ولید کا مروان سے مشورہ

یزید کے اس حکم نامے کے ملنے سے ولید بہت گھبرا گےا ۔کیونکہ وہ ایک رحم دل اور خاندان ِ نبوت کی تعظیم و احترام کرنے والا گورنر تھا ۔اور یزید کے حکم کی تعمیل اس کے لیے مشکل تھی۔وہ جانتا تھا کہ ان حضرات سے یزید کے لیے بیعت لینا آسان نہیں ۔اس لیے اس نے مشورے کے لیے اپنے نائب مروان بن حاکم کو بلوا بھیجا اور ساری صورت ِ حال سے آگاہ کیا۔ مروان چونکہ سخت مزاج اور سنگ دل شخص تھا ۔ اس نے کہا کہ ان تینوں کو اسی وقت بلائیں اور بیعت کے لیے کہیں۔اگر وہ بیعت کر لیں تو بہتر ورنہ تینوں کو قتل کر دیں اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو امیر معاویہؓ کی موت کی خبر ہو جانے پر وہ تینوں الگ الگ مقام پر جا کر مداعی خلافت بن کھڑے ہوں گے۔اور پھر ان پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا ۔البتہ ابن عمرؓ جدال و قتال کو پسند نہیں کرتے۔وہ خلافت کے طلب گار بھی نہیں ہیں ۔سوائے اس کے کہ خلافت خود بخود ان کو دی جائے۔
(ابن اثیر: ۔ البدایہ النہایہ)
مروان بن حاکم وہ شخص ہے کہ جب اس کی پیدائش ہوئی اور حضور ِ اقدس ﷺ کی خدمت میں تخنیک ( کوئی چیز چبا کر نرم کر کے کھلانے) کے لیے لایا گےاتو حضور ﷺ نے فرمایا ۔ یہ گرگٹ کا بیٹا گرگٹ ہے
اور بخاری، نسائی ، ابن ِ ابی حاتم اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا:
حضور نبیِ کریم ﷺ نے مروان کے باپ حاکم پر لعنت فرمائی ، جب کہ مروان صولبِ پدر(پدر باپ کو کہتے ہیں یعنی کہ باپ میں ابھی آنے والے بچے کا نطفہ موجود تھا اور وہ ماں کے پیٹ میں بچے کے وجود میں آکر پرورش پانے کے مراحل میں بھی نہیں آیا تھا)میں تھاتو وہ بھی اللہ کی لعنت سے حصہ پانے والوں میں سے ہوا۔وہ مروان کہ اس کو اور اس کے باپ کو حضور نبی اکرم ﷺ نے گرگٹ فرمایا اور جس کے باپ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف لعنت فرمائی بلکہ اس کے باپ کو شہر بدر فرما کر طائف میں رہنے کا حکم فرمایا۔ایسے مروان سے بھلا خیر کی امید کیسے ہو سکتی تھی۔
ولید نے حضرت امام ِ حسین ؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓکو بلانے کے لیے قاصد بھیجا۔ قاصد نے ان دونوں حضرات کو مسجد ِ نبوی ﷺ میں بیٹھا پایا۔قاصد ایسے وقت میں آپ حضرات کے پاس بلانے آیا جس وقت ولید کسی سے نہ ملتا تھا ۔قاصد نے کہا کہ آپ دونوں حضرات کو امیر نے بلایا ہے۔انہوں نے کہا کہ تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔پھر حضرت ابن زبیر ؓ نے حضرت امام حسین ؓ سے کہا کہ آپؓ کا کیا خیال ہے کہ امیر نے ہمیں ایسے وقت میں کیوں طلب کیا ہے جس وقت وہ کسی سے ملتا بھی نہیں؟حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ وفات پا گئے ہیں اور ہمیں اس لیے بلایا گےا ہے کہ ان ؓکی وفات کی خبر پھیلنے سے پہلے ہم سے یزید کے حق میں بیعت لے لی جائے۔اس پر حضرت ابن ِ زبیر ؓ نے کہا کہ میرا بھی یہی گمان ہے ۔ پھر انہوں نے حضرت امام حسین ؓ سے پوچھا کہ آپ کا کیا ارادہ ہے؟حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا کہ میں اس وقت اپنے جوانوں کو لے کر چلتا ہوں کیوں کہ انکار کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ معاملہ نازک صورت اختیار کر جائے ۔حضرت امام حسین ؓ اپنی حفاظت کا سامان لے کر ولید کے پا س پہنچے۔آپ ؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ میں اندر جاتا ہوں ، اگر میں تمہیںبلاﺅں یا تم سمجھو کہ میری آواز بلند ہو رہی ہے تو فوراً اندر آ جانا ۔اور جب تک میں باہر نہ آ جاﺅں تم یہاں سے مت ہٹنا ۔
آپ ؓ اندر گئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے ۔اس وقت ولید کے پاس مروان بھی موجود تھا۔ ولید نے آپ ؓ کو حضرت امیر معاویہ ؓ کے وفات پا جانے کی خبر سنائی اور یزید کی بیعت کے لیے کہا۔ آپ ؓ نے تعزیت کے بعد فرمایا کہ میرے جیسا آدمی اس طرح چھپ کربیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے۔اگر آپ باہر نکل کر سب لوگوں سے بیعت طلب کریں تو ان کے ساتھ مجھے بھی بیعت کے لیے کہنا ۔ولید کیونکہ امن پسند آدمی تھا اسے حضرت امام حسین ؓ کی بات پسند آئی اور اس نے کہا کہ اچھا آپ ؓتشریف لے جائیں۔اس پر مروان نے ولید سے کہا کہ اگر اس وقت تم نے ان ؓکو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی انؓ پر قابو نہ پا سکو گے۔ان ؓکو قید کر لو۔ اگر یہ بیعت کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ انؓ کا سر قلم کر دو۔حضرت امام حسین ؓ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ ابن الزرقا! تو مجھے قتل کرے گا یا یہ کریں گے؟خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے۔یہ کہہ کر آپ ؓ اپنے گھر تشریف لے گئے ۔
آپ ؓ کے تشریف لے جانے کے بعد مروان نے ولید سے کہا تم نے میرا قتل کا مشورہ نہ مانا اب تم کبھی دوبارہ انؓ پر قابو نہ پا سکو گے ۔ ولید نے کہاتم پر افسوس کہ تم مجھے ایسے مشورے دے رہے ہو جس میں میرے دین کی تباہی ہے۔کیا میں نواسئہ رسول ﷺ کو صرف اسی وجہ سے قتل کر دیتا کہ انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی ۔ خدائے ذوالجلال کی قسم! مجھے ساری دنیا کا مال و متاع مل جائے تو بھی میں انؓ کے خون سے اپنے ہاتھوں کو آلودہ ہرگز نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کرمروان نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔یہ بات اس نے صرف ظاہراً کہی تھی ورنہ دل میں ولید کی بات کو ناپسند کرتا تھا۔
(ابن اثیر)
حضرت امام حسینؓ خوب جانتے تھے کہ آپ ؓ کے انکار سے یزید بدبخت جان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہو جائے گا۔لیکن آپؓ کی غیرت ، تقویٰ و پرہیزگاری نے اجازت نہ دی کہ اپنی جان بچانے کی خاطر نااہل کے ہاتھ بیعت کر لیں اور نواسئہ رسولﷺ ہونے یا مسلمانوں کی تباہی کی پرواہ نہ کریں۔اگر آپ ؓ یزید کی بیعت کر لیتے تو وہ آپؓ کی بڑی قدر و منزلت کرتا اور دنیا کی بے شمار دولت آپ ؓ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا لیکن یزید کی بد کاری کے جواز کے لیے آپؓ کی بیعت کرنا سند ہو جاتی اور اسلام کا نظام درہم برہم ہو جاتا ۔اور دین میں ایسے فساد برپا ہوتے کہ جس کا دور کرنا صرف مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ۔بہر حال آپ ؓ یزید کی بیعت کے لیے تیار نہ ہوئے۔شام کے وقت ولید نے پھرحضرت امام حسین ؓ کے پاس آدمی بھیجا ۔آپ ؓ نے فرمایا کہ اس وقت تو میں نہیں آ سکتا صبح ہونے دیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ولید نے یہ بات مان لی۔