نفرت
نفرت ہمارے اندر ایک منفی جذبے کا نام ہے۔ نفرت کا آغاز ناپسندیدگی سے ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ ناپسندیدگی بڑھ کر نفرت میں بدل جاتی ہے۔ ہم اللہ کے احساس سے غافل ہو کر جب اللہ کے بندوں کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ذاتیات میں پھنستے ہیں تو نفرتیں بڑھتی ہیں اور دشمنی و عداوت جنم لیتی ہے۔ نفرت دل میں پلتی بڑھتی ہے ۔ دل میں کسی کے لئے منفی احساس یا سوچ آجائے اور اس کا سد باب نہ کیا جائے تو ایسے میں انسان بعض دفعہ دوسروں کا برا چاہتا ہے ۔ نفرت کا انجام دوسروں کےلئے کم اور اپنے لیے ذیادہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔اس سے انسان اپنی طاقت ، وقت اور سوچ کو ضائع کرتا ہے۔ اللہ کی صفت ہے کہ وہ پیار کرنے والا ہے او رایسے لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو دوسروں سے محبت کرنے والے ہوں نا کہ دوسروں سے نفرت کریں ۔
نفرت میں انسان دوسروں کے بارے میں صرف منفی انداز میں ہی سوچتا ہے ۔نفرت کا لیول بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلا جاتا ہے کہ انسان دوسروں کا نقصان چاہتا ہے اور کسی کو دکھ در د میں دیکھ کر سکون حاصل کرتا ہے۔ نفرت انسان کے دل میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل میں کسی طرح کی نرمی نہ ہو،دل میں پیار کا جذبہ کم ہو جائے یا ختم ہو جائے اورنفرت ہمیشہ کسی ذاتی اختلاف یا ذاتی مفاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔
انسا ن کے دل میں اللہ کی قربت کا احساس نہ ہو تو ہی وہ اللہ کے بندوں سے نفرت کرتا ہے کیونکہ جب اللہ کا احساس اندر ہو تا ہم اللہ کی محبت پانے کے لیئے اس کے بندوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور کبھی کسی سے نفرت نہیں کر سکتے ۔ روزمرہ زندگی میں اکثر اپنی ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے کسی کا بھلا نہیں چاہتے، صرف لفظوں کی حد تک ہی نہیں ہم اس نفرت میں دوسروں کو ذہنی و جسمانی تکلیف پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہمارا نفس ہمیں ورغلاتا ہے اور ہم اس کے بہکانے میں آ کر اللہ کا ناپسندیدہ عمل کرنے لگتے ہیں
بعض اوقات ہم کسی کے اعمال کی وجہ سے بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔نفرت گناہ سے ہو ،گناہ کرنے والے سے نہیں لیکن ہم بندے سے نفرت پال لیتے ہیں اور یوں اللہ کے بندے کو اصلاح کی راہ دکھانے کی بجائے اس سے دوری اختیار کرکے اس کے ساتھ اپنا بھی نقصان کرتے ہیںجس دل میں نفرت کی آگ ہو وہاں اللہ کا احساس اور محبت کا بیج پروان نہیں چڑھ سکتا ۔جب کسی سے نفرت کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں حالانکہ ہم اس وقت خود غلط کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم اس کی اچھائیوں اور خوبیوں کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور ہم اس کا نقصان بھی ہم خود کو ہی پہنچا رہے ہوتے ہیں جو کہ دل میں نفرت کو جگہ دینے کی صورت ہوتا ہے۔ اللہ کے بندے کو اللہ کی نظر سے دیکھنے کا احساس مس کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے روزمرہ کے لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے ان کے لیئے دل میں نفرت اور ناپسندیدگی کا احسا س ضرور ہوتا ہے ، چاہے وہ چھوٹا سا معامل ہو یا بہت بڑا لیکن اس سے دل کی حالت ضرور متاثر ہوتی ہے جو کہ نفرت اور سختی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔نفرت سے اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔
محبت اور نفرت کے جذبے میں فرق یہ ہے کہ محبت کے جذبے سے ہم اچھا عمل کرتے ہیں۔جس سے محبت ہوتی ہے ہم اس کا بھلا چاہتے ہیں اور اس ایک کی محبت میں اس سے وابستہ رشتوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور ان کا بھلا چاہتے ہیں ۔ نفرت میں ہم کبھی دوسروں کا بھلا نہیں چاہتے یہ ہمیشہ دوسروں کے نقصان پر اکساتی اور آمادہ کرتی ہے ۔ اور اگر ہم کسی کا ظاہری نقصان نہ کر سکیں تو دل ہی دل میں نفرت کی آگ بھڑکتی رہتی ہے جو ہمارے اندر کو جلائے رکھتی ہے اور جس سے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ۔
دل میں شدت سے کسی کے بارے میںناپسندیدگی کا احساس رکھنا نفرت ہے ۔ نفرت دل میں تب پیدا ہو تی ہے جب دوسروں کےلئے ہمارے دل میں وسعت نہ رہے کسی کی غلطی ، خامی ، بری، عادت کو برداشت نہیں کرتے ۔اللہ کو پسند ہے کہ بندے آپس میں پیار محبت سے رہیں جہاںنفرت زیادہ ہوگی وہاں پیار کم ہو گاجبکہ اللہ پیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور نفرت کرنا اللہ کی پسند اور مرضی کے خلاف ہے ۔اللہ اپنے بندے سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے اور جو اس کے بندے سے پیار کرے اسے پسند کرتا ہے۔ جیسے ماں اس بندے سے پیار نہیں کرتی جو اس کے بچے سے نفرت کرے اسے برا بھلا کہے، ایسے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے نفرت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی پسند اور مرضی کے مطابق کام کرنا ہے اور ناپسندیدہ کاموں سے خود کو بچانا ہے لہٰذا نفر ت ہمیں ہماری زندگی کے مقصد سے دور کرتی ہے ۔ دل میں نفرت کا احساس پیدا ہونے کی وجہ غصہ، حسداور لالچ بھی ہے۔ روزمرہ زندگی میں جب ہم کسی پر غصہ کرتے ہیں ، کسی کے پاس اپنی پسند کی چیز دیکھ حسد کرتے ہیں اور اپنے پاس کسی چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں تو دل میں نفرت کا احساس اور جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ایسی صورت حال میں انسان خود غرض بن جاتا ہے اور جب خود غرضی پیدا ہو جائے تو دوسروں کی فکر ختم ہو جاتی ہے۔
احادیث مبارکہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاو

صحیح بخاری)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ( لوگوں کے لئے ) آسانی پیدا کرنا انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ان کو خوش رکھنا نفرت نہ دلانا اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا اختلاف نہ پیدا کرنا۔(صحیح بخاری)


نفرت کے نقصانات:
۔ نفرت سے آپس کا پیار ختم ہو جاتا ہے۔ اس طر ح دل اللہ اور اس کے بندوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے اور پیارسے خالی دل مردہ ہوتاہے۔
نفرت سے دل میں سختی آجاتی ہے، دل میں جھکاﺅ ختم ہو جاتا ہے۔اور دل کی سختی اللہ کو بہت نا پسند ہے۔
اللہ خود بھی پیار کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی پیار کا حکم دیتا ہے لیکن نفرت کر کے ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور نافرمان بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
دلوں میں نفرت پیدا کرنا شیطان کا کام ہے اور ایسا کر کے ہم شیطان کا ساتھ دیتے ہیں اوراللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ۔
نفرت سے ہماری ذات اور مضبوط ہوتی ہے یہ ذات ہی ہے کہ جو نفرت کو ختم کر کے جھکنے نہیں دیتی۔ اس طرح نفرت سے ہم اپنی ذات کو مٹانے کی بجائے بڑھاوا دیتے ہیں اور اللہ اور اپنے درمیان دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں۔
۔ نفرت سے ہماری نظر خود کی بجائے دوسروں پر ہوتی ہے اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں دیکھنے کی بجائے دوسروں کی غلطی نظر آتی ہے َدوسروں کے عیب نظر آتے ہیں اور اللہ دوسروں پر انگلی اٹھانے والے سے بہت ناراض ہوتا ہے۔
نفرت کہ وجہ سے کسی کی دل آزاری میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
۔ دل میں نفرت کی وجہ سے ہر وقت منفی خیالات ابھرتے ہیں جس کی وجہ سے دل میں بے سکونی رہتی ہے ، دل ہر وقت بے چین رہتا ہے۔
۔ نفرت سے دل میں بدلہ لینے کی آگ بھڑکتی ہے جس کے ردِّ عمل میںانسان ہاتھ پاﺅں سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس طر ح اللہ کے بندوں کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میںبگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
۔ نفرت سے لوگوں میں آپس میں فساد لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہے اللہ نے فساد مچانے والوں کو سخت وعید سنائی ہے اس لیے نفرت کرنے والوں میں شامل ہو کر اللہ کو ناراض کرتے ہیں ۔
۔ کسی کےلئے دل میں نفرت رکھنا ہمیں اللہ سے دور کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی قربت کا راز ہے کہ اللہ کے بندے سے بڑھ بڑھ کر محبت کی جائے اور اگر اس کے بندوں
کےلئے نفرت رکھی جائے تو پھر اللہ کی قربت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔



1 ذاتی تجربہ:
۔ میں آج کل اپنے والدین کے گھر رہنے کےلئے آئی ہوں ، یہ بات میرے سسرال والوں کو زیادہ پسند نہیں ہے۔ اس وجہ سے میرے شوہر مجھ سے ناراض ہو گئے، دل بہت ڈاﺅن ہوا۔ اور دل میں ساس سسر کے لئے منفی خیالات آنے لگے کہ وہی میرے شو ہر کو ہر وقت میرے خلاف بھڑکاتے ہیں، کیا والدین کے گھر رہنے کا میرا کوئی حق نہیں ہے، یہ لوگ میرا گھر بسنے نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ ۔میرے شوہر کو میری شکایتیں لگاتے ہیں جس وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہیں ۔میرے دل میں ان کےلئے نفرت کا احساس تھا اسی وجہ سے دل میں بہت گند بھر گیا۔
جب کچھ وقت گذر گیا اور دل تھوڑا سنبھلا تو احساس ہوا کہ میں نے کیا کیا نقصان کر لیاہے۔ ایک تو غلط سوچ کو دماغ میں جگہ دے کر اسی معاملے میں پھنس کر وقت ضائع کیا۔ دل شکوے میں گیا کہ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے ۔ان لوگوں کی غلطیوںپر نظر رکھی کہ وہ غلط ہیں اس معاملے میں اور دل کو گندا کیا۔سب سے بڑھ کر اللہ کے احساس کو مِس کر دیا کیونکہ اسے تو یہ پسند نہیں کہ اس کے بندوں کےلئے ایسا سوچا جائے اور دل میں منفی خیالات ہوں ۔
مجھے اللہ کی قربت کی چاہ ہے لیکن نفرت کے احساس دل میں بھر کر خود کو اللہ کی قربت کی راہ سے دور کر لیا۔ اپنے اور اللہ کے درمیان فاصلہ پیدا کرکے اپنا بڑا نقصان
کر لیا۔



2
جب تک سلسلے سے منسلک نہیں ہوئی تھی تب تک بہت سے لوگوں کےلئے دل میں نفرت تھی۔ جس میں خاص طور پر ایک آنٹی کا نام سرِ فہرست تھا جن سے مجھے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ ان کو دل بہت سی باتوں کےلئے قصور وار ٹھہراتا تھا کہ ان کی وجہ سے امی اور ابو کو تکلیف ہوئی ہے وہ ان کے درمیان لڑائیاں کرواتی ہیں اور ہمیں پیار بھی نہیں کرتی ہیں ۔ یہ سب سوچیں اندر ان سے نفرت کی صورت بڑھتی گئیں او راکثر ان کانام سن کر دل کی حالت خراب ہوتی تھی۔
آج بھی ان کی کال آئی تو میرے اندر غصے کی ایک شید لہر اٹھی۔ میں ان کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتی۔ آج احساس ہوا کہ میں نے اں سے نفرت دل میں پال کر اپنا کتنا نقصان کر لیا ہے۔ منفی سوچ کی وجہ سے خود کو اللہ کے بندے اور اللہ سے دور کیا۔ شیطان کے راستے پر چلی اور اس کی مان کر اللہ کے نافرمان بندوں میں شامل ہوئی ۔
نفرت سے بچنے کے طریقے:
٭ یہ احساس رکھنے کی کوشش کرنا کہ اللہ کے پیارے بندے کےلئے دل میں نفرت رکھنا اس کو سخت ناپسند ہے اور یہ ہمیں یقینا مالک سے دور کرتی ہیں کیونکہ اس کی قربت پانے کےلئے اس کے بندوں سے پیار کر نا ضروری ہے۔ اس طرح نفرت سے بچ سکتے ہیں ۔
٭ پیارے آقا ﷺ کی پیروی کرنے کی کوشش میں ہر انسان کے دل میں پیار لانے کی کوشش کرنا بھی مدد کرتا ہے۔ پیارے آقاﷺ دشمنوں کو بھی گلے لگا تے اور پیار کرتے تھے پھر ہم کیسے کسی سے اپنی ذاتی وجوہات کےلئے نفرت کریں ۔
٭ ہر انسان کو اللہ کا بندہ اور پیارے آقاﷺ کا امتی سمجھنا، اس احساس سے بھی دل میں نرمی آتی ہے نفرت دور ہوجاتی ہے۔
٭ کسی کے لئے دل میں نفرت لانے کےلئے ہماری ذات کا کوئی نا کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے کبھی دل کی تنگی ، حسد وغیرہ۔ اس پہلو کو تلاش کر کے اس پر کام کی کوشش کرنا اور اپنی غلطی ڈھونڈنا
٭ اپنے دل کی وسعت اور ظرف بڑھانے کی کوشش کرنا کہ اگر کبھی کسی نے آ پ کے ساتھ غلط کیا تو اس کو اللہ کی رضا اور خوشی کی خاطر دل سے معاف کر سکیں بجائے اس کے کہ اس سے نفرت کریں ۔
٭ جس شخص کےلئے اندر نفرت کا احساس آرہا ہو اللہ سے مدد مانگ کر اس کی مدد اور آسانی کی کوشش کریں۔ ایسے اس کےلئے نفرت نرمی میں بدلنے لگی گی اور اندر ٹھہراﺅ بھی آئے گا۔
٭ دل کی یہ چاہ زندہ ہو کہ اللہ کی قربت پانی ہے اس کے لیئے ہر بندے سے دل کا پیار بڑھانا ہے ، دل کی نفرت مٹانی ہے اس طرح دل سے نفرت کو نکال سکتے ہیں۔
٭ اگر ہم یہ احساس رکھیں کہ یہ نفرت تو کسی اور سے زیادہ مجھے ہی نقصان دے رہی ہے کیونکہ جس سے نفرت کی جارہی ہے اسے تو علم بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو خود ہی اپنا دل جلا رہے ہیں نقصان سارا اپنا ہی ہے۔ اللہ سے دوری بھی ہماری ہی بڑھ رہی ہے ۔یہ احسا س بھی مدد کرتا ہے۔
٭ اللہ سے مدد مانگنا کہ میرا دل بدل دے ، یہ احساس دل کو شرمندہ کرے گااور جب شرمندہ ہو کر اپنے عمل پر معافی مانگیں تو دل سے نفرت مٹے گی۔
٭ نفرت آگ کی طرح ہے جس دل میں نفرت ہوتی ہے وہاں مثبت جذبے اور احساس جنم نہیں لے سکتے یہ احساس رکھ کر نفرت سے بچیں۔



1 ذاتی تجربہ:
ہمارے گھر میں کچھ عرصہ پہلے ایک ملازم کام کرتا تھا۔اس نے جب گھر میں چوریا ں شروع کر دیں تو ہم نے اسے نوکری سے نکال دیا۔ اسے نوکری سے نکلوانے میں بھی میرا بڑا ہاتھ تھا۔ میں نے بار بار گھر والوں سے کہا کہ مجھے اس بندے سے نفرت ہو گئی ہے کہ اسے تو نمک حلا ل ہونا چاہئے تھا مگر اس نے ہمارے ہی گھر میں داﺅ پیچ آزمائے، چوریاں کیں اور ہمیں نقصان پہنچایا۔ اس طرح جب اسے نکالا گیا توسب اسے حقارت سے دیکھ رہے تھے اور نفرت محسوس کر رہے تھے۔
آج وہی ملازم ہمارے گھر دوبارہ آیااسے نوکری کی تلاش تھی۔وہ نادل ہو کر معافی بھی مانگ رہا تھا لیکن میں نے جیسے ہی اسے دیکھا بہت غصہ آیا کہ یہ تو چور ہے۔ دوبارہ سے وہی نفرت اپنے اندر محسوس کی۔ میں اسے جھڑک کر گھر سے نکلوانے ہی لگا تھا کہ احساس ہو ا کہ اب تک میرے دل میں اس کے لیئے نفرت ہے۔اس کے برے عمل سے نفرت تو ہو نی چاہیئے مگر اللہ کے بندے سے نفرت کیوں؟؟؟ میں نے خود کو کچھ کہنے سے روک لیا کہ غلطیا ں تو سب سے ہو جاتی ہیں۔معاف کر نا احسن عمل ہے۔
اب جب یہ احساس دل میں بیدار ہوئے تو میں اس کے پاس جا بیٹھا اور اس کی ساری بات سن کر اس کو تسلی دی ۔ اس نے آئندہ اس عمل سے توبہ کر لی تھی تو میں نے بھی اب دل سے اس کے لیئے پیار محسوس کرتے ہوئے اس کو اچھے طریقے سے ڈیل کیا۔ اور گھر والوں سے کہا کہ اس کو دوبارہ کام پر رکھ لیں۔ یوں دل سے ایک اللہ کے بندے کے لیئے نفرت مٹا کر اس کے لیئے پیار محسوس کر کے عملی قدم اللہ کی قربت میں آگے بڑھانے کی کوشش
کی۔


نفرت سے بچنے کے فائدے:
نفرت دل میں موجود ہر جذبے کو جلا دیتی ہے لیکن اس سے بچ کر ہم دل میں پیار کو زندہ کر سکتے ہیں ۔
۔ دل میں اللہ کے بندوں کا پیار بڑھتا ہے اور اللہ کے بندے ہی اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہیں ۔
اللہ کی محبت پانے کے راستے میں میں یہ نفرت بھرے احساسات ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔اس رکاوٹ کو گرا کر ہی اللہ کی محبت پا سکتے ہیں۔
۔ نفرت کو ختم کرکے ہم اپنی انا اور ذات کو مارتے ہیں ۔ انا کو مارکر ہم اللہ کے راستے پر آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
۔ ہم دل سے جھکنا سیکھتے ہیں کیونکہ کسی کو معاف کرنے کےلئے دل کو جھکانا پڑتا ہے، ایسے اللہ کے بندوں کے سامنے جھکنا ہمیں اللہ کے سامنے جھکنا سکھاتا ہے ۔
نفرت ختم کر کے اور معاف کر کے ہم خود اللہ کے رحم اور مغفرت کاامیدوار کر لیتے ہیں ۔
دل میں مثبت احساس ہوگا تو عمل بھی مثبت ہو گا۔
۔ دل میں نرمی آئے گی ، خوش مزاجی اور خوش اخلاقی حاصل ہو گی ۔
۔ منفی سوچوں سے بچیں گے تو حق کی راہ پر آگے بڑھنے اور نیکی کرنے کےلئے پاور ملتی رہے گی۔
۔ اللہ کی نافرمانی سے بچیں گے تو دنیااور آخرت بھی آسان ہوگی ،سکون ،اطمینان اور خوشی نصیب ہوگی۔




ذاتی تجربہ:
کل رات ایک جاننے والے گھر آئے بابا سیدھا ان کو کمرے میں لے گئے۔ مجھے بہت ہی برا لگا ۔ان کے لیئے دل میں نفرت تھی کہ یہ بندہ تو فلاں فلاں برائی اور گناہ کے کاموں میں لگا ہوا ہے اور اتنی رات کوگھر آنے کا بھلا کیا تُک بنتا تھا ؟
غرض ان کے آنے پر خوب گند دل میں اور بابا کے سامنے اس کا ٹھیک ٹھاک اظہار بھی کیا۔ صبح اسی دل کی گندی حالت کے ساتھ بہنوں سے بات کر رہی تھی تو تب جاکر احساس ہوا کہ میں ان کو برااور گناہ کار سمجھنے کے معاملے میں کتنی پراعتماد ہوں، اول تو میں نے انہیں کوئی ایسا عمل کرتے خود نہیں دیکھا اور اگر ان میں کوئی برائی ہے بھی تو میںخود پر نظر رکھوں کہ میں کیا کر رہی ہوں ؟ اتنا گند دل میں ، اتنی نفرت اللہ کے بندے کے لیئے دل میں رکھ کر، ان سے زیادہ اللہ کی نظر میں ،میں ناپسندیدہ بن رہی ہوں ۔
اپنی منفی سوچ کی وجہ سے میں نے کتنا گند مچایا، نا صرف خود بلکہ سب کے سامنے بھی ان کو غلط ثابت کیا، باقی سب کی بھی سوچ ان کےلئے منفی کر ڈالی! میری ان سے نفرت نے کتنا غلط عمل کروایا۔ اللہ سے معافی مانگی، مدد مانگ کر دل صاف کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد ان کے لیئے دعا بھی کی ۔ اللہ کی نظر میں نا پسندیدہ بن رہی ہوں، اس احساس نے ان کے لیے موجود نفرت کو دل سے نکالنے میں میری بہت مدد کی ۔