حضرت امامِ حسینؓ کا فیصلہ

حضرت امامِ حسین ؓ کے پاس جب یہ خطوط پہنچے تو آپ ؓ کی ہمت اور غیرت دینی جوش میں آ گئی ۔آپؓ نے امر با لمعروف اور نہی عن المنکرکے لیے علم ِ جہاد بلند کرنا اپنا فرض سمجھ لیا ۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ آپ ؓ کے دیگر عزیزو اقارب اور کئی جلیل القدر صحابی ؓ اور تابیعین نے آپ ؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت آپؓ کوفہ تشریف نہ لے جائیں۔کوفہ کے لوگ بے وفا ہیں، جفاکار ہیں۔ انہوں نے آپؓ کے والدِ محترم سے بھی بے وفائی کی تھی۔ انہیں غربت، پردیس اور کسمپرسی کی حالت میں شہادت کے انجام تک پہنچایا تھا ۔اور پھر یہ لوگ وہ ہیں جو اپنے ظالم امیر کو تخت سے ہٹا کر دعوت نہیں دے رہے بلکہ تاحال اس کی اطاعت میں رہ رہے ہیں ۔پھر بھی آپ ؓ کو بلائے جا رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح آپ ؓ سے بے وفائی کر جائیں۔
امامِ عالی مقام ؓ نے یہ سب سنا اور فرمایا کہ:
امر با لمعروف اور نہی عن المنکراور دعوت ِ حق کی خاطر جہاد کرنا فرض ہو چکا ہے۔ وہ لوگ بے وفا و نادان ہیں اس بات سے مجھے کوئی سرو کار نہیں ۔میں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اس سوال سے ڈرتا ہوں کہ تجھے دعوتِ حق ایسے وقت میں دی گئی جب ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا ۔اور سنت ِ نبوی ﷺ کے خلاف سرکشی ہو رہی تھی۔دین ِ اسلام میں بدعت اور خرافات کورواج دیا جا رہا تھا ۔لوگوں
کے حقوق سلب ہو رہے تھے ۔آزادیاں چھینی جا رہی تھیں۔ اسلامی شعار کو نشا نہ

تضحیک بنایا جا رہا تھا ۔اسلامی حقوق اور قانون کا تصور مذاق بن کر رہ گےا تھا۔
حسینؓ ...!! اس وقت تو نے اس بغاوت کے خلاف جہاد کاعلم کیوں نہ بلند کیا ؟ پھر یہ بھی بتاﺅ اس وقت میں کیا جواب دوں گا جب کوفیوں نے قیامت کے روز بارگاہ ِ الٰہی میں کہا کہ ہم نے تو بہت کوشش کی تھی مگر امام ؓ بیعت کے لیے راضی نہ ہوئے تھے۔لہذا ہمیں یزید کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اس کی بیعت کرنی پڑی۔اگر امام ہاتھ بڑھاتے تو ہم تو اپنی جانیں فدا کرنے کے لیے تیار تھے
بہرحال یہ مسئلہ ایسا تھا کہ اس کا حل سوائے اس کے اور کچھ نہ تھاکہ حضرت امام حسینؓ ؓکوفیوں کی آواز پر لبیک فرمائیں۔ باوجود اس کے کہ جلیل القدر صحابہ کرام ؓ آپ ؓ کی اس رائے سے متفق نہ تھے۔ اور امامؓ کی محبت اور شہادت کی شہرت انؓ کے دلوں میں پریشانی پیدا کر رہی تھی۔ اور امامِ عالی مقام ؓ کو بھی جلیل القدر صحابہ ِ کرام ؓ کے شدید اصرار کالحاظ تھا۔مگر اہل ِ کوفہ کی درخواست کو رد فرمانے کے لیئے کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ تاہم آپ ؓ نے اتنا ضرور کیا کہ جب آپ ؓ کو یہ مشورہ دیا گےا کہ اگر آپ ؓ نے ضرور ہی جانا ہے تو پہلے وہاں کسی کو حالات کی آگاہی کے لیے بھیج دیں۔ اگرحالات ساز گار ہوں تو آپ ؓ تشریف لے جائیں ورنہ یہاں پر ہی جلوہ گر رہیں۔اس پر امام ِ عالی مقام ؓ نے سوچ کرکہ پہلے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ سفارت کے خیال سے بھیجا جائے۔اگر کوفیوں نے بدعہدی اور بے وفائی کی تو عذر ِ شرعی مل جائے گا اور اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہے تو صحابہ کرام ؓ کو تسلی دی جا سکے گی۔آپؓ نے حضرت مسلم بن عقیل ؓکو کوفہ سفارت کے خیال سے بھیجا اور فرمایا کہ :
اے میرے بھائی !کوفہ جا کر حالات کا جائزہ لو۔ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے خط لکھو اور مشورہ دو کہ آیا میرا وہاں آنا مناسب بھی ہے یا نہیں ؟ آپ ؓ نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفیوں کے خطوط کا جواب لکھ کر دیا کہ جو کچھ تم نے مجھ سے بیان کیا ہے وہ تمام میں نے جان لیا ہے ۔میں نے تمہارے پاس اہل ِ بیت میں سے اپنے قابل چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ؓ کو بھیجا ہے۔اور انہیں کہا ہے کہ وہ تمہارے حال کے بارے میں مجھے لکھیں ۔اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے وہ عقل مند اور بزرگان ِ قوم کے مشورے سے لکھا ہے تو میں انشاءاللہ بہت جلد تمہارے پا س پہنچ جاﺅں گا۔ اور میں اپنی جا ن کی قسم اٹھاتا ہوں کہ امام وہی ہے جو کتاب اللہ پر عمل کرنے والا ہو۔ والسلام
(ابن اثیر(