مظلومیت
مظلومیت یہ ہے کہ ہم اپنے سیٹ اپ، کسی بھی مسئلے، پریشانی ، تکلیف کا سبب یا ذمہ دار کسی اور کو سمجھیں۔ کوئی بھی نا پسندیدہ معاملہ جو ہمارے ساتھ پیش آجائے یا ہمارا کوئی نا پسندیدہ معمول بن جائے تو اس کی وجہ بھی ہم کسی اور کو کہتے اور سمجھتے ہیںیعنی ہم دوسرے کواس مسئلے ، پریشانی کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ اس سب کی اصل وجہ فلاں ہے۔وہ کوئی ایک بھی ہوسکتا ہے اور وہ بہت سے لوگ بھی ہو سکتے ہیں ۔مظلومیت میں بظاہر کوئی نہ کوئی ہمیں اپنے حالات و واقعات کی وجہ نظر آنے لگ جاتا ہے اور ہر طرح کے سیٹ اپ اور اس سے وابستہ مشکلات کا ذمہ دار اسی کو ٹھہراتے ہیں اور خود مظلوم بن جاتے ہیںکہ ہمارے ساتھ تو برا اس شخص کی وجہ سے، اس کے ایسا کرنے کی وجہ سے ہوالیکن جب اس کی گہرائی میں جائیں تو اس کی جڑ کوئی اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے نظر دوسروں پر جاتی ہے اور وہی ذمہ دار بھی نظر آتے ہیں۔ہم نے گہرائی میں پڑی اپنی ذات کی اسی جڑکو پکڑنا اور نکالنا ہوتا ہے۔ جب ہم اپناو ہ ذات کا پہلو جڑ سے پکڑ لیں تو اب جو لوگ ظالم نظر آرہے ہوتے ہیں ان کے حوالے سے اپنا زاویہ نظر سیٹ کرنا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہی ہم ان کو بری الذمہ بھی کرتے جائیں گے اور ساتھ ہی ہماری نظر ان سے ہٹنے لگے گی اور ہمیں انہی لوگوں کے بہت سے مثبت پوائنٹ بھی مل جائیں گے۔
مظلومیت منفی رویہ ہے اور جب ہم مظلومیت کا شکار ہوں توہماری نظر پوری طرح کسی نہ کسی ظاہری وجہ پر ہوتی ہے۔ اور اپنے اندر کسی حوالے سے موجودمظلومیت ہماری سوچ یا احساس کو منفی رخ پر ابھار کر ہمیں منفی عمل کی طرف لے جاتی ہے۔ بندہ مظلومیت کا شکار اس وقت ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ فلاں فلاں اس کے ان حالات اور سیٹ اپ کا ذمہ دار ہے۔مظلومیت مختلف حوالوںسے اندر اٹھتی ہے
اپنے پاس مال دولت کی کمی کو محسوس کرکے مظلومیت کا شکار ہو جانا کہ مجھے فلاں فلاں شخص کی وجہ سے مال و دولت ،سہولیات زندگی میسر نہیں ہے، خوش حال زندگی بسر نہ کر سکنے پر مظلومیت کا شکار ہو جانا کہ فلاں کی غیر زمہ داری کی وجہ سے ایسا ہے ،کسی کے پاس زیادہ تعلیم اور اچھی ڈگری دیکھ کر مظلوم بننا کہ فلاں شخص کی وجہ سے حالات ایسے تھے کہ میں تو ڈگری حاصل نہ کر سکا، وغیرہ وغیرہ۔ اندر ہر وقت دل و دماغ میں محرومی اور کمی کا احساس رہتا ہے ۔ مظلومیت میں لوگوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے شکوہ بھی زبان پر آجاتا ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں وَن ٹو ون ہو جاتے ہیں تب نظر اصل معاملے سے ہٹ جاتی ہے، اور انسان مظلومیت میں چلا جاتا ہے۔
وہ ایسے سمجھتا ہے کہ اس کا حق مارا جارہا ہے اور وہ خود کو اکیلا بھی سمجھتا ہے۔ مظلوم انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والا ہر معاملہ ایک سزا لگتا ہے اور ہر معاملے کا منفی اثر لے کر وہ خود کو مظلوم سمجھتا ہے حالانکہ یہاں نادانی میں وہ باطل کے وار میں آجاتاہے۔ ہر معاملے میں اس کو خود پر ظلم محسوس ہوتا ہے جبکہ جو اچھا ہوتا ہے وہ ہمارے مالک کی طرف سے ہوتا ہے اور جہاں کہیں کسی معاملے کے منفی پہلو سامنے آئیں تو اس کا ذمہ ہم دوسرے پر ڈال دیتے ہیں جبکہ اصل میں اس کی وجہ ہمارا ہی ذات میں پھنسے ہونا ہوتا ہے۔عملی طور پر دیکھا جائے تو جب ہمارے اندر اللہ کے پیار محبت اور یقین کی کمی ہوتی ہے تو کسی ایک معاملے میںپھنسنے پر باطل ہمیں ہر طرح سے گھیر لیتا ہے تاکہ یہ احساس ہو کہ ہمارے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔ہماری نظر دوسروں پر جاتی ہے اور جب تک وہ پلٹ کر خود پر پڑے ہم اس مظلومیت سے نجات نہیں حاصل کر سکتے۔
مظلومیت میں پھنسنا کی وجہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہمارے اندر کے منفی احساس کا دخل ہوتا ہے۔مظلومیت کے احساس سے ہمیشہ منفی سوچیں آتی ہیں اور انسان کے لیے کسی بھی معاملے میں بہتر رزلٹ نکالنا مشکل ہوتا ہے ۔ مظلومیت میں ہم احساسِ کمتری کا شکا ر بھی ہو جاتے ہیں اور اچھے اور برے کا فرق سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔دوسروں کے ہر طرح کے رویے کو منفی سمجھتے ہیں ۔ یوں بندہ نہ اللہ کی رضا میں راضی ہوتا ہے اور نہ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس کا دل صاف ہوتا ہے ۔ مظلومیت عام روٹین کے معاملات اور معمولات میں آ جاتی ہے۔ اور کسی بھی موقع پر انسان خود کواسی احساس سے تولتا ہے اور کبھی سچی خوشی کو نہیں پاسکتا ۔ اس لیے اس احساس کو عام روٹین کے معاملات میں پہچان کر سچائی کو سامنے رکھ کر ختم کیا جانا چاہیے اور صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارا اپنا کردار اس لمحے میں ، اس معاملے کے ساتھ کیا تھا، اور کیسا ہونا چاہیے ۔ اگر اس طرح جائزہ لیا جائے تو سچائی سامنے آجاتی ہے۔ مظلومیت حق کے راہی کےلئے زہر کا کام کرتی ہے ، کسی بھی ٹیسٹ میں نفس اور باطل انسان کو پھنسا لیتے ہیں کہ اس پر بہت ظلم ہورہا ہے، اور بے جا ہو رہا ہے دل میں یہ ہی احساس رہتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہو رہا ہے اور مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ حق کے راہی کے لئے ناشکری اور منزل سے دوری کا باعث بنتی ہے۔اس سے چھٹکارہ پا کر ہی ہم حق کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔


مظلومیت کے نقصانات :
مظلومیت کا بڑا نقصان یہ ہے کہ اللہ کی راہ کے مسافر کےلئے رکاوٹ بنتی ہے اور اس راہ پر آگے بڑھنے نہیں دیتی۔
مظلومیت میں رہنے والا احساس اور سوچ کی نیگیٹوٹی کا شکار رہتا ہے اور اس کو عمل بھی پھر مثبت نہیں ہوتا۔
مظلومیت کی وجہ سے اندر نفرت ہوتی ہے۔ہم اپنادل صاف نہیں رکھ پاتے اندر گندہ کر کے خود کو اللہ کے قرب سے محروم کر لیتے ہیں ۔
مظلومیت میں رہنے والا اپنی ذات میں قید ہوتا ہے اسی وجہ سے اللہ کے بندوں سے بد گمان ہوتا ہے یہی اللہ سے دوری کا باعث ہے۔
مظلومیت انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہے ۔ایسا شخص کبھی اللہ کے راستے پر آگے بڑھنے کا جذبہ محسوس نہیں کر پاتا اور پیچھے رہ جاتا ہے۔۔ مظلومیت خوف میں مبتلا کر کے اندر بے یقینی کی کیفیت پیدا کرتی ہے یوں مظلومیت ایمان کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔
مظلوم شخص کبھی خوش نہیں رہتا ، ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے منفی سوچیں اسے مظلومیت سے نکلنے نہیں دیتیں ۔ اس طرح اس کے اندر سے مثبت احساسات ختم ہونے لگتے ہیں۔
حق کی راہ پر مظلومیت ایک کانٹے دار جھاڑی ہے اس کو اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے ہم نہ تو لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات اچھے بنا سکتے ہیں اور نہ پھر اللہ سے رشتہ استوار ہو پاتا ہے۔
مظلومیت سے دل مردہ ہونے لگتا ہے ۔اللہ کی صفات پر یقین میں کمی آنے لگتی ہے جو کہ حق کی راہ سے دوری کا باعث بنتی ہے۔
مظلومیت میں خود کو بے چارہ سمجھتے ہیں اور اپنے چارہ گر مالک کو بھول جاتے ہیں جس سے مایوسی کی دلدل میں گر جاتے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
مظلومیت سے دل کا سکون برباد ہو جاتا ہے سکون نہیں ملتا نفس اور ذات ہمیں چین نہیں لینے دیتی جس کی وجہ سے اپنی منزل سے دور ہوتے ہیں ۔
مظلومیت سے ہم اللہ کے پیار کا یقین کھوبیٹھتے ہیں جس سے اللہ کی طرف قدم بڑھنے کی بجائے شیطان کے پیچھے جانے لگتے ہیں۔
مظلومیت حق کی راہ میں آنے والی مشکلات میں اللہ کے سہارے کھڑے ہونے سے دور کرتی ہے۔ہماری نظر ہمیشہ دوسروں پر رہتی ہے تو مزید پھنستے اور گند مارتے ہیں۔
مظلومیت اپنے اندر کی خامیوں اور کمی میں پھنسے رہنے کہ وجہ سے ہوتی ہے اور ہم مظلومیت کا رونا روتے ہوئے آگے قدم نہیں بڑھا پاتے ۔
مظلومیت کی وجہ سے دل میں شکر کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔
مظلومیت میں کوئی بہتری کی راہ چننا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی حالت میں انسان خود کو کمزور سمجھتا ہے۔
مظلومیت انسان کو ہمیشہ ہر طرح کے سیٹ اپ میں نقص نکالنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ اس سیٹ اپ میں اچھا گذارہ کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔
مظلوم انسان اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر تسکین محسوس کرتا ہے اور یوں مزید ذات کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔

1
ذاتی تجربہ:
پچھلے دنوں مجھے گاﺅں جانا پڑا وہاں جا کر بیمار ہوگئی ۔وہاں کام بہت زیادہ تھا اور میرے بار بار کہنے کے باوجود بھی میرے میاں نے کسی ہیلپرکا بندوبست نہ کیا تھا۔میرے اندر مظلومیت آنے لگی کہ میں بیمار ہوں اور میاںکو ذرا بھی احساس نہیں ، نہ میری قدر ہے ۔ مجھے اس حال میں بھی کام کرنا پڑ رہا ہے، یوں نظر دوسرے پر گئی ، میاں کو اس مشکل کا ذمہ دار سمجھا اور خود کو مظلوم سمجھنا شروع کیا تو اندر مزید منفی سوچیں آنے لگیں کہ وہ تو ہمیشہ سے ہی ایسے ہیں، کبھی میری پرواہ نہیں کی۔ مظلومیت میںپھنس کر اپنے آشنائی کے سفر میں رکاوٹ پیدا کی، اللہ کے احساس سے غافل ہوئی اور اس طرح اپنا نقصان کر
بیٹھی۔


2
میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے ،کبھی کبھی بہت بڑھ جاتا ہے، اس وقت جب امی کام کرنے کو کہتی ہیں تو مظلومیت کا احساس ہوتا ہے کہ امی کو میرا خیال ہی نہیں نہ احساس ہے کہ مجھے کتنی تکلیف ہے۔آج بھی امی نے کچن کے کام میں مدد کرنے کے لیئے مجھے بلایا تو امی کےلئے اندر منفی سوچیں آنے لگیں اور دل کی حالت خراب ہوتی گئی۔ کام کرتے ہوئے بھی منہ بنا ہو ا ہوتا تھا۔ سر میں درد بڑھا تو اس کا ذمہ دار بھی امی کو ہی ٹھہرایا جبکہ سر دردتو ویسے بھی تھا مگر میں نے امی کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ وہ میری اس معاملے میں پروا ہ نہیں کرتی ہیں۔
کام کرتے ہوئے احساس ہواکہ میں مظلومیت میں جا کر کتنا نقصان کر رہی ہوں ۔ مجھے اللہ نے جو بھی سیٹ اپ دیا ہے اسی میں بہترین کرنا ہے اور میں خود اس میں مظلوم بن کر اللہ کی قربت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دیتی ہوں ۔ منفی احساس اور چڑ سے دل گندا کرتی ہوں اور خود کو اللہ کے قرب سے دور کر کے اپنا نقصان کر رہی ہوں۔ یہاں اب اپنا دل سیٹ کر کے نظر امی سے ہٹا لی اور کوشش کی کہ کام اچھے طریقے سے کروں۔


مظلومیت سے بچنے کے طریقے۔
مظلومیت سے بچنے کےلئے ہمیشہ یہ احساس مدد کرتا ہے کہ میرے ساتھ اگر کچھ اچھا نہیں ہوا تو میرا ہی کوئی گند اس کی وجہ ہوسکتا ہے یہ بات اندر کو شرمندگی اور ندامت سے ہلادیتی ہے اور یہی احسا س مظلومیت سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔
مظلومیت سے بچنے کےلئے دل کو ہمیشہ ان عطاﺅں پر شکر میں لانا چاہیے کہ جو ہم پر چکی ہیں اور ہم اس قابل نہیں تھے۔ شکر اور عاجزی کا احساس ہمیں مظلومیت سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی کوشش کرنا ہمیں مظلومیت سے بچا سکتا ہے کیونکہ مظلومیت تب آتی ہے جب ہماری مرضی اور چاہ سے ہٹ کر کچھ ہوتا ہے تو ہم مظلوم بن جاتے ہیں وہاں اپنی چاہ کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اللہ کی رضا میں راضی ہو جانا مظلومیت سے بچنے میں مدد گار ہے۔
اللہ پر یقین اور اس کی صفات پر یقین ہمیں مظلومیت سے بچنے میں مدد دیتا ہے کہ وہ عطا کرنے والا ،مددگار ہے ،پیار کرنے والا، راہ کھولنے والا ہے ہر حال میں تھامے ہوئے ہے یہ یقین ہمیں مظلومیت سے بچنے اور استقامت سے کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے۔
اپنی محرومیوں کو دیکھنے کی بجائے ان لوگوں پر نظر ڈالنا جن کے پاس وہ کچھ بھی نہیں جو ہمیں عطا کیا گیا ہے ایسے دل عاجزی میں جائے گا، اس طرح اپنے سے نیچے والوں پر نظر رکھ کر بھی ہم مظلومیت سے بچ سکتے ہیں ۔
۶۔ اپنی ذات کا خول توڑ کر ہم مظلومیت سے بچ سکتے ہیں ، کیونکہ جب تک ہم اپنے بارے میں سوچتے رہیں گے خود کو مظلوم سمجھتے رہیں گے۔
یہ احساس پیدا کر کے ہم مظلومیت سے بچ سکتے ہیں کہ اللہ بہترین کرنے والا ہے اس نے جوبھی سیٹ اپ اور معاملات دیئے ہیں یہی بہترین ہیں اورہمیں ان میں راضی با رضا رہنا ہے اس طرح ہم مظلومیت سے بچ سکتے ہیں ۔
جب اندر مظلومیت آنے لگے تو اللہ سے مدد مانگیں کہ میں کمزور ہوں مظلومیت سے نہیں بچ پا رہا ،مجھے بچالے، تو اللہ کی مدد سے مظلومیت ختم ہو جائے گی۔
ہم مظلومیت میں اس لیئے بھی پھنس جاتے ہیں کہ کوئی میری بات یا عمل کو سمجھ نہیں رہا، میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہاں پر یقین ہو کہ اللہ سب جانتا ہے، خود خالص ہو کر عمل کریں تو اللہ اجر دیتا ہے۔ اس لیے نیک نیتی سے عمل کرنا بھی مظلومیت سے بچاتا ہے۔
ہم اپنی زندگی کے جو معیار بناتے ہیں جب وہ پورے نہیں ہوتے تو ہم خود کو دوسروں کا اس کی وجہ اور خود کو بے چارہ سمجھ کر مظلومیت کا شکار ہوتے ہیں ، اس لیے ہم کوئی بھی معیار سیٹ نہ کریں۔ جو بھی حاصل ہے اس پر شکر کرتے ہوئے بہترین سمجھ کر قبول کریں تو مظلومیت میں نہیں جائیں گے۔
اللہ کی ناراضگی کا احسا س بھی مظلومیت سے نکلنے میں مدد دیتا ہے کہ اللہ کے دیے پر راضی نہ رہ کر بے چارگی میں رہنا اللہ کو پسند نہیںجو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی مرضی ہے۔

1
ذاتی تجربہ:
میں نے بہن سے کسی معاملے کے حوالے سے مشورہ لینا چاہا، اس سے بات کی تو اس نے آگے سے بڑی سخت بات کر دی جو کہ بالکل ہی میرے خلاف تھی ۔ وہاں دل اتنا مظلوم بن رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا کر دیا تھا۔ میں اس سے مشورہ مانگ رہی ہون اور آگے سے ایسے لہجے سے بات کر رہی ہے۔ میں تو اس کے ساتھ ایسے بات نہیں کرتی ۔
اس وقت احساس ہو ا کہ بہن کی بات کو لے کر مظلوم بن رہی ہوں ۔ اور اندر مظلومیت کی وجہ سے گندہ کر رہی ہوں ۔ اپنی غلطی کے احساس کو لے کر مثبت ہو کر سوچنے لگی۔ اور اس معاملے میں اللہ کی اپنے لیے حکمت تلاش کرنا شروع کی تو احساس ہوا کہ یہاں میری اصلاح کروائی جارہی تاکہ میں غلطی سے بچوں ۔ اپنے لیے اس معاملے میں اللہ کی بہتری تلاش کر کے مظلومیت میں جانے سے بچ گئی ۔

2
میں شہر سے دور ایک گاﺅں میں نوکری کےلئے جاتی ہوں جو کہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میں وہاں نوکری کرنے پر راضی نہیںتھی مگر ابو کے کہنے پر مجبوراََکر رہی ہوں۔وہاں نوکری کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ جن طالبات کو پڑھاتی ہوں انہیں سمجھ نہیں اور نہ ہی اچھے طریقے سے بات کرتی ہیں ۔ گاﺅں کاسیٹ اپ ہے ۔ اندر ا حساس اٹھتا ہے کہ میں کہاں پھنس گئی ۔ یہ احساس بھی آتا ہے کہ باقی سب گھر میں آرام کر رہے ہوتے ہیں اور میں سفر میں دھکے کھا رہی ہوتی ہوں اور اس سب کی وجہ ابو ہی نظر آتے ہیں ۔
آج بھی گاﺅں سے واپس آتے ہوئے ایسے ہی ابو پر نظر جا رہی تھی اور منفی سوچیں ابھر رہی تھیں کہ احساس ہوا کہ میں مظلومیت میں جارہی ہوں جبکہ میں تو حق کی راہی ہوں اور اللہ کی قربت کی طلب گار ہوں ۔ ایک معمولی سے سیٹ اپ کو خود اپنے سہل پسندی کی وجہ سے قبول نہیں پا رہی اور الزام ابو کو دے کرخود مظلوم بن رہی ہوں کہ میرے ساتھ ان کی وجہ سے بہت برا ہو رہا ہے۔ اب احساس ہو ا کہ مجھے تو راضی بارضا رہنا ہے ۔ اس سیٹ اپ میں ایڈ جسٹ نہ ہونے کی وجہ ابو نہیں ہیںبلکہ یہاں میری اپنی مرضی اور چاہت ہے کہ میں گاﺅں میں کام نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اب ذات کی اس جڑ کو پکڑلیا تو ابو سے بھی نظر ہٹ گئی۔ان کااس معاملہ میںاپنے لیئے پیار بھی نظر آیا کہ وہ تو اصل میں میرا ہی بھلا چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ کی نوکری اچھی ہوتی ہے۔
یہاں اب اللہ سے مدد مانگی تو احساس ملا کہ مجھے ان بچیوں کی رہنمائی کے لئے چنا گیا ہے اور مجھے موقع دیا گیا ہے تو مجھے اس کا پورا فائدہ اٹھانا ہے ۔اس احساس نے پاور دی اور مظلومیت ختم کر کے اپنے کام کو اچھے طریقے سے کرنے کا رادہ کیا۔



مظلومیت سے بچنے کے فائدے:
مظلومیت سے بچ کر اللہ کے پیار و حکمت پر نظر رہتی ہے کہ وہ ہمارے لیے بہترین کے سوا کچھ نہیں کرتا ۔
مظلومیت سے بچ کر انسان منفی سوچوں سے بچ جاتا ہے۔
مظلومیت سے بچ کر ہم اللہ کا قرب پاسکتے ہیں کیونکہ ہماری نظر ہمیشہ خود پر رہتی ہے۔
مظلومیت سے بچ کر ہم اللہ کے پیار کی صفت کا یقین دل میں اتار سکتے ہیں کہ اللہ تو صرف پیار کرنے والا ہے ہر صورت میں اس کا پیار میرے لیے بے شمار ہے۔
مظلومیت سے بچ کر ہم دل میں شکر کا احساس بڑھا سکتے ہیں اور ناشکری جو ہمیں مظلوم بناتی ہے اسے ختم کر سکتے ہیں ۔
دل میں یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ بہترین حکمت والا ہے اس کے ہر کام میں چھپی ہوئی کوئی حکمت ہوتی ہے، تو ہم ہر سیٹ اپ کو خوش دلی سے قبول کر پاتے ہیں۔
مظلومیت سے بچ کر ہماری سوچ مثبت ہوتی ہے ہم ہر معاملے میں کچھ مثبت بات نکال سکتے ہیں۔
دل میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا احساس بڑھتا ہے جو ہمیں بہترین عاجزی کی طرف لے جاتا ہے۔
اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے دل میں یقین پکا ہوتا جاتا ہے جتنا یقین بڑھتا ہے اتنا قربت کی طرف بڑھتے ہیں۔
مظلومیت کے گند سے آزاد ہوںتو اپنے معاملات کی سچائی آسانی سے نظر آئے گی پریشانی کی جو اصل وجہ ہو گی اس کو پہچان کر اصلاح کر سکیں گے۔
مظلومیت سے بچ کر دوسروں کے لیے دل سے تنگی ، نفرت ، بدگمانی یہ سب منفی احساسات ختم ہوں گے ، خلوص سے تعلقات بنانے میں مدد ملے گی ۔
مظلومیت سے بچیں گے تو اندر سکون ہو گا اور باہر کے حالات بھی اچھے ہوں گے ۔
مظلومیت سے بچ کر اللہ کے ناپسندیدہ اعمال سے بچیں گے جو دنیا اور آخرت میں بہتری کا باعث ہے۔
مظلومیت سے بچ کر اللہ کی عطا پر نظر جاتی ہے ہمیں اپنے پروردگار کی نعمتوں غورو فکر کرنے کا موقع ملتا ہے کہ اللہ نے ہمیں کیا کیا عطا کیا ہے۔



1
ذاتی تجربہ:
مجھے ایگزیما(جلدی بیماری) ہے ۔جس کی وجہ سے جِلد خراب رہتی ہے اس کے علاوہ اور بھی سکن کے ایک دو مسئلے ہیں ۔ آج ایک مسئلہ بہت زیادہ ہو رہاتھا تو دل میں مظلومیت کا احساس آیا کہ گھر والے اس بیماری کو اہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کا علاج کروانے پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ میں نے آج بھائی سے دوائی لانے کو کہا تو اس نے کہا کہ فارغ ہو کر لا دے گا میں فکر نہ کروں لیکن میں تو مظلومیت میں جاکر دل ہی دل میں اس سے شکوے کرنے لگی۔پھر سوچا کہ گھر والوں کو بھی احساس دلاﺅں گی۔
اس سے پہلے کہ میں کسی کوکچھ کہتی مجھے احساس ہوا کہ میں مظلومیت میں جا رہی ہوںاور دوسروں پر نظر ہے ۔خواہ مخواہ ان کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہوں جبکہ گھر والے میرا پوری طرح خیال رکھتے ہیں۔ دوائی بھی وقت پر مل جاتی ہے۔ یہ میری اپنی ذات ہے کہ میں ایکسٹرا توجہ چاہتی ہوں اور اس توجہ کو پانے کے لیئے شور کرتی ہوں اور گھر والوں سے بھی گلے شکوے رہتے ہیں۔یہاں گھر والوں کے پیار کو محسوس کیا تو کئی اور مثبت پہلو بھی نظر آئے۔ میں نے اسی وقت بھائی کو کہا کہ جب آسانی ہو مجھے دوائی لا دینا اور ساتھ ہی حوصلہ افزائی بھی کی کہ وہ بہت خیال کرتا ہے اور وقت سے دوائی لا دیتا ہے۔ اس پر وہ خوش ہوا اور اسی وقت دوائی لینے چلا گیا۔
یہ احساس بھی ہوا کہ یہ تھوڑا مشکل وقت ہے اور مجھے اس ٹیسٹ میں دل کو صحیح حالت میں رکھنا ہے۔ اور دوسروں کو بھی اس کا موردالزام نہیں ٹھہرانا، اس طرح مظلومیت سے بچ کر اللہ س کا یقین اور اللہ کے بندوں سے پیار بڑھانے میں مدد ملی۔