتا اور دل بے سکون رہتا ہے۔
شکوے سے دل میں مظلومیت آجاتی ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے بہت برا ہورہا ہے ۔اس طرح ہم بد گمان ہو کر اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں ۔
شکوہ کرنے والا کبھی بھی اللہ کی حکمت کو نہیں سمجھ پاتا ہے، اللہ کی حکمت سمجھنے کو کوشش کرنے والا ہر حال میں راضی رہتا ہے مگر اس طرح شکوے کر کے ہم کسی بھی معاملے میں اللہ کی طرف سے بہتری اور بھلائی نہیں جان پاتے ۔



1
ذاتی تجربہ:
آج عید کے لئے کپڑ ے لینے جانا تھا تو امی نے بہن سے کہا عید کے علاوہ سیزن کے۲سوٹ اور بھی خرید لے ۔ اس بارے میں بہن نے جب مجھے بتایا تو اندر شکوہ آیا کہ امی کو بہن کی فکر ہے مگر میری نہیں کہ میں نے سیزن کے کپڑے لینے ہیں میرے پاس نہیں ہیں ۔ اس طرح سے سوچوں میں شکوے کرنے لگی ۔ ذات کے جال میں پھنس کر ایک سوٹ کی خاطر اندر شکوہ آرہا تھا ۔ اس طرح شکوہ کر کے اپنا نقصان کیا۔ اللہ نے اپنے کرم سے اتنا کچھ عطا کیا ہے مگر اس سے نظر ہٹا کر شکوہ میں مبتلا ہوئی اور خود کو اللہ کے قرب سے دور کیا۔


2
ہم گھر والوں نے مل کرکہیں جاناتھا اور تیار ہوتے ہوئے مجھے وقت کا اندازہ نہ ہوا ، دیر ہوگئی ۔اتنے میں باہر جاکر دیکھا تو بہن جا چکی تھی کہ دیر ہو رہی ہے۔یہاں اندر فوراً شکوہ آیا کہ بہن نے ایسے کیوں کیا اوراگر جانا ہی تھا توجاتے ہوئے بتا تو دیتی ۔ اس طرح شکوہ کر کے دل گندا کیا ۔ راضی بارضا نہ رہی کہ مالک کی یہی رضاتھی۔ اتنی سی بات پر دل میں اللہ کے بندے سے اتنے شکوے آئے اور نقصان اٹھایا۔دل کی حالت خراب کی اور مالک سے دل کی دوری ہوئی ۔دل کی حالت کو صحیح کرنے میں وقت لگا۔ اگر وہاں راضی با رضا رہتی تو اپنے سفر میں ایک قد م آگے بڑھ جاتی اور اصل میں یہ قربت میں بڑھنے کا موقع دیا گیا تھا جو میں نے شکوہ کر کے گنوا دیا۔



3
میرے بیٹے کو ۰۱دن سے بہت شدید ہیضے کی شکایت ہے ۔ بہت زیادہ الٹیاں ، دست کے ساتھ ساتھ تیز بخار بھی ہے ۔ اس پردل بہت پریشان ہوتا ہے تو بہت ساری دعائیں کرتی ہوںمگر بیٹا ٹھیک نہیں ہو رہا ۔آج دل میں ایک احساس گزرا کہ جانے کیوں دعائیں قبول ہی نہیں ہو رہی ہیں۔اللہ تو اپنے بندے سے پیار کرتا ہے ۔ اس طرح شکوہ دل میںآگیا ۔ کچھ بھی مثبت اور اچھا نظر نہیں آرہا تھا ۔ اللہ پر یقین کمزور سا ہوگیا کہ یہ تو ٹھیک نہیں ہو رہاآگے پتا نہیں کیا ہوگا۔ اس طر ح دل سے راضی رہنے کی بجائے اللہ کی صفات پر یقین کرنے کی بجائے اس سے شکوے کرنے لگی۔ یہ بھی احساس نہ ہوا کہ خدانخواستہ یہ کوئی بڑی بیماری تو نہیں ہے،بچے تو بیمار ہوتے ہی رہتے ہیں۔میں نے اس طرح شکوہ کر کے اپنا بہت نقصان کیا ۔ اللہ کو ناراض کر کے اس سے اپناتعلق کمزور کر بیٹھی۔





شکوے سے بچنے کے طریقے:
ہم شکوہ تب کرتے ہیں جب ہم امیدیں لگا کر اور اپنا حق سمجھ کر کچھ پانے کی کوشش کر تے ہیں، اس لیئے اس سے بچنے کےلئے یہ احساس ہو کہ اللہ کا دیا ہو ا سیٹ اپ میرے لیئے بہترین ہے جو کچھ بھی ملا ہے اس میں بھلائی ہے تو ہم شکوے سے بچیں گے ۔
مختلف معاملات میںدوسروں سے مقابلہ بازی کی وجہ سے ہم شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اس لیئے مقابلہ بازی کی بجائے شکر گزاری کا احساس دل میںرکھیں تو شکوے سے بچ سکتے ہیں۔
یہ احساس بھی ہو کہ شکوہ کرنا ایمان کی کمزوری ہے اس لیئے اللہ کے فیصلوں پر یقین اور توکل رکھ کر ہر معاملے میں دل سے راضی رہیں ۔
عاجزی کو اپنا یا جائے کہ میں کچھ نہیں ۔مجھ پر ہر طرح سے اللہ کا خاص کرم اور عطا ہے میں اس لائق نہیں، یوں شکوے سے بچ سکتے ہیں۔
اللہ کے پیار پر یقین ہو کہ وہ ۰۷ماﺅں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اس طرح شکوے سے بچ سکتے ہیں۔
مشکل حالات ہو ںیا جب لگے کہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تووہاں شکوہ کرنے کی بجائے اپنے مالک کے سامنے جائیں ، اس سے مدد مانگیں اس کے سامنے روئیں وہ ہی مدد گار راستہ کھولنے والا ہے ۔ اس کو اپنے بندے کا مانگنا پسند ہے وہ دیکھ بھی رہا ہوتا ہے کہ میرا بندہ میرے پاس آیا ہے ا ور شکوہ کی بجائے مجھ سے جھک کر مدد مانگ رہا ہے ۔ایسا کرنے سے اندر بھی ہلکا ہوتا ہے اور مدد بھی عطا ہوتی ہے۔ دل شکوہ کی بجائے شکر میں جانے لگتا ہے۔
اچھا گمان رکھنے کی کوشش کرنا بھی شکوے سے بچاتا ہے شکوہ کرنے کی بجائے یہ سوچیں کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اوریہ کہ اللہ سب خیر کرے گا۔
اپنی خواہشات اور چاہتوں کو قابو کر کے بھی شکوے پر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ جب ہماری بے لگام خواہشات پوری نہیں ہوتی تو ہم شکوے میں چلے جاتے ہیں ۔
اپنی اوقات یادرکھنے کی کوشش کرنا کہ میں کیا ہوں اور کون ہوں ،جو اللہ کی مرضی اور حکم پر اسکی پلاننگ پر شکوے میں جاﺅں ایسے دل نادم ہوگااور شکوہ سے بچ جائیںگے۔
اپنے سے نیچے ، کم حیثیت والے لوگوں کو دیکھنے سے شکر کا احساس اجاگر ہوتا ہے اور شکوے شکایات سے بچا جاسکتا ہے۔
اللہ کی قادر ہونے کا احساس رکھتے ہوئے شکوے سے بچا جاسکتا ہے وہ مالک جو دینے پر قادر ہے ہر خوشی غمی اس کی طرف سے ہے۔ کسی بھی طرح کے حالات پرشکوے کی بجائے صبر کرنا اور اس میں سے مثبت پہلو ڈھونڈنا چاہیے۔



1
ذاتی تجربہ:
میری شادی پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے ہی ہو گئی تھی ۔میرے دل میں ہمیشہ اس بات پر شکوہ آتا ہے کہ میری شادی کیوں اتنی جلدی ہو گئی ۔ابھی تو میں نے زندگی کا صحیح طرح سے لطف بھی نہیں اٹھایا تھا اور اتنی بڑی ذمہ داری دل قبول کرنے پر تیار نہیں تھا۔شادی ہوجانے کے بعد بھی بار بار اندر احساس اٹھتا کہ یہ سب میرے ساتھ ہی ہونا تھا ۔ یہ بات کافی عرصے سے اندر شکوے کی صورت میں موجود تھی۔
جب سلسلہ میں آئی تو اس بات پر رہنمائی ملی۔ اندر احساس آشنائی بڑھا تواس معاملے کو کو مثبت انداز سے دیکھنا شروع کیا ۔ اب دل میں شکر کے احساس بیدار ہوئے۔
لڑکیاں میری عمر میں شادی کی خواہش کرتی ہیں اور شادی نہیں ہوتی یا رشتہ نہیں ہوتا ۔ میں تو شکر ادا کروں کہ اللہ نے میرے لیے بہترین فیصلہ کیا ہے کہ وقت سے سب ہو گیا ۔اور اللہ کا پیار ہے یہ میرے لیے کہ بے پناہ اور بے حد پیار کرنے والا شوہر عطا کیا ہے۔ یہ شکر اور اللہ کے پیار کا احساس رکھ کر راضی بارضا رہنے کی کوشش کی کہ یہ تو اللہ کا فیصلہ تھا یہی میرے حق میں بہترین تھا ۔اس طرح اللہ کے دیے سیٹ اپ میں راضی بارضا رہ کر شکوہ سے بچ پائی۔




شکوہ سے بچنے کے فائدے:
شکوہ اللہ سے دور کرتا ہے اس سے بچ کر اللہ کی قربت پاسکتے ہیں ۔
شکوہ مایوسی کے اندھیروں میں لے جاتا ہے اس سے بچ کر یقین کی روشنی حاصل ہوتی ہے ۔
اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ اللہ پاک جو کچھ ہمارے لیے کرتا ہے اس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو ہمارے لیے بہترین ہوتی ہے۔
شکوے سے بچ کر مظلومیت میں جانے سے بچ سکتے ہیں ۔
دل کو سکون ملتا ہے کیونکہ شکوہ دل کو بے چین رکھتا ہے ۔
شکوے سے بچ کر ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکتے ہیں کہ جو ملا ہم اس کے قابل بھی نہ تھے ۔ اور شکر مزید نعمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
شکوے سے بچ کر ہم اللہ پاک کے فیصلوں پر شاکر ہو کر اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں۔
۔ دل عاجزی اور اس کی رضا میں راضی رہتا ہے ۔ اس کے دیے ہوئے ہر سیٹ اپ کو دل سے قبو ل کرنا آتا ہے اور ہم اس کے پیارے بندوں میں شامل ہوتے ہیں ۔
اپنی چاہتوں اور خواہشات پر کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں اور چاہتوں کو قابو میں رکھ کر ذات پر کام ہوتا ہے۔
اللہ کی صفات اور اس کی ذات پر دل سے یقین پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے بہترین کرنے والا ہے اور کبھی بھی ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں ہوگا۔
دل سے اللہ سوہنے کے سامنے جھکتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کرتے جاتے ہیں ۔
شکوے سے بچ کر ہم اپنے دل کو گندا ہونے سے بچا لیتے ہیں ہمیں سوہنے اللہ اور پیارے آقاﷺ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔

1
ذاتی تجربہ:
میرے والد کی فوتگی کے بعد میں اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکا ۔مجھے ابو کی ہی جگہ ان کے محکمے میں جاب مل گئی اور مجھے وہ جاب کرنی پڑی۔حالات ایسے تھی کہ میں پڑھائی چاہنے کے باوجود بھی جاری نہیں رکھ سکا تھا۔میرے اندر بار بار شکوہ آتا کہ اگر حالات یہ رخ اختیار نہ کرتے تو میں بھی اپنی پڑھائی اچھے طریقے سے مکمل کر پاتا۔اکثر دل ہی دل میں اس بارے میں ایسے ہی احساسات اٹھتے رہتے تھے۔
جب تک سلسلہ میں اٹیچ ہو کر استاد سے رہنمائی نہ ملی تھی اسی طرح شکوہ کنا ں رہا۔ پھر استاد نے اس حوالے سے گائیڈ کیا تو دل سے شکوہ مٹنے لگا۔ دل میں شکر کے احساس بیدار ہوئے کہ شکر ہے کہ جاب بھی مل گئی اور کسی کی محتاجی بھی نہ رہی۔ اگر جاب نہ کرتا تو گھر والوں سمیت مجھے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا۔اللہ نے مجھے حلال رزق عطا کیا اور میں محنت کر کے اپنے گھر والوں کاپیٹ پال سکا۔ اللہ کا شکر ہے۔
ان احساسات کے دل میں بیدار ہونے کے بعد آہستہ آہستہ دل سے شکو ہ ختم ہوتا گیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کرناسیکھا۔