اہلِ کوفہ کی مشاورت اور امامِ عالی مقامؓ کو دعوت دینا

حضرت علی ؓ کے زمانے سے ہی کوفہ آپ ؓ کے صحابوں اور محبوں کا مرکز تھا ۔وہاں کے لوگ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دورِ خلافت میں ہی حضرت امامِ حسین ؓ کی خدمت میں تشریف آوری کے لیے عرضیاں بھیج چکے تھے۔مگر آپ ؓ نے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب جب انہیں یہ پتا چلا کہ امیر معاویہؓ کا انتقال ہو گےا ہے۔ اور حضرت امام حسین ؓ ،حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ ، اور حضر ت عبد اللہ بن عمر ؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے ۔ مکہ کا پہلا معرکہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے سر کر لیا ہے ۔اور اس میں یزیدی لشکر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور یہ کہ حضرت امامِ حسین ؓ بھی مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ چلے گئے ہیں ۔اس سے محبان ِ علیؓ کے حوصلے بلند ہوئے ۔انہوں نے ایک شخص سلمان بن صرد الخزامی کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس کے گھر ایک مجلس ِ مشاورت طلب کی۔تمام صحابہ سلمان بن صرد ؓ کے گھر جمع ہو ئے اور امیر معاویہؓ کے مرنے کا ذکر کر کے سب نے اللہ کا شکر ادا کیا ،پھر سلمان بن صرد نے سب سے کہا کہ معاویہ ہلاک ہو گےا ہے اور امامِ حسین ؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے اور مکہ چلے گئے ہیں۔تم لوگ انؓ کے اور ان ؓکے باپ ؓکے صحابی ہو ۔بس تم خوب جان لو کہ اگر تم ان ؓکے مدد گار بن سکتے ہو اور دشمنوں سے جہاد کر سکتے ہو تو انؓ کو لکھو۔ اور اگر تمہیں اپنی کمزوری اور بزدلی کا اندیشہ ہو تو انؓ کو دھوکہ نہ دو۔سب نے کہا کہ ہم انؓ کو دھوکہ نہیں دیں گے۔بلکہ ہم انؓ کے دشمنوں سے جنگ کریں گے۔اور انؓ پر اپنی جان نثار کریں گے۔سلمان نے کہا پھر تم انہیں لکھو۔ جس پر انہوں نے آپ ؓ کی طرف کثرت سے خطوط لکھے اور پھر بعد میں وفود کا سلسلہ بندھ گےا۔
(الطبری

پہلا خط عبد اللہ بن سبیع ہمدانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ روانہ کیا گےا ۔
جو امام ِ عالی مقام ؓ کی خدمت میں
مکہ معظمہ پہنچا۔اس خط کی روانگی کے دو ہی دن کے عرصے میں53 عرضیاں اور تیار ہو گئیں ۔جو ایک، دو ،تین اور چار آدمیوں کے دستخط سے تھیں ۔یہ سارے خطوط تین آدمیوں کے ہاتھ ارسال کئے گئے۔اس کے بعد پھر کچھ مخصوص لوگوں نے عرضیاں بھیجیں ۔اور یہ سب یکے بعد دیگرے تھوڑے تھوڑے وقفے سے حضرت امام ِ حسین ؓ کی خدمت میں پہنچیں ۔(طبری
خطوط زیادہ تر ان مضمون کے ہوتے تھے کہ آپ ؓ جلد از جلد کوفہ تشریف لائیں ۔مسند ِ خلافت آپ ؓ کے لیے خالی پڑی ہے۔آپ ؓ کے لیئے حاضر ہیں۔ سب آپؓ کی آمد کے منتظر ہیں۔ اور آپ ؓ کی دید کے مشتاق ہیں ۔آپ ؓ کے سوا کوئی ہمارا پیشوا اور امام نہیں ۔آپؓ کی مدد کے لیے لشکر موجود ہے۔کوفہ کا حاکم نعمان بن بشیر یہاں موجود ہے مگر ہم اس کے ساتھ نماز ِ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے۔اور نہ ہی اس کے ساتھ عید گاہ جاتے ہیںجب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ ؓ تشریف لا رہے ہیں تو ہم اس کو یہاں سے نکال کر ملک شام جانے پر مجبور کر دیں گے۔(الطبری)
آخری خط جو ہانی بن ہا نی سبیعی اور سعید بن عبد اللہ حنفی کے ہاتھ حضرت امامِ حسین ؓ کے پا س پہنچا ۔اس کے بعد آپ ؓ نے کوفہ والوں کو لکھا کہ تم لوگوں کے بہت سے خطوط ہم تک پہنچے جن کے مضامین سے ہم مطلع ہوئے ۔تم لوگوں کے جذبات اور شدتِ غم کا لحاظ کرتے ہوئے اس وقت ہم اپنے بھائی ، چچا کے بیٹے اور معتمدِ خاص مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیج رہے ہیں ۔اگر انہوں نے لکھا کہ کوفہ کے حالات ساز گار ہیں تو انشاءاللہ میں بھی تم لوگوں کے پاس جلد آ جاﺅں گا۔
(طبری )