احساس کمتری
کسی ایک یا ایک سے زیادہ پہلوﺅں سے اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنے کے احساس کو احساسِ کمتری کہتے ہیں ۔جب ہم اندر ہی اندر اپنی ذات کے مختلف پہلوﺅں کا موازنہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی کسی کمی یا خامی کا احساس ہوتا ہے۔ ہم اس خاص پہلو کے حوالے سے دوسروں کو سٹینڈرڈ یا آئیڈیل بنا کر خود کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے۔اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو دوسروں کے مقابلے میں کم سمجھ کر مایوس ہونا ، برا محسوس کرنا ، دکھ افسوس کا اظہار کرنا خود کو دوسروں سے کم سمجھنا احساس کمتری ہے۔ ہمارا اس بات پر یقین ہو کہ اللہ نے جس وقت میں جتنا عطا کیا، اس وقت میں اتنا ہی بہترین ہے۔ اب اگر اس احساس کو مضبوطی سے پکڑ لیں تو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتے ۔ روزمرہ زندگی میں اپنے سے ذہین، خوبصورت ، خوب سیرت ،خوش اخلاق ، دولت مند یا اسی طرح کسی اور کی کوئی خوبی دیکھ کر اس کا موازنہ کر کے ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں اور صلاحیتوں پر ناشکری کرنے سے اور خود کو شکوہ کی حد تک لے جاتے ہوئے یہ احساس انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔
اچھی نوکری کی خواہشیں، سٹیٹس میں اضافہ کی چاہ اور دوسروں پر اللہ کی نعمتوں کی عطا ہمارے اندر حسد کو بڑھا کر ہمارے اندر احساسِ کمتری پیدا کر دیتاہے۔ خود کو دوسروں کی نسبت کم سمجھنا ، اپنی خامیاں تلاش کرنا، گاڑی و گھر روپیہ پیسہ، شکل و صورت، سیرت ، رشتے ناطے، کاروبار، ملازمت میں خود کو دوسروں سے کم سمجھنا ہمیں کمتر ی کے احساس میں مبتلا کرتا ہے جواور ہم اللہ کی قربت سے محروم ہو جاتے ہیں۔احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ اندر دل میں اللہ پر یقین کی کمی ہوتی ہے جب ہمارے دل میں اللہ پر یقین مضبوط ہوتا ہے ، تو ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اس نے ہمیں جو ، جیسے جتنا کچھ عطا کیا ہے وہی ہمارے لیے بہترین ہے۔ مگر اس یقین کی کمی ہمیں احساس کمتری میں لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے قرب کے سفر میں ، عطاﺅں کے حوالے سے بھی اگر کسی دوسرے سے موازنہ کر کے اپنی کمی کا احساس ہونا احساس کمتری
ہے۔


احساس کمتری کے نقصانات :
احساس کمتری سے انسان ناشکری میں چلا جاتا ہے، جو نعمتیں اس کے پاس موجود ہوتی ہیں ان پر نظر نہیں جاتی بلکہ جو موجود نہیں ہوتیں ان کی کمی محسوس کرتا ہے۔
احساس کمتری سے ہمارا دل ڈاﺅن رہتا ہے اور مایوسی میں چلا جاتا ہے اور ہم اس وجہ سے کفر جیسا عمل کر جاتے ہیں ۔
احساس کمتری تب پیدا ہوتی ہے جب انسان دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتا ہے حالانکہ ہر انسان کو اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے۔
احساسِ کمتری سے اللہ پر یقین ختم ہو جاتا ہے کہ جب ہم خود میں کوئی کمی محسوس کرتے ہیں تو یہ احساس نہیں رہتا کہ اس کمی کو دور کرنے والا اللہ ہے۔وہ مجھے نوازے گا۔
احساس کمتری سے مظلومیت کا احساس ابھرتاہے اس طر ح اللہ کو ناراض کرتے ہیں ۔
احساس کمتری سے نظر دوسروں پر رہتی ہے اپنا دوسروں سے موازنہ کرتے ہیں اور اس طر ح دل کو بے چین کرتے ہیں ۔
احساس کمتری سے دل میں راضی رہنے کا اور عاجزی کا احساس نہیں رہتا اور انسان اس طرح اپنا اور اپنے رب کا رشتہ خراب کرتا ہے۔
احسا س کمتری سے دل میں دنیا کی فانی چیزوں کی چاہت رہتی ہے اور دل خواہشات کی طرف بھاگتا ہے جس سے اللہ کے قرب کا احساس ختم ہو جاتاہے ۔ اور دل دنیا میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
احساسِ کمتری سے انسان میں اچھے عمل کی طرف دلچسپی کم ہو جاتی ہے کیونکہ احساس کمتری کی وجہ سے آگے بڑھنے کا جذبہ کم ہوتا ہے۔
احساسِ کمتری ہمیں اس عمل سے بھی محروم کردیتا ہے کہ جو ہم کر سکتے ہیں۔اس وقت ہم دوسروں کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنی پاور کو استعمال کرنے کی بجائے اسے ضائع کر دیتے ہیں ۔
احساس کمتری سے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور قربت کی راہ پر
یہی جذبہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس طرح قربت کی راہ پر سفر مشکل بنا لیتے ہیں۔


1
ذاتی تجربہ:
آج کالج میں تقریری مقابلہ تھا۔ میری دوست بہت اچھی تقریر کرتی ہے۔ اس نے اس مقابلے میں حصہ لیا اور انعام بھی حاصل کیا۔ جب وہ اپنا میڈل لے کر مجھے دکھانے لائی تو ایک دم میرے دل میں احساس کمتری ہوا کہ میں اس کی طرح اچھی مقرر نہیں ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو میں بھی مقابلہ میں حصہ لے پاتی۔
اس وقت میں یہ بھول گئی کہ مجھے اللہ نے اور بہت سے صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔اور مجھے ان پر شکر کرنا چاہیئے ۔ اس کی بجائے میں نے دوسروں سے اپنی قابلیت کا موازنہ کیا تو احساس کمتری کا شکا ر ہوگئی۔

احساسِ کمتری سے بچنے کے طریقے :
اللہ کے دیے ہوئے پر راضی رہا جائے تو اس احساس سے بچیں گے۔
احساس کمتری کے شکار شخص کی سوچ محدود ہوتی ہے و ہ ہر معاملے کو اپنے مطابق لیتا ہے اور آس پاس کے لوگوں سے بدگمان ہونے لگتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اللہ پر یقین کو مضبوط کیا جائے اور مثبت گمان رکھا جائے یہ احساس کہ گمان کے مطابق عطا کیاجائے گا احساس کمتری سے بچاتا ہے۔
اپنے ساتھ اللہ کی محبت کو محسوس کریں کہ میری ہر برائی کے باوجود بھی مجھے ہر نعمت عطا کی جارہی ہے۔ یہ مالک کا مجھ سے بے انتہا پیار ہے وہ اپنے اتنے لوگوں میں سے بھی مجھ کو نہیں بھولتا تو اس محبت کی پاور دل میں محسوس کر کے احساس کمتری سے نکلا جاسکتا ہے۔
اللہ پر یقین و ایمان کو مضبوط کر نا چاہیے کہ اس نے جس حال میں مجھے رکھا ہے جیسا بنایا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ سب میرے لیے بہترین نہ ہو اس طرح اللہ پر یقین رکھ کر احساسِ کمتری سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔
نظر دوسروں سے ہٹا کر اپنی منزل پر رکھنا چاہیئے جب نظر دوسرے سے ہٹے گی تو احساسِ کمتری میں نہیں جائیں گے بلکہ اپنے سے نیچے والوں کا احساس احساسِ کمتری سے بچائے گا۔
اگر ظاہری حالت کی وجہ سے احساس کمتری میں جارہے ہیں تو وھاں مقابلہ بازی سے اجتناب احساسِ کمتری سے بچنے میں مددگار ہے۔
اپنے اردگرد موجود اللہ کی نعمتوں پر نظر ڈالیں اور شکر کے احساس کو اپنے اندر پیدا کریں ، اللہ نے جو دیا بہترین دیا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس تو یہ بھی نہیں ، ہم خوش قسمت ہیں کہ اتنا کچھ بن مانگے ملا ہے۔
جب کبھی احساس کمتری میں جانے لگیں تو اللہ سے دعا کریں کہ ہم کمزور لوگ ہیں توتھام لے سنبھال لیں ایسے دعا کرنے سے بھی پاور ملتی ہے، سوچ مثبت ہو تی ہے اور احساسِ کمتری سے بچ سکتے ہیں ۔
خود کو چیک کریں کہ کس بات پر احساس کمتری آتا ہے ۔ اس پوائنٹ کو پکڑ کر اس پر کام کریں تو احساسِ کمتری سے بچیں گے۔
اپنی دنیاوی خواہشات اور چاہتوں کو کنٹرول کر کے احساس کمتری سے بچا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ چاہتیں بڑھتی ہیںتو نظر دوسروں پر جاتی ہے اس لیے اس پوائنٹ پر کام کر کے احساس کمتری سے بچا جاسکتا ہے
نظر دنیا سے ہٹا کر ابدی منزل پر رکھیں کہ یہاں جو مل رہا ہے اس کی اہمیت نہیں بلکہ اصل اہمیت عمل کی ہے ۔اپنے عمل کو خالص کرنے کی کوشش بھی احساس کمتری سے بچاتی ہے ۔


2
ذاتی تجربہ:
اسکول میں سلیبس بنانے کا کام ہو رہا ہے، میری ایک کولیگ آج سلیبس کو دوبارہ چیک کر رہی تھی تو میرے بنائے ہوئے سیلیبس میں کافی غلطیاں نکل آئیں جبکہ دوسری ٹیچر کا بنایا ہو اسلیبس ٹھیک تھا ۔ اندر سوچیں آئیں اور میں الجھنے لگی۔ اپنا موازنہ کرنے لگی کہ سہیلی کو تو سب اچھے سے سمجھ میں آتا ہے اور جلدی بھی کام کر لیتی ہے اور میرا کام ٹھیک نہیں ہو پارہا ہے۔ شاید میں صحیح طرح سے سمجھ نہیں پائی۔ ایسے اندر سوچ سوچ کراحساس کمتری ہونے لگا کہ میرے سے یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ احساسِ کمتری سے دل اور گندا کرتی ۔ یہ احساس ابھرا کہ میں اس طرح کر کے اللہ کانا پسندیدہ عمل کر رہی ہوں ۔ میرے اللہ نے سب کو الگ بنایا ہے ،الگ خوبیاں اور خامیاں ہیں ، اس لیے سب ایک جیسے نہیں ہو سکتے ۔ اب ایسے ہی یہ اس ٹیچر میں خوبی ہے کہ وہ سب کام اچھے طریقے سے کر لیتی ہے اور مجھے اللہ نے جو کچھ عطا کیا ہے اس پر شکر گزاری میں رہوں ۔ جو نعمتیں مجھے حاصل ہیں اس کا دل سے شکر کیا، اور احساسِ کمتری سے باہر نکلی۔ اس طرح اللہ کے ناپسندیدہ عمل کرنے کا احساس اور اس کی عطا کردہ
نعمتوں پر شکر گزاری سے احساس کمتری سے بچ گئی۔

3
میں نے جب اپنا اردومیں ماسٹرز مکمل کر لیا تو گھر میں فارغ تھی۔ میں نے نوکری کےلئے بھی درخواست دی ہوئی تھی مگر نوکری نہیںملی ۔ اس وقت میں اپنا موازنہ اپنی سہیلیوں اور کزنز سے کرتی کہ ان کی جاب لگ گئی ہے اور میں فارغ بیٹھی ہوں ۔شکوے اندر تھے کہ کیا فائدہ ایم اے کرنے کا ، نوکری ہی نہیں ملی ۔کسی اور مضمون میں ایم اے کر لیتی تو ٹھیک تھا۔ ایسے فضول بیٹھی ہوں وقت ضائع کر رہی ہوں ۔ اپنا آپ کم تر لگتا تھا۔ اور باقی سب مجھے بہترنظرآتے تھے۔
جب اللہ کی آشنائی ملی تو احساس ہوا کہ مجھے اللہ نے جو فارغ وقت دیا ہے اس میں موقع ملا ہے کہ میں گھر والوں کے لئے کچھ کروں۔ دوسرا اللہ نے مجھے آرام و سکون میں رکھا ہے میں کئی پریشانیوں سے بچی ہوئی ہوں۔ اور میر ے اللہ نے میرے لیے یہی بہترین کیا ہوا ہے اور میں احساس کمتری میں جا کر دل گندا کر رہی ہوں ۔ اللہ کے دیے سیٹ اپ میں راضی ہو کر اور اسے اپنے لیے بہترین جا ن کر احساسِ کمتری سے بچنے میں مدد ملی ۔



احساسِ کمتری سے بچنے کے فائدے:
خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے جس سے اپنے معاملات اچھی طرح سے نپٹاسکتے ہیں ۔
احساسِ کمتری سے بچ کر اندر قناعت اور توکل بڑھتا ہے۔
احساس کمتری سے بچ کر آگے بڑھنے کی کوشش کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
حسد اور مظلومیت جیسے احساسات سے بچے رہتے ہیں ۔
اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے احساس میں دل شکر سے سرشار رہتا ہے۔
احساس کمتری سے بچتے ہیں تو بے چینی اور بے سکونی نہیں ہوتی۔
شکر میں رہتے ہیں جو اللہ کی پسندیدہ حالت ہے اس سے اللہ کا کرم مزید بڑھتا ہے۔
۔ احساس کمتری سے بچنا اپنی صلاحیتوں کو بہترین استعمال کرنے کا شعور دیتا ہے۔
دوسروں کے لئے دل کی تنگی سے محفوظ رہتے ہیں ۔
احساس کمتری سے بچ کر اپنی صلاحیتوں کو اچھے طریقے سے استعمال کر کے اپنی بھلائی اور دوسروں کی بھلائی کر سکتے ہیں ۔
دل منفی خیالات اور احساسات سے پاک ہوتا ہے تو اس میں اللہ کا احساس سما جاتا ہے۔
احساس کمتری سے بچ کراللہ پر یقین بڑھے گا اور اللہ کے پیار کا احساس میں دل رہے گا ۔
اپنے معاملات بھی اچھے طریقے سے ہینڈل کر سکیں گے اور دوسرے اگر مدد مانگیں تو ان کے کام بھی آئیں گے۔
اللہ کے ساتھ رابطہ مضبوط ہو گا اور حق بات کرنے کی پاور ملتی رہے گی۔
احساس کمتری سے بچ کر محنت کر کے آگے بڑھنے کاجذبہ بڑھتا ہے۔
احساسِ کمتری سے بچ کر اللہ پاک کی عطا کردہ خوبیوں کی تقسیم پر دل راضی ہوتا ہے۔
دل میں حسد کی بجائے رشک اور دعا کے جذبات آتے ہیں ۔
احساس کمتری سے بچ کردل سے اللہ کے سامنے جھکتے ہیں ۔
اس احساس سے بچنا ، میں کج وی نہیں کا احساس بھی دیتا ہے۔ احساس کمتری سے ہمارے اندر محرومی آتی ہے لیکن اس سے نکل کر دل میں کج وی نہیں کا احساس آتا ہے کہ تو نے جو عطا کیا میں اس قابل نہیں، تو نے اوقات سے بڑھ کر دیا ہے ۔
احساسِ کمتری سے بچ کر دل کو پاور ملتی ہے اور انسان عطا ہوئی نعمتوں اور ذرائع کو استعمال کر کے اپنے پیروں پر کھڑاہوتا ہے۔


1
ذاتی تجربہ:
پہلے میں کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔وہاں کا کچن پرانی طرز پر بنا ہوا تھا اور بڑی بوسیدہ الماریاں تھیں ۔ اس بات کی وجہ سے مجھے احساس کمتری ہوتا تھا کہ میرا کچن دوسروں کے مقابلے میں بہت گندا ہے۔ جو ملا اس پر راضی نہ تھی اور اندر بے چینی اور بے سکونی کا احساس ہوتا تھا۔بار بار شوہر سے بھی اس بات پر تکرار ہوتی اور اس پر وہ ناراض بھی ہوتے تھے مگر مجھے مہمانوں کے سامنے شرمندگی محسوس ہوتی تھی اس لیئے اس بات پر دل راضی نہیں ہوتا تھا۔
سلسلے میں آنے کے بعد کرم ہواکہ اب دل ایسے ان مادی چیزوں میں پھنس کر ان کی وجہ سے گندا نہیں ہوتا۔ مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے اس پر شکر ادا کرنا ہے کہ جو کچھ عطاہوا ہے وہ سب اس کی کرم نوازی ہے۔ میری اوقات نہیں اور اب دوسروں کے پاس کچھ بھی اچھا دیکھ کر دل احساسِ کمتری میں نہیں جاتا۔احساسِ کمتری سے بچ کر دل اللہ کی تقسیم پر راضی ہوا اور اندر کی بے چینی اور بے سکونی ختم ہوگئی اور دل کو گندا کرنے سے بھی بچ گئی۔