حضرت محمد بن حنفیہؓ کا مشورہ

حضرت محمد بن حنفیہ ؓ کے سوا تمام خاندان نے آپ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ ہجرت فرمائی۔حضرت محمد بن حنفیہ ؓ نے آپ ؓ سے کہا کہ بھائی ! آپ ؓ تمام اہل ِ زمین سے بڑھ کر مجھے عزیز ہیں۔میرا مشورہ ہے کہ آپ ؓ شہروں میں سے کسی ایسے شہر میں قیام نہ کریں۔ دیہات اور ریگستانوں میں قیام فرمائیں ۔لوگوں کے پاس اپنے قاصد بھیج کر انہیں اپنی بیعت کی دعوت دیں۔ اگر وہ آپ ؓ کی بیعت کر لیں تو آپؓ اللہ کا شکر اد اکریں اور اگر وہ کسی اور شخص پر متفق ہو جائیں تو اس سے آپ ؓ کے اوصاف وکمالات اور فضیلت میں کچھ کمی نہیں آئے گی۔مجھے خوف ہے کہ آپ ؓ مخصوص شہر یا کسی مخصوص گروہ ، جماعت کے پا س جائیں گے تو ان میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ایک گروہ آپ ؓ کے ساتھ ہو گا اور دوسرا مخالف۔اور ان دونوں میں جنگ و جدل کی نوعیت پیدا ہو جائے گی۔تو سب سے پہلے آپ ؓ ان کے تیروں کانشانہ بنیں گے۔ایسی صورت میں ایک معزز اور شریف ترین شخص جو کہ حسب و نسب کے اعتبار سے ساری امت سے بہتر ہے ۔اس کا خون سب سے ارزاں ہو جائے گا ۔اور اس کے اہل و عیال کو ذلیل کیا جائے گا۔یہ سن کر حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا کہ بھائی پھر میں کہاں جاﺅں ؟ تو محمد بن حنفیہ ؓ نے کہا کہ آپ ؓ مکہ چلے جائیں۔ اگر وہاں آپ ؓ کو اطمینان ہو جائے تو ٹھیک اور اگر اطمینان نہ ہو تو پھر آپ ؓ ریگستانوں کی طرف نکل جائیں ۔ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے رہیں ۔اور لوگوں کے بدلتے ہوئے حالات دیکھتے رہیں ۔آپؓ کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔کیوں کہ جب واقعات سامنے آتے ہیں تو رائے بھی صحیح ہو جاتی ہے۔آپ ؓ نے فرمایا بھائی تم نے خیر خواہی اور شفقت فرمائی ہے۔ انشاءاللہ تمہاری رائے درست اور موافق ثابت ہو گی۔(الطبری ۶:۴۶ ۔ ابن اثیر ۴:۶۱،۷۱ )
حضرت امام حسین ؓ جب اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ منورہ سے نکلے تو آپ ؓ یہ آیت پڑھ رہے تھے۔
ترجمہ: اور وہ اس شہر سے نکلا ڈرتا ہوا ...اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے ۔ کہا: اے میرے رب ! مجھے ظالم فوج سے نجات عطا فرما (القصص ۸۲:۱۲ )
اور جب آپ ؓ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ ؓ نے یہ آیت پڑھی۔
ترجمہ : اور جب مدینے کی طرف متوجہ ہوئے کہا ، اللہ ہی میرا رب مجھے سیدھی راہ پر چلائے گا
(القصص ۸۲:۱۲،۲۲ )
جب آپ ؓ مکہ معظمہ پہنچے اس وقت میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ مکہ میں اپنے کئی حامیوں کو تیار کر چکے تھے۔
یزید نے رمضان ساٹھ ہجری میں ولید بن عقبہؓ کو معزول کر دیا ۔اور اس کی جگہ عمرو بن سعد کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔عمرو بن سعد نے، اور ایک روایت کے مطابق خود یزید نے مکہ معظمہ کامحاصرہ کر لیا۔حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو گرفتار کرنے کے لیے بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکر مکہ کو روانہ کیا ۔لشکر نے مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے موثر دفاع کیا۔ اس کاروائی کے دوران یزید کے لشکر کا سپہ سالار مارا گےا ۔اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو فتح ہوئی۔حضرت امام حسینؓ اس معرکے میں حرمتِ کعبہ کے پیش ِ نظر شریک نہ ہوئے اور الگ تھلگ رہے۔کیونکہ جب آپؓ مکہ پہنچے اور وہاں کے لوگوں کو آپ ؓ کی تشریف آوری کی خبر ہوئی تو جوق درجوق لوگ آپ ؓ کی خدمت میں آنے لگے او ر زیارت کا شرف حاصل کرنے لگے۔آپ ؓ مکہ میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم رہے۔نہ ہی اس دوران آپ ؓ نے یزید کے خلاف کسی سے بیعت لی اور نہ ہی اپنی موافقت میں کوئی لشکری طاقت فراہم کی۔