خلافت ِ راشدہ کی مدت

حضور نبی ِ اکرم ﷺ نے اپنے بعد قائم ہونے والے دور ِ حکومت کی پہلے ہی نشان دہی فرما دی تھی۔
حضرت سفینہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا میری امت میں خلافت تیس برس تک رہے گی۔پھر اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔
حضور نبی ِ اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق خلافتِ راشدہ آپ ﷺ کے بعد تیس سال تک ہو گی۔اس کے بعد دورِ ملو کیت کا آغاز ہو گا۔خیر و فلاح پر مبنی طرزِ حکومت بدل دیا جائے گا۔ اور امتِ مسلمہ میں سیاسی اقتدار کی جو شکل رائج پائے گی وہ ملوکیت کی صورت میں ہو گی۔ حضورِاکرم ﷺکی پیشن گوئی کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق ؓ دو برس، تین ماہ دس دن تک تختِ خلافت پر فائزرہے ۔
پھر خلیفہ

ثانی حضرت عمر ِ فاروق ؓ نے دس برس ،چھے ماہ اورچار دن تک اس منصب کو زینت بخشی۔پھر خلیفہ
ثالث یعنی تیسرے خلیفہ حضرت عثمانِ غنی ؓ کا دور آیا۔ آپ ؓ 11 برس، 11 ماہ اوراٹھائیس دن تک خلیفہ رہے۔
آپ ؓ کے بعد خلیفہ

چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ چار برس نو ماہ تک اس اعلیٰ منصب پر فائز رہے اور آپؓ تبلیغِ دین کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے ،بڑی جان فشانی ، جرات و ہمت اور نہایت جوش و جذبے کے ساتھ وہ سب کچھ کیا۔آپؓ کی شہادت کے بعد آپ ؓ کے صاحبزادے حضرت امامِ حسن ؑ نے یہ عہدہ سنبھالا اور تقریبا ً چھ ماہ اس منصب پر فائز رہے۔سیدنا امامِ حسن ؓکے دورِخلافت کے چھ ماہ شمار کر کے تیس برس تک مشتمل یہ زمانہ عہد ِخلافتِ راشدہ کہلاتا ہے۔
حضرت علی ؓ شیرِ خدا کے اعلان ِ خلافت کے ساتھ ہی ملک شام میں حضرت امیر معاویہؓ نے اپنی آزاد حکومت کا اعلان کر دیا۔اور حضرت علی ؓ کی خلافت کو تسلیم نہ کیا ۔اس پر امتِ مسلمہ متفق رہی ہے کہ خلافت بہر طور حضرت علی ؓ کا حق تھا۔آپ ؓ ہی خلیفہ

بر حق اور خلیفہ
راشد تھے۔حضرت امیر معاویہ ؓ کا یہ فیصلہ آئمہ اہل ِ سنت کے ہاں اجتہادی خطا کے طور پر لیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ اجتہاد کا مطلب ہے کہ زمانے کے مطابق علمائے امت کا مل کر ایسا فیصلہ کرنا جو امت کے لیے آسانی کرے مگر وہ شرح کے خلاف نہ ہو ۔اگر وہاں ایسا فیصلہ ہو جائے جو کسی کو تو فائدہ دینے کے لیے ہو مگر وہ امت کے لیے نقصان دہ ہو۔ تو وہ اجتہاد غلط تھاکیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔اور اس سے نقصان بھی ہونے کا خطرہ تھا۔
علامہ تفتازانی لکھتے ہیں اہل ِ حق کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ اس پورے معاملے میں حضرت علی ؓ درست تھے۔
حضرت امیر معاویہ ؓکے جداگانہ اعلانِ حکومت کے بعدحضرت علی ؓ کے ساتھ ان کی کشمکش کا آغاز ہو ا۔جو کہ حضرت علیؓ کی زندگی میں جاری رہا۔جس کے نتیجے میں جنگِ جمل اور جنگِ صفین جیسے چھوٹے بڑے معرکے ہوئے اور پھر حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسنؓ جب مسند خلافت پر بیٹھے تو امیر معاویہ ؓنے انؓ کی خلافت کو بھی تسلیم نہ کیا۔اس طرح مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف قائم رہا ۔اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے حضرت امام ِ حسن ؓ نے چھ ماہ میں ہی چند شرائط پر مسند ِ خلافت چھوڑ کر امیر معاویہؓ کو مسلمانوں کا امیر تسلیم کر لیا۔